کل کے مفتی محمود اور آج کے مولانا

دو دن قبل درویش صفت انسان اور خیبر پختون خواہ کے سابق وزیر اعلٰی مفتی محمود رح کا یوم وفات تھا۔ ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام کے احباب اپنے اپنے انداز سے انہیں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔۔ اور کیوں نہ کریں، آخر کو مفتی محمود رح کی شخصیت اور ان کی خدمات ہماری سیاسی تاریخ کا انمٹ باب اور جمعیت علماء اسلام کے لئے بجا طور پر قابل فخر عنوان ہے۔۔

میری کوشش ہے کہ اس موقع پر مفتی محمود رح کی سیاسی زندگی کے بارے میں قدرے مختلف زاویہ نظر کو سامنے لاؤں۔ موجودہ دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر جانب سے مولانا فضل الرحمن کی ذات پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے اور انہیں طرح طرح کے نازیبا القابات سے نوازا جارہا ہے۔ کون سی گالی ہے جو مولانا پر نہ آزمائی جاتی ہو۔طوفان بدتمیزی کا یہ عالم ہے کہ ان کی عمر، مذہبی و مسلکی وابستگی، پاکستانی سیاست میں ان کی سینیارٹی سمیت تمام چیزیں پس پشت ڈال دی جاتی ہیں اور صرف اور صرف نفرت کی زبانیں اور قلم چل رہے ہوتے ہیں۔

ایک طرف جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے وہیں ایسے جملے بھی بسا اوقات سننے کو مل جاتے ہیں کہ مفتی محمود رح بے شک اجلے کردار اور شفاف شخصیت کا آئینہ دار تھے، ان کے دامن پہ کوئی داغ تھا نہ آستین پر کوئی چھینٹ۔ کہاں مفتی محمود اور کہاں مولانا فضل الرحمن۔؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قبیل کے جملے بول کر مولانا مخالف گفتگو کا سلسلہ جہاں سے چھوڑا ہوتا ہے وہیں سے دوبارہ جوڑ دیا جاتا ہے۔

بظاہر ان تبصروں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ مفتی محمود رح اپنے زمانے میں مقبول عام اور ہر دلعزیز سیاستدان رہے ہوں گے۔لیکن کیا واقعی ایسا تھا۔؟؟

آج جس انداز سے مفتی محمود رح کی تعریفیں بیان کی جاتی ہیں اور مولانا کے مقابلے میں انہیں غیر متنازع سیاسی لیڈر کہا جاتا ہے، کیا ان کے زمانے میں بھی یہی صورت حال تھی۔؟ اس دور میں لوگ مفتی محمود رح کا اسی طرح ادب و احترام کرتے تھے؟ پیٹھ پیچھے ان کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرتے تھے جیسا کہ آج انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔؟ شاید نہیں۔۔

کیونکہ اگر اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہم تاریخ میں ذرا پیچھے کی طرف نظر دوڑائیں تو جواب ہمیں نفی میں ملتا ہے۔ کیونکہ مفتی صاحب کے زمانے میں ان کے سیاسی مخالفین اور دین بیزار طبقوں نے ان کے خلاف کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ مفتی صاحب کے خلاف پروپیگنڈہ ہوا۔ بھونڈے الزامات لگائے گئے۔ یہاں تک کہ کفر کے فتوے لگا کر انہیں کافر بھی کہا گیا۔

اور آج جب مفتی صاحب نہیں ہیں تو انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے، ان کے نمایاں سیاسی اقدامات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔

یعنی ایک نسل جو مفتی محمود کو غلط کہتی تھی اور انہیں صرف ایک مذہبی ملا کے روپ میں دیکھتی تھی جبکہ آج انہی کی دوسری پود اس مذہبی ملا کی تعریفیں کرتی نہیں تھکتی۔

مولانا فضل الرحمان کے معاملے کو بھی ہم اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ چونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے آزاد خیال بلکہ مذہب بیزار طبقے کے لئے قابل قبول نہیں ہیں تو ان کے بارے میں من گھڑت قصے اور جھوٹی کہانیاں عام کر دی گئی ہیں۔

غالب گمان یہ ہے کہ آج جو لوگ مولانا کے نام کو گالی بنادینا چاہتے ہیں اور انہیں بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے انہی کی اولاد بعد از مرگ مولانا کو فرشتہ صفت سیاستدان کے طور پر پیش کرے گی۔ ہے نا مزے کی بات!

اس سارے چکر میں نفرتوں کے کھیل کے ساتھ ساتھ یہ فلسفہ بھی کارفرما ہے جسے ایک شاعر نے بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔

جب مرجائے تو بڑھ جاتی ہے انسان کی قیمت
جب زندہ رہے تو جینے کی سزا دیتی ہے دنیا

اور احمد ندیم قاسمی کیا خوب کہہ گئے ہیں


عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے