ایک دیوار مہربانی اُن کے لیے ۔۔۔۔۔

بھلا ہو ایرانی باشندوں کا کہ انہوں نے ’ دیوار مہرباں بنانے کی روایت ڈال دی ۔جو دیواروں پر صرف’’ سیاسی اور حکیمی نعرے ‘‘ پڑھنے کے عادی ہیں تو جناب ان کی معلومات میں اضافہ کردیں کہ یہ دیوار ایک ایسی دیوار ہے جہاں وہ چیزیں جو ہم ناکارہ اور قابل استعمال نہیں سمجھتے، وہ دوسرے ضرورت مندوں کے لیے یہاں لا لا کر ٹانگ دی جاتی ہیں۔سفید پوش چپ چاپ آتے ہیں اور من پسند اشیا یہاں سے بلا معاوضہ لے کر گھروں کا رخ کرتے ۔

پاکستانیوں کے اندر بھی ’ ہمدردی ‘ کے جوار بھاٹا نے جوش مارا تو یہ دیوار ، سرحدوں کی قید سے آزاد ہو کر دھیرے دھیرے مختلف پاکستانی شہروں میں پھیلتی چلی گئیں ۔ کچھ نے ’ فیشن ‘ کے طور پر تو کچھ نے ’خود نمائی ‘ کے زوم میں آکر‘ تو کچھ نے واقعی کسی کے کام آنے کے نیک مقصد کے تحت اس ’ دیوار مہربانی ‘ کو بنانا شروع کردیا ۔ فالتو چیزیں ٹانگیں جانے لگیں۔ غریبوں کے تو سمجھیں وارے نیارے ہوگئے ۔ مہنگائی کے اس دور میں پیر پھیلانے کے لیے چادر تک نہیں مل رہی ۔ حکمرانوں کے’ شاہی علاج ‘ کا بوجھ عوام کے پیٹ کو کاٹتا ہی چلا جارہا ہو ۔’ تبدیلی کانعرہ‘ لگا کر اور فضا میں اڑ کر محل نما گھر میں’ انصاف احتساب ‘ کی دھاڑیں مارنے والوں کے شور سے ’ جنتا جنادھن ‘ کے کان پک گئے ہو۔ ۔وہیں دوسری جانب سیاست کا نو خیز ولی عہد’ خاندانی قربانیوں ‘کو یاد دلا دلا کر سنہرے باغ کی سیر کرا رہا ہو ۔

اِس معاشرے میں ’ دیوار مہربانی ‘ صرف چند شہروں میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں بن جائیں تو کم از کم ضرورت مند اور ناداروں کے امید کے دیے تو نہ ٹمٹائیں ۔ لیکن کچھ دیواریں ایسی بھی ہوں جس میں ہم وہ سارے جھانسے اور دلاسے ٹانگ سکیں جو ہمارے حاکم دکھادکھا کر ہمیں عرصے دراز سے خواہشوں کی سولی پر ٹانگ رہے ہیں۔ ۔ان ارمانوں کو بھی ٹانگ دیں جو ہم برسوں سے اپنی آنکھوں میں سجائے آرہے ہیں۔نہ یہ پہلے ہمارے کسی کام آئے اور نہ اب ۔ ان کی ضرورت اب مستقبل کے معماروں کو ہے ۔ تاکہ وہ بھی تو ان سے فائدہ اٹھائیں ۔ اور جب وہ تھک جائیں تو ہماری طرح لا کر یہاں آویزاں کردیں۔

ویسے ایسی ہی ایک ’ دیوار مہربانی ‘ ہمیں اپنے دل کے اندر بھی بنانی چاہیے ۔ ایسی دیوار جس پر بگڑی ٹنگی چیزیں ہم کبھی استعمال نہ کریں۔ جس پر ہم اپنی جھوٹی انا ، تکبر اور نفرت کو ٹانگ کر بھول جائیں۔ لیکن’’بلڈوز‘‘ کردیں اس دیوارکو جو خود غرض خواہشات سے مزین ہوں۔ جو کبھی نہ کبھی دوسروں کی خوشیوں پر گرتی ہیں۔کچھ دیواروں سے دل کو میل کوکھرچ کھرچ کر اتار پھینکیں۔ مشکل ذرا ہے ۔ محنت طلب کام ہے ، حوصلہ چاہیے ، لیکن سب کچھ ہوسکتا ہے کیونکہ ہم ہی تو ان دیواروں کے معمار ہیں۔جب بناسکتے ہیں تو پسینہ بہا کر تو ڈھا بھی سکتے ہیں۔ کیونکہ نہ ان سے کوئی ٹیک لگا کر چین پاسکتا ہے اور ناہی ان کا سایہ ، دوسروں کو سکون دے سکتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے