کتابیں اساتذہ اور طالب علم

میں دانشگاہ کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوا تو ہر طرف ایک شور ایک ہنگامہ سنا۔ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا یہ شوربھی آہستہ آہستہ بڑھتا چلا گیا ۔ اپنے شعبے تک پہنچنے تک تو وہ شور کان پھاڑنے لگا۔ یہ شور یہ ہنگامہ و طوفان آخر کیا تھا؟ یہ ایک طعنہ تھا ، جو ہر طالب علم کو دیا جارہا تھا۔ کتب سے دوری کا شور ، کتاب نہ پڑھنے کے طعنے اور ہر قسم کے مطالعے سے دوری کا ہنگامہ، بس یہ ہی تھا۔
کتابیں پڑھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کتاب بہترین دوست اور ساتھی ہوتی ہیں ۔ کتاب ہی واحد علم کا ذریعہ ہے۔ ہم اپنے اذہان کو کتابوں کے مطالعے سے ہی وسیع کرسکتے ہیں۔کتابوں کی اہمیت ایسے ہی ہے جیسے ایک بدن کو سانس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان سب باتوں سے میں انکار کرتا ہوں ،نہ ہی کوئی اور۔ مگر جب کتاب نہ پڑھنے کا طعنہ سنتا ہوں تو دکھ اور تکلیف کے مارے دل رنجیدہ ہوجاتا ہے۔

جامعہ میں آنے والا ہر طالب علم ایک مسافت کو طے کر کے یہاں تک پہنچتا ہے۔ اس سفر میں پہلی جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک کی پڑھائی شامل ہوتی ہے۔ اب ذرا ان بارہ سالوں کی پڑھائی پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ طالب علم کو کتنا کتب بینی کی طرف راغب کیا جاتاہے۔ عام طور پر ہمارے معاشرے میں متوسط نجی اسکول اور سرکاری کالج کا خرچ برداشت کیا جاسکتا ہے۔ جن میں پہلی سے لیکر آٹھویں جماعت تک کے طالب علم کو کتابوں میں نشان لگا کر ہوم ورک دیے جاتے ہیں اور رٹے لگانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ایک کتاب ، جسے ٹیکسٹ بک کے نام سے جانا جاتا ہے،پڑھائی جاتی ہے۔ اور بلآخر اسی میں سے بچے کو پڑھ کر امتحان میں کامیاب ہونا ہوتا ہے۔ مارکس کو کسی خدا کی طرح پوجا جاتا ہے اور خدا کو پانے کی ہر طرح کی سعی، عین عبادت ہے۔اسکے بعد وہ چار سال آتے ہیں جن کو اہم ترین سال ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر ہی تو کوچنگ کلچر سجایا گیا اور پروان چڑھا ہے۔ بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ اب رٹے لگانے کو ٹیکسٹ بک پر نشان نہیں لگوائے جاتے بلکہ نوٹس فراہم کیے جاتے ہیں۔ اور منزل پھر وہی، صرف مارکس۔

جس تعلیمی نظام نے صرف رٹے لگانا سیکھایا ہو تو کیسے پھر طالب علم یک دم ٹیکسٹ بک سے ہٹ کر سوچ سکتا ہے؟ بچے کو کورا کاغذ مانا جاتا ہے۔ جب اساتذہ نے کورے کاغذ پر اپنے سیاہی سے کتب بینی کی اہمیت کو واضح نہیں کیا، پھر کیسے اس سے کتاب نہ پڑھنے کا گلہ کیا جا سکتا ہے۔ بارہ سال سے سویا ہوا طالب علم یک دم نہیں جاگ سکتا۔ اس نے ہمیشہ صرف مارکس کی ڈور میں آگے رہنا سیکھا ہے، علم کی ڈور میں بھلے ہار جائے۔ کیا ہی بہتر ہو اگر ہم سطحی طور پر تعلیمی نظام کو بہتر بنائیں ۔ ایسا نظام پیش کریں جس میں علم کی اہمیت ہو مارکس کی نہیں۔ علم کی اہمیت جب ہوجائیں گی تو کتابیں آپی آپ اہم ہوجائیں گی۔ کیونکہ کتابیں ہی تو علم کا گھر ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے