جی ہاں!جمہوریت بہت بری ہے

ہم بھی کیا لوگ ہیں ۔ ہر لمحہ جمہوریت سے فوائد کشید کرتے ہیں اور پھر اسی پر برستے ہیں۔ اسی شاخ کو کاٹتے ہیں جس پر ہمارا آشیانہ قائم ہے۔

ہمارے ایک محترم کالم نگار نے ایک وقت صدام حسین کے عراق میں گزارا۔ بارہا لکھا کہ سر راہے کسی چائے خانے میں بیٹھے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ حکومت کے بارے میں کچھ کہہ پائیں۔ کیا معلوم کہ ساتھ کی کرسی پر بیٹھا کسی انٹیلی جینس ایجنسی کا آدمی ہو۔ اگر آپ غلطی سے کچھ کہہ گزرے تو پھر آپ کے گھر والے آپ کو بھول جائیں۔ ان کے مقدر میں صرف آپ کے لیے دعائے مغفرت ہی لکھی ہے۔ یہی کالم نگار اپنے کالموں اور اپنے ٹی وی کے پر جوش خطبات میں اپنی جمہوریت کو ایسی بے نقط سناتے ہیں کہ یہ جمہوریت ہی کی ہمت ہے کہ برداشت کرتی ہے۔ یہی جمہوریت جسے ہم بادشاہت کہتے ہیں یا اس سے بھی بد تر قرار دیتے ہیں۔

جمہوریت محض نواز شریف کے اقتدار کا نام نہیں۔ یہ کے پی میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا نام بھی ہے۔ یہ اس عدالتی نظام کا بھی نام ہے جس میں جج خواتین وحضرات کا انتخاب اب حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس نے چند دن پہلے ہی کراچی میں قوم کو یقین دلایا ہے کہ عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔جمہوریت آزاد میڈیا کا نام بھی ہے۔ جہاںسرِشام مجالس برپا ہوتیں اور منتخب وزیر اعظم کو بھارتی ایجنٹ ثابت کیا جاتا ہے۔جہاں ان سیاست دانوں کی تقریریں براہ راست نشر ہوتی ہیں جو حکمرانوں کو گالیاں دیتے اور پھر آزاد ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کا خوف نہیں ہوتا کہ ان کے خلاف حکومت کوئی اقدام کر سکتی ہے۔ جمہوریت اگرچہ اس کا نام نہیں لیکن جمہوریت کے نام پر یہ بھی ہوتا ہے کہ سیاست دان قانون کو پاؤں میں روندتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ قانون کہتا ہے کہ آپ انتخابی جلسے میں شریک نہیں ہو سکتے۔ وہ زبانِ حال سے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتے اور جلسے میں جاتے ہیں۔ قانون خاموش رہتا ہے کہ ” ملک میں جمہوریت ہے۔‘‘

لوگوں نے بادشاہت دیکھی نہیں۔خدا انہیں کبھی نہ دکھائے۔ بادشاہ ہر مذہب کے ماننے والوں میں اور ہر خطے کی تاریخ میں پائے جاتے ہیں۔وہ مخالفین کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرتے اور زندہ انسانوں کو بھوکے درندوں کے سامنے ڈال دیتے ہیں۔ زندوں کی کھال کھینچتے اور انہیں عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں۔ بادشاہ نیک اور بد میں تمیز نہیں کرتے۔ ان کے لیے مسلم خراسانی ہویا ابو حنیفہ ، امام مالک اور احمد بن حنبل۔۔سب ایک قطار میں کھڑے ہوتے ہیں، اگر حکومت کے مخالف ہیں۔ جو حکمرانوں کے خلاف زبان کھولتا ہے، اس کے بازو اکھاڑ دیے جاتے ہیں۔ سگا باپ اور بھائی بھی سامنے ہو تو مار دیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ بادشاہ فتاویٰ عالمگیری بھی مدون کراتے ہیں۔ انہیںفقہ کی تدوین کا خیال تھا قرآن کا نہیں جو ایک انسان کے قتل کو پورے عالم انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔

ہمارے لوگوں نے بادشاہ نہیں دیکھے لیکن فوجی آمر دیکھے ہیں۔ مشرف تو ابھی ماضی قریب کی بات ہیں۔ چیف جسٹس نے جرأت کی تو بیک جنبش قلم گھر بھیج دیاگیا۔ جمہوریت ہی ان کی مدد کو آئی ورنہ وہ تاریخ کے کوڑے دان میں کہیں غائب ہو چکے ہوتے۔ اللہ کی شان ہے کہ آج وہ بھی کہتے ہیں”اس ملک میں جمہوریت نہیں ہے‘‘۔ لوگ اگر ان کی سیاسی جماعت کی طرف متوجہ نہیں ، انہیں لیڈر ماننے کے لیے تیار نہیں تو کیا اس کی ذمہ دار جمہوریت ہے۔ کیا وہ عوام کو اس جرم کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ ان کا یہ حقِ انتخاب ہی سلب کر لیا جائے؟

جمہوریت کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں بلکہ جمہوریت ہی کرپشن کو ختم کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ جو کام عدالت عدم ثبوت کے باعث نہیں کر سکتی، وہ عوامی قوت کر دیتی ہے۔ بے شمار سیاست دان قصہ پارینہ بن گئے، محض اس جمہوریت کی وجہ سے۔ اگر یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے تو آنے والے دنوں میںبہت سے چہرے غائب ہو جائیں گے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ جمہوریت کا کوئی تعلق کرپشن سے ہوتا تو یہ فوجی آمریت کے دور میں ختم ہو چکی ہوتی۔ آج تک پاکستان میں کرپشن کے سب سے بڑے انفرادی کردار کا نام ایڈمرل منصور ہے۔ کرپشن کا تعلق جمہوریت سے نہیں، سماجی رویے سے ہے۔ جب تک نظامِ اقدار میں تبدیلی نہیں آتی اس وقت تک کرپشن ختم نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے سماجی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جو لوگ اس کے باوجود یہ اصرار کرتے ہیں کہ سیاسی تبدیلی سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے ، وہ ایک نظر دنیا کی تاریخ پر ڈال لیں۔

جمہوریت کا سب سے قیمتی ثمر آزادیٔ رائے کا حق ہے۔ انسان بھوک سے شاید بچ جائے لیکن اس کی آواز دبا دی جائے تو وہ مر جاتا ہے، الا یہ کہ وہ حیوانی زندگی پہ اکتفا کرلے۔ آج اﷲ کا شکر ہے کہ اس ملک میں آزادیٔ رائے کی قدر مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔ کم از کم سیاست دانوں اور منتخب جمہوری حکومت کو آپ جو کہنا چاہیں پوری آزادی سے کہہ سکتے ہیں۔ ابھی کچھ ادارے اس سے ماورا ہیں۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ انہی اداروں کے گیت نگار جمہوریت کوکوس رہے ہیں۔ حکومت نے آج تک کسی ایسی خبر کا نوٹس نہیں لیا جو اس کے خلاف تھی لیکن اس خبر پر طوفان اٹھا دیا جس کا ہدف کوئی اور تھا۔ اس کے باوجود کہا جارہا ہے کہ اس ملک میں بادشاہت ہے۔ کیا بادشاہت میں یہ ممکن ہے کہ عدالت ”بادشاہ ‘‘ کو روک دے کہ وہ اپنی فیکٹری ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کر سکتا؟

آج سیاست دان ہو یا صحافی ۔ عام شہری ہو یا سرکاری ملازم ۔ سب جمہوریت کے اثرات سمیٹ رہے ہیں۔ اور تو اور، اس ملک میں سرکاری اہل کار کالم لکھتے، ٹی وی پروگراموں میں شریک ہوتے اور حکومت کو برا بھلا کہتے ہیں۔اس کے باوجود با عزت طور پر ریٹائر ہوتے اور اس دور ملازمت کے تمام فوائد بھی سمیٹتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جمہوریت کے خلاف سب سے بلند آہنگ وہی سنائی دیتے ہیں۔ اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ پاکستان دنیا کا ایک منفرد ملک ہے جہاں لوگ تواترکے ساتھ جمہوریت کو گالیاں دیتے ہیں اور پھر ساتھ ہی اس سے مزے بھی اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کو بھی محبت ہی بنا ڈالا ہے
محبت بری ہے، بری ہے محبت
کہے جا رہے ہیں، کیے جا رہے ہیں

کچھ لوگوں کو انقلاب کا بہت شوق ہے۔ حکمرانوں کو گریبانوں سے پکڑ کر گھسیٹنے کی خواہش ابلتی پڑ رہی ہے۔ شرط یہ ہے کہ حکمران جمہوری ہو۔ ایسے لوگوں کو لینن اورسٹالن کے انقلاب کی روداد پڑھنی چاہیے۔ انقلاب کے لیے انسانی زندگی سے زیادہ کم قیمت چیز کوئی نہیں ہوتی۔ اس بات پہ تاریخ کی مہر ہے کہ انقلاب کی کوکھ سے جمہوریت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اگر آج حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ختم کیا گیا تو اس کے بعد کوئی آئینی حکومت قائم نہیں ہو سکے گی۔ پھر لوگوں کو معلوم ہو گا کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے… آئین کس نعمت کا نام ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے