راجا کا ویسپا اور اٹک قلعہ

پارلیمنٹ کی راہداریوں اور اسلام آباد کی صاف ستھری سڑکوں پر درمیانے قد، گورے رنگ اور خوبصورت سفید بالوں والا ایک شخص اکثر ملتا تھا۔ اس شخص سے ناآشنا لوگ اسے دیکھ کر اور اس سے مل کر گمان کر لیتے تھے کہ وہ ایک مغربی سفارتکار سے مل رہے ہیں۔ اس لیے کہ اس کا لہجہ اور اس کے اطوار سفارت کاروں جیسے ہوتے تھے۔ صرف یہی نہیں وہ عربی، انگریزی، اردو، فارسی زبان میں بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

گذشتہ آٹھ ماہ سے یہ خوبصورت شخص اب پارلیمنٹ میں ملتا ہے اور نہ ہی اسلام آباد میں سر راہ کبھی اس سے ملاقات ہوتی ہے۔ کسی تقریب میں بھی اب اس سے آمنا سامنا نہیں ہوتا۔ شاید اسے اسلام آباد سے جانے کی جلدی تھی اور وہ اسلام آباد میں دوستوں کی بھری محفل چھوڑ کر کہیں چلا گیا ہے۔ اس کی کمی نہ صرف ہم محسوس کر رہے ہیں بلکہ بہت سارے اس کے دوست بھی اس کمی کا ذکر کرتے ہیں۔

رائٹر کے بیوروچیف پاکستان سائمن ڈین یار Simon Denyer بھی کہتے ہیں کہ میں اب اس خوبصورت شخص کی آواز ٹیلیفون پر بھی نہیں سن پا رہا۔ ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران اس شخص کے منہ سے نکلی ہوئی ہیلو کی مخصوص آواز مشہور تھی۔

سائمن کہتے ہیں کہ میں اس کی ہیلو مس کر رہا ہوں۔ یہ ایک بہادر شخص تھا جو کسی کے ڈر اور خوف سے اپنے را ستہ نہیں بدلتا تھا اور نہ ہی اپنا موقف بدلتا تھا ، مگر پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا ہے۔ اب اس سے ملاقات ممکن ہے اور نہ وہ پارلیمنٹ آتا ہے ۔

یہ وہ شخص تھا جسے 1960ء میں جنرل ایوب خان نے اٹک قلعہ میں ڈال دیا تھا۔ فیلڈ مارشل کی فوجی آمریت کی غلطیوں کی نشاندہی پر اس شخص کو اٹک قلعے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ دسمبر کی سردی میں دریائے کابل کے ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ دریائے کابل کا ٹھنڈا پانی اسے اپنے راستے سے ہٹانے پر مجبور کر سکا اور نہ ہی اس کے جذبے کو شکست دے سکا۔ہار ایوب خان کے حصے میں آئی اور راجہ صاحب رہا کر دیے گئے۔

اس شخص کا اسلام آباد میں گھر ایک چھوٹا عجائب خانہ تھا جہاں نادر تاریخی کتابیں اور اشیاء چونکا دیتی تھیں۔ اس کے گھر میں نادر کتابوں کے علاوہ نادر اشیاء اور صحن کے خوبصورت پھول دیکھ کر اس کے ذوق مطالعہ اور زندگی سے محبت کا اندازہ ہوتا تھا۔

سنا ہے 1962ء میں اس شخص کے پاس ایک ویسپا تھا اور اسلام آباد میں اس کے دوست اس ویسپے پر پارلیمنٹ ہاؤس جایا کرتے تھے۔ اب یہ شخص رہا نہ اس کا ویسپا اور نہ ہی اس کا عجائب خانہ۔ یہ خوبصورت شخص ایک کشمیری تھا جو کشمیر کی روایات کا امین بھی تھا ۔

اسلام آباد کے صحافیوں میں معتبر ترین اور خوبصورت اس شخص کا نام تھا راجہ اصغر ۔ عمر کی سات دھائیوں کے بعد بھی راجہ اصغر کی شکل وصورت پر بڑھاپے کے اثرات نظر نہیں آتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے ابتدائی دور میں جب مجھے آر آئی یو جے کے سیکرٹری کی ذمہ داری دی گئی تو حالات مشکل اور کٹھن تھے۔

میں اکثر راجہ صاحب کو تلاش کرتا۔ راجہ صاحب حوصلہ دیتے اور ساتھ ہی اچھے مشورے بھی۔ کشمیری صحافیوں کی مجلس میں بھی شرکت کرتے تھے۔ اسلام آباد میں کام کرنے والے کشمیری اخبار نویسوں کی تنظیم کشمیر جرنلسٹس فورم کے انتخابات کے موقع پر وہ کشمیری صحافیوں کے ساتھ ہوتے۔

انہیں اپنے 56 سالہ کیریئر کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے آگاہ کرتے، نوجوان صحافیوں کو مشورے دیتے، ہمارے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے ۔ ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کے لیے موجود ہوتے۔

ہم حیران اس وقت ہوتے تھے جب وہ بتاتے تھے کہ ٹیلی فون( موبائل ، لینڈ لائن) انٹرنٹ ، ای میل کے بغیر60،70اور80 کی دھائی میں صحافی کیسے کام کرتے تھے؟ لینڈ لائن فون موجود تھے مگر ہر کسی کی دسترس میں نہ تھے۔

90 کی دھائی میں رابطے کے لیے ان ایجادات کا انقلاب آیا اور زندگی آسان ہوتی گئی۔ راجہ اصغر ٹیلی پرنٹر نظام سے آنے والی اور بھیجی جانے والی خبروں کی تاریخ اور دلچسپ واقعات بتاتے۔

اس دفعہ میں شدت سے اس شخص کی کمی محسوس کروں گا۔ اس لئے کہ وہ 29 اکتوبر کو ہماری حوصلہ افزائی کے لئے موجود نہیں ہوں گے ۔ جس شخص کے حوصلے کو جنرل ایوب شکست نہ دے سکے کینسر نے اسے شکست دے دی تھی ۔ 78 سال کی عمر میں راجہ صاحب 13فروری 2016 کوچلے گئے بہت دور۔

راجہ اصغر ایک پرفیکٹ اخبار نویس تھا۔ اس کا طویل کیریئر کامیابیوں اور کامرانیوں سے بھرپور تھا۔ وہ ایک شاندار کاپی رائٹر تھا۔ اچھی تحریر کے لئے وہ الفاظ کا محتاج نہیں تھا بلکہ الفاظ اس کے محتاج تھے۔

اگر کہا جائے کہ گوگل کے آنے سے پہلے اس کا ذخیرہ الفاظ گوگل سے کہیں زیادہ تھا تو یہ بہتر ہو گا۔ ڈنہ کچیلی ضلع مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے راجہ اصغر کو زندگی سے ہی نہیں پھولوں سے بھی بہت محبت تھی۔

ڈنہ کچیلی میں ان کے گھر کے سامنے پھولوں کی کیاریاں اس کی گواہی دیتی تھیں۔ عجیب بات ضرور ہے مگر ایسا ہی ہے مدرسے سے پڑھا ہوا راجہ اصغر انگریزی ادب کے علاوہ فارسی، عربی اور اردو ادب کی شناسائی میں بھی کمال مہارت رکھتا تھا۔

ہمارے دوست عابد خورشیدبتاتے ہیں کہ راجہ اصغر کے گاؤں میں غربت اور پسماندگی تھی۔ راجہ اصغر کی نظر گاؤں کے ہر شخص پر تھی اور وہ ان کی مدد کیا کرتے تھے ۔

ممبران اسمبلی، وزراء بیورو کریٹس حتیٰ کہ وزرائے اعظم ذاتی طور پر راجہ اصغر کو جانتے تھے۔ ان کی دیانت، شرافت اور پیشہ ورانہ امور میں مہارت کی وجہ سے سب ان کا احترام کرتے تھے۔

کسی شخص کے کام کے سلسلے میں اگر وہ لب ہلا دیں تو کسی وزیر یا بیوروکریٹ کے لیے انکار ممکن نہیں ہوتا تھا مگر وہ نظم و ضبط اور اصول وقواعد کے پابند تھے آؤٹ آف دی وے کسی کام کے لئے کسی کو مجبور نہیں کرتے تھے ۔

اکثر ایسا ہوا کہ ان کے گاؤں سے لوگ سرکاری کاموں کے لیے ان کے پاس آتے راجہ صاحب انہیں طریقہ کار بتاتے اپنی جیب سے ان کی مدد کر کے ان کا راستہ آسان کر دیتے ۔

راجہ اصغر کا صحافتی کیریئر 1960ء میں شروع ہوا جب وہ گریجویشن کر کے خیبر مل پشاور سے وابستہ ہو گئے۔ بعدازاں رہا کر دیئے گئے۔ سرکاری خبررساں ایجنسی ’’اے پی پی‘‘ کے ساتھ منسلک رہے ۔

افغانستان پر روسی حملے کے بعد برطانوی خبر ایجنسی رائٹر نے راجہ اصغر کی خدمات حاصل کیں۔ یہ 1980ء کی دہائی کی بات ہے۔ 2002ء میں رائٹرز سے ریٹائر ہوئے اور گذشتہ 15 سال کے دوران وہ اخبار ڈان کے لئے پارلیمنٹ کور کرتے رہے ۔

سندھ سے تعلق رکھنے والا ایک اخبار نویس کچھ دن پہلے میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنے تھیسز کی تیاری کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس گیاتھا۔ مجھے بتایا گیا کہ پارلیمنٹ پر کچھ لکھنے سے پہلے راجہ اصغر سے مل لیں۔

پارلیمنٹ ہاوس کی پریس گیلری میں کاغذ اور قلم کے بغیر ایک شخص توجہ سے پارلیمانی کارروائی سن رہا تھا، مجھے بتایا گیا یہی شخص راجہ اصغر ہے ۔ مجھے راجہ اصغر سے مل کر لگا کہ وہ پارلیمنٹ کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔

ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ دن بھر کی کارروائی کو 800، 1000 الفاظ پر مشتمل ایک سٹوری میں سمو دیتے تھے۔

ڈان اخبار کے لئے پارلیمنٹ کی صرف ایک سٹوری لکھتے تھے مگر اس سٹوری کی خوبی ایسی ہوتی تھی کہ جیسے کوزے میں سمندر ڈال دیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے