جھگڑا کس بات کا ہے؟

شیعہ اور سنی میں جھگڑا کس بات کا ہے؟لہو رنگ زمینی حقیقتوں کے باوجود میرے پیش نظر چند دنوں سے یہی ایک سوال ہے۔میں شیعہ نہیں ہوں ۔اللّٰہ نے مجھے دو بیٹیوں کی نعمت کے بعد بیٹے سے نوازا تو میں نے اس کا نام علی رکھا۔ہمارے گھر میں آنے والا پہلا ننھا وجود میری بھتیجی کا تھا ، اس کا نام فاطمہ ہے۔

میری چھوٹی بہن کے خاوند کا نام حسن ہے۔اپنے خاندان میں ادھر ادھر نظر دوڑاؤں تو شبیر، عباس، حسن اور حسین کے ناموں کی ایک مالا سی پروئی نظر آتی ہے۔حسینؓ کا ذکر آئے تو دل محبت اور آنکھیں عقیدت سے بھر جاتی ہیں۔میری پہلی کتاب شائع ہوئی تو اس کا انتساب میں نے ’اپنے آئیڈیلزسیدنا عمرؓ اور سیدناحسینؓ ‘ کے نام کیا ۔یہ کتاب سی ٹی بی ٹی پر تھی اس کے صفحۂ اوّل پر میں نے یہ شعر لکھوایا:

جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو
قائم رہو حسینؓ کے انکار کی طرح

میری شریکِ حیات کا تعلق اعوان قبیلے سے ہے ۔وہ بھی شیعہ نہیں لیکن ان کے ہاں یہ روایت ایک فخر کے ساتھ بیان کی جاتی ہے کہ ان کی نسبت سیدنا علیؓ سے جا ملتی ہے۔خواجہ معین الدین چشتی نے کس وارفتگی سے کہا تھا:’’ حقاکہ بنائے لا الٰہ است حسین۔‘‘والہانہ پن تو دیکھیے اقبال کہتے ہیں:

اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
اِک ضرب ید اللہی ، اک سجدہِ شبیری

مجھے بچپن کے وہ دن آج بھی یاد ہیں جب ہم سب مسجد میں اہتمام سے جایا کرتے تھے جہاں ہمارے خاندان کے قابلِ قدر بزرگ پروفیسر صفدر علی واقعہ کربلا سناتے ، نہ سنانے والا شیعہ تھا نہ سننے والے اہلِ تشیع ،لیکن دکھ اور درد ہڈیوں کے گودے میں اترتا محسوس ہوتا تھا۔دیوبندیوں کے حسین احمد مدنی ہوں یا جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد ۔۔۔نام ہی پکار پکار کر کہ رہے ہیں کہ ’’ ہمارے ہیں حسینؓ، ہم سب کے ہیں حسینؓ ۔‘‘ہمارے تو بابائے قوم ہی محمد علی جناح ہیں،سفر آخرت پہ روانہ ہوئے تو جنازہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا۔۔۔سوچتا ہوں پھر جھگڑا کیا ہے؟ سوائے بد گمانی کے؟ شیعہ بھائی دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا اہلِ بیت کی محبت کے یہ مظاہر کیا ہمیں ایک ما لامیں نہیں پرو سکتے؟کیا یہ بد گمانی مناسب ہے کہ ہر غیر شیعہ کو یزیدی سمجھا جائے؟کیاآج پاکستان میں کوئی ایک آدمی بھی ہے جس کی ماں نے اس کا نام یزید رکھا ہو؟سپاہِ صحابہ میں بھی ہمیں علی شیر حیدری کا نام ملتا ہے۔کیا اتنی نسبتوں کے صدقے ہم مل جل کر نہیں رہ سکتے؟

بات اب کہ دینی چاہیے، گھما پھرا کے بات کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔اصل مسئلہ کو زیرِبحث اب لانا ہی پڑے گا۔اس کو مخاطب کیے بغیر محض امن امن کہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔نفرتوں کی آگ دہلیز تک پہنچ چکی ہے۔کیا گھر جل جانے کا انتظار ہے؟اہلِ تشیع بھائی کیسے ہمیں اہلِ بیت کی محبت میں خود سے پیچھے سمجھ سکتے ہیں۔

حسینؓ میرے بھی اتنے ہیں جتنے ان کے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ محبتوں کا انداز جدا جدا ہے لیکن ’ حسین مِنی وانا من الحسین‘ کے ارشاد مبارک کے بعد کونسا دل ہوگا جس میں حسینؓ کی محبت نہ ہو گی۔رہے ان کے اختلافی معاملات تو اتنی مشترک محبتوں کے صدقے کیا ان معاملات کو اللّٰہ پر نہیں چھوڑا جا سکتا؟کیا ایک دوسرے کی دل آزاری ضرور کرنی ہے؟زندہ معاشروں میں اختلافات ہوتے ہیں ان اختلافات کو ایک دائرے میں رہنا چاہیے اور ان اختلافات کے ساتھ زندہ رہنے کا ڈھنگ آنا چاہیے۔مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب یہ اختلافات بد گمانی میں ڈھل جاتے ہیں۔بد گمانی پھر حادثوں کو جنم دیتی ہے۔اختلافات تو امام خمینی اوربنی صدر میں بھی ہو گئے تھے۔اور ابھی کل کی بات ہے ہم نے حسین موسوی ، ہاشمی رفسنجانی ،محسن رضائی،اور مہدی کروبی کو احمدی نژاد صاحب کے خلاف احتجاج کرتے دیکھا۔

سنی حضرات کو بھی اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے۔میں اکثر سوچتا ہوں شیعہ کے آئمہ کرام سے کیا ہمارا کوئی تعلق نہیں۔کیا امام زین العابدین سے ہمیں کوئی نسبت نہیں؟ کیا امام جعفر صادق سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں؟۔۔۔کبھی ہم نے غور کیا یہ ہستیاں کون تھیں؟ کس عظیم اور مبارک خانوادے سے ان کا تعلق تھا؟ یہ ہمارے ہی بزرگ تھے۔یہ بھی ہماری ہی شان اور آبرو ہیں۔ہم نے انہیں کیوں بھلا دیا؟ ہم نے انہیں کیوں نظر انداز کر دیا؟ ان کی تعلیمات ہمیں کیوں نہیں بتائی جاتیں؟ان کی دینی خدمات سے ہم محروم کیوں؟ان کے فہم دین سے ہم فیض کیوں نہیں حاصل کرتے؟ہم ان کے علمی کام سے اجنبی کیوں ہیں؟ یہ بیگانگی کیوں ہے؟دین کے فہم کے باب میں انہوں نے بھی تو زندگیاں صرف کر دیں، یہ بھی تو ہمارا اجتماعی اثاثہ ہیں۔کیا ہماری باہمی نفرتیں اور جھگڑے اب اتنے منہ زور ہو گئے ہیں کہ ہم نے اپنے بڑے بھی بانٹ لیے ،ہم نے ان سے بھی منہ موڑ لیا، ہم اپنے ہی چشمہ ہائے علم سے محروم ہو گئے؟

میری ہر دو اطراف کے بزرگان سے التجا ہے: آئیے اس کلمے کی طرف جو ہم سب میں مشترک ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے