واٹس ایپ، فیس بک کا عذاب اور سرل المیڈا

طبیعت خراب ہوئے کئی روز گزر گئے، گھر پہ بیٹھے بیٹھے تنگ بھی آ گیا اس کے باوجود سوچا تھا ابھی کچھ لکھوں گا نہیں بلکہ آرام کرتا رہوں گا۔۔ بس واٹس ایپ پر نظر پڑی اور کوئی خبر مل گئی تو وہ دفتر بھیج دوں گا لیکن ہمارے دوستوں نے واٹس ایپ کو بھی ماشااللہ ایسا بنا دیا ہے جیسے کسی زمانے میں بلیئرڈ ٹیبل ، سنوکر ٹیبل یا وڈیو گیمز کا حشر ہوا کرتا تھا۔

ہر وقت یار لوگ اس میں گھسے رہتے تھے، ہمارے بڑے بھائی نے تو اپنا سنوکر کلب بنا لیا تھا اس لیے ہم پر تو وہ فرض ہو گیا تھا ہر وقت وہاں رہنا، کھیلتے رہنا اور وہ بھی آفیشل کے طور پر۔۔ ظاہر ہے اس طرح پیسے نہیں خرچ ہوتے تھے۔ اسی اعتماد کے باعث ہارتے بھی کبھی کبھی ہی تھے۔ماہر ہو گئے تھے، لوگ اپنے محلے میں ہونے والے مقابلوں میں ساتھ لے کر جاتے تھے۔
ٹھیک اسی طرح جب تک موبائل انٹرنیٹ مہنگا تھا، یار لوگوں نے اتنا تنگ نہیں کیا جتنا اب کرتے ہیں، اب ہر دوست نے اپنا الگ گروپ بنا رکھا ہے، کوئی خبروں کا گروپ ہے لیکن آپ کے متعلق نہیں ، پھر بھی آپ اس سے الگ نہیں ہو سکتے۔ جونہی آپ نے گروپ چھوڑا آپ کو ان باکس پیغام ملے گا جس میں شکوہ کیا جائے گا،ہمارے گروپ میں لوگ شامل ہونے کے لیے منت کرتے ہیں لیکن میں نے بالکل منتخب لوگوں کو اپنے گروپ میں رکھا ہے۔

وہ دراصل میرے بیٹے نے گروپ چھوڑ دیا ہو گا ، غلطی ہو گئی۔۔میں کہہ دیتا ہوں
اچھا چلیں میں پھر دوبارہ ایڈ کر دیتا ہوں لیکن بچوں سے بچایا کریں فون کو۔۔اچھا اللہ حافظ
پھر سے آپ اس گروپ کا حصہ بن جائیں گے، جہاں صبح ہونے سے بھی بہت پہلے کوئی
دوست آپ کو گڈمارننگ بولے گا۔۔ پھر دھڑا دھڑ ہر گروپ ممبر اس کا جواب دے گا۔۔

کوئی دوست اخبار میں شائع ہونے والی اپنی خبروں کی تصویروں سے آپ کے موبائل کی میموری کا بیڑہ غرق کرے گا، کئی دوست خبر پڑھے بغیر ویری گڈ یا نائس لکھ دیا کرتے ہیں۔

میں نے ایک بار اپنے ایک دوست کو پوچھا یار تو ہر خبر ، ہر تصویر اور ہر کالم کی تعریف کرتا ہے تیرے پاس بہت وقت ہے تو کہنے لگاکون سا پڑھتا ہوں جیسے ہی کوئی خبریا تصویر لگاتا ہے میں نیچے گڈ لکھ دیتاہوں۔۔واہ شاندار آئیڈیا

ایک مرتبہ رات گئے کوئی ڈھائی بجے بے تکلف دوستوں کے گروپ میں بحث جاری تھی، میں نے چیٹ میوٹ (خاموش) کر رکھی تھی، اس پر ہمارے دوست حافظ صاحب نے ایک میسج لکھاکہ بھائیوں صبح صبح سینیٹ اجلاس ہے کام پر جانا ہے اس لیے مہربانی کرو۔۔ سو جاؤ۔۔ جواب ملا آپ میوٹ کر دیں اور سو جائیں۔۔

یہ اخبار کے وہ دوست ہوتے ہیں جن پر دفتر کی جانب سے فون ہر وقت آن رکھنے کی پابندی نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ الیکٹرانک میڈیا والے دوست کے ٹکرز کسی بھی وقت آ سکتے ہیں اس لیے انہیں ہر حال میں ہر وقت فون پر آنے والے میسج دیکھنے ہیں۔

کئی گروپس ہیں جن میں ایک جیسے ممبرز ہیں مگر کوئی معزز دوست جب کسی کی لکھی تحریر یا کوئی لطیفہ شیئر کرنا چاہے تو وہ ایک یا دو گروپس میں شیئر کرنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ ہر گروپ میں کاپی پیسٹ کرتا ہے تاکہ لوگ نوٹیفکیشنز سے استفادہ کر سکیں۔ بھائی اگر آپ کو کوئی چیز بہت اچھی لگی ہے تو آپ ایک دو گروپس کے لوگوں کو شیئر کر دیں اور باقی کام کا بوجھ کچھ اور لوگوں پر بھی چھوڑ دیں تاکہ اگر وہ شیئر کرنا چاہیں تو وہ بھی کر سکیں۔

اس سے بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا تو پھر یہ وہی پوسٹ فیس بک پر بھی لگاتے ہیں اور صرف
لگاتے نہیں بلکہ پچاس سے سو فیس بک فرینڈز کو اس میں ٹیگ بھی کر دیتے ہیں، کوئی محروم نہ رہ جائے۔۔ میں نے تنگ آ کر اپنی پرائیویسی سیٹنگز میں تبدیلی کر لی اور اس میں ٹیگ ریویو لگا دیالیکن کمال کے احباب ہیں دن میں پچیس پوسٹس بھی کریں تو مجھے ٹیگ ضرور کرتے ہیں۔ اس لیے دن میں اگر چار سے پانچ مرتبہ ٹیگ ریویوز کو ڈیلیٹ نہ کروں یا ہائیڈ نہ کروں تو ایک دن میں ڈیڑھ سو کے قریب ریویو جمع ہو جاتے ہیں اور بس میرا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

کئی دوست پی ٹی آئی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں انہوں نے نواز شریف کے حوالہ سے پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کے شریفانہ پیغام جب بھی فیس بک پر لگانے ہوتے ہیں اس میں بھی مجھے ٹیگ کرنا نہیں بھولتے، اسی طرح ن لیگ کے دوست بھی یہی کمال کرتے ہیں۔

کئی صحافی دوستوں کو جو وڈیو، خبر اچھی لگے وہ بھی اسے شیئر کرنے سے نہیں چوکتے اور اس میں بھی مجھ سمیٹ ڈیڑھ سو غریبوں کو ٹیگ کرنا ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ کتنی بار فیس بک پر سٹیٹس بھی لگایا کہ دوستوں اپنی غیر ضروری پوسٹوں میں مجھے ہرگز ٹیگ نہ کیا کریں مگر وہ دوست مجھ سے اپنی بے تکلفی کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا میں نے کسی اور کے لیے لکھا ہے ان کے ساتھ اس پوسٹ کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے یہ سلسلہ بھی جاری ہے۔

بہرحال۔ ان دنوں بیماری کے باعث مجھے دفتر نے ریلیکس کر رکھا ہے اس لیے میں فون دور رکھ کر سوتا ہوں، وہ بھی سائیلنٹ موڈ پر۔۔ لیکن جب لیٹے لیٹے تھک جاتا ہوں تو فون اٹھا لیا کرتا ہوں، واٹس ایپ گروپس پر یار لوگ آج کل بہت زور شور سے ایک معاملے پر بحث کر رہے ہوتے ہیں۔ معاملہ ہے حکومت، اسٹیبلشمنٹ ملاقات کی اندرونی کہانی بیان کرنے کے دعویدار سرل المیڈا کی۔اس معاملہ پر فیس بک اور واٹس ایپ پر خبر کے حوالہ سے وہ لوگ بحث کر رہے ہیں جنہیں وقائع نگار تک لکھنا نہیں آتا یا اس کا مفہوم نہیں معلوم ۔بے چارے رپورٹر سرل المیڈا کے ساتھ وہ لوگ کھڑے ہو کر آزادی اظہار کی باتیں کر رہے ہیں جو کل تک تمام اخبارنویسوں کے لیے پابندیاں تجویز کرتے رہے ہیں۔

خبر چھپ گئی، اس کا نام ای سی ایل میں شامل ہو گیا۔۔ انکوائری کا حکم ہو گیا۔ ان سب باتوں پر بات کے لیے کافی لوگوں نے رابطہ کیا مگر میں نے ناسازی طبع کے باعث بات کرنے سے معذرت کر لی۔ ریڈیو سے کال آئی، میزبان کے اصرار پر میں نے بات کر لی۔

میرا اس میں موقف بڑا واضح تھا خبر کے حوالہ سے بات ہم تب کرتے جب حکومت ای سی ایل میں نام نہ ڈالنے کی غلطی نہ کرتی۔۔ اب تو ہم صرف حکومت کی کوتاہی پر بات کریں گے۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ 2007 میں پرویز مشرف کی ایمرجینسی پلس کے خلاف جدوجہد کرنے والی صحافتی تنظیم پی ایف یو جے ایک تھی ۔۔ اس نے وہ کام کیا جو مالکان اخبارات و چینل نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ، مشرف کو گھٹنے ٹیکنا پڑ گئے۔

آج اس ورکر کی طاقت کو خود مالکان چینل و اخبارات نے منقسم کردیا ہے۔ اس کا وہ فائدہ بھی اٹھاتے ہیں مگر ایمرجنسی پلس یا مارشل لا جیسی صورتحال میں اب مالکان کو ایسی فورس نہیں مل پائے گی، اس لیے ورکر کو تقسیم کرنے میں ان کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے۔

اگر ہر مالک اپنے وقتی فائدے کے لیے اپنی پاکٹ یونین بنا کر یہ سمجھتا ہے کہ وہ کامیاب ہو گیا ہے، مشکل حالات میں ہم ورکر یہ سوال پوچھیں گے ان مالکان سے کہ آپ کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ یہ بات اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی بی اے کو نہیں بھولنی چاہئے کہ آزادی صحافت کے لیے قربانی ہمیشہ ورکر نے دی، کوئی مالک ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوا نہ کسی مالک نے کوڑے کھائے اور نہ ہی جیل جانے کی زحمت کا سامنا کرنا پڑا۔۔ یہ صعوبتیں ہمیشہ ورکر نے برداشت کیں لیکن اگر یہ ایسے ہی تقسیم رہے تو پھر قربانی آپ کو خود دینا پڑے گی۔۔
ورنہ آپ کے چینل بند ہونے پر کون نعرے لگائے گا زندہ ہے صحافی زندہ ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے