دری ، تسبیح اور انوکھا احتجاج

وزیر اعظم آزاد کشمیر کے گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر مظفر آباد کا ایک نو جوان سڑک پر دری بچھائے بیٹھا ہے۔ اس نے سر پر ٹوپی پہن رکھی ہے جب کہ ہاتھ میں تسبیح لئے وہ وظیفہ بھی پڑھ رہا ہے ۔ ارد گرد آنے جانے والے لوگ اس کے پاس رک جاتے ہیں اور پھر ایک نظر دیکھ کر آگے نکل جاتے ہیں۔ دری پرخوبصورت لکھائی میں ہاتھ سے لکھا ہوا بورڈ بھی نظر آ رہا ہے جس پر لکھا ہے ’’ختم شریف برائے ہنس پتال‘‘ ۔ پہلی نظر میں یہ بورڈ سمجھ نہیں آتا لیکن جب سڑک کی دوسری طرف قائم ہسپتال پر نظر پڑتی ہے تو سمجھ آ جاتا ہے کہ اس نوجوان کا احتجاج ہسپتال کی زبوں حالی پر ہے ۔

’’میں یہاں ختم شریف کے لئے بیٹھا ہوں یہ ویسا ہی ختم ہے جیسا کسی کے ماتم پر کیا جاتا ہے ۔ ہسپتال وہ جگہ ہےجہاں مسیحا ہوتا ہے اور مسیحائی ہوتی ہے ۔ لیکن مظفر آباد کے ان بڑے بڑے ہسپتاوں میں صرف کرپشن ہوتی ہےاور لوگ ادویات کے لئے ترستے ہیں۔‘‘ فیصل جمیل کشمیری جو اکیلا ہی دری ، ٹوپی اور تسبیح لیکر کڑی دھوپ میں اس سڑک پر بیٹھا ہے ۔ مزید کہتا ہے کہ ’’میں اس غریب کے لئے احتجاج کرنے آیا ہوں جس کے پاس نہ تو ادویات کے پیسے ہیں نہ ٹیسٹ کروانے کے‘‘۔

جب سے انسان وجود میں آیا ہے تب سے ہی کبھی ظلم اور کبھی اپنے حق کے لئے احتجاج کرتا آیا ہے ۔ احتجاج کے روایتی طریقوں کے لئے جلسہ ، جلوس ، بھوک ہڑتال اور مظاہرے منعقد کئے جاتے ہیں ۔ کچھ لوگ احتجاج کے ایسے انوکھے طریقے نکالتے ہیں جس کے زریعے ارباب اختیار اور میڈیا کو متوجہ کیا جا سکے۔
یہ فیصل کا پہلا احتجاج نہیں ہے ۔ اس سے پہلے وہ کشمیر کے دارالخلافہ میں ہسپتالوں کے لئے بھیک مانگنے کی تحریک بھی چلا چکا ہے کیونکہ ان کو بتایا گیا تھا کہ جولائی 2015کے بعد سے ہسپتال میں ادویات منگوانے کے لئے فنڈز موجود نہیں ہیں۔

جب کہ اُدھر چیف سیکرٹری آزاد کشمیر سکندر سلطان راجہ نے جولائی میں ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کشمیر میں فلاحی منصوبے صرف کرپشن کے لئے لگائے جاتے ہیں ۔ چیف سیکرٹری نے بتایا کہ 7لاکھ کی ادویات خرید کر 7کروڑ کا بل منظور کروایا گیا ۔ جس کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے ۔

فیصل اپنی سیاسی قیادت اور ارباب اختیار سے سخت نالاں ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جوشیلے اور خوبصورت نعرے لگا کر ووٹ لیتے ہیں اور پھر اقتدار میں آ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔ لیکن مجھے سب وعدے یاد ہیں اور میں ان کو وہ سارے وعدے یاد دلانے کے لئے کوشش جاری رکھوں گا ۔

مظفر آباد میں اس وقت دو بڑے ہسپتال ہیں ۔ 2005کے زلزلے کے بعد شیخ زید بن سلطان کے تعاون سے شہر میں ایک معیاری ہسپتال قائم کیا گیا تھا ۔ جس میں جدید مشینری کے ساتھ ساتھ جدید سہولیات فراہم کی گئی تھیں ۔ لیکن مناسب مرمت maintenance نہ ہونے کی وجہ سے مشینیں اکثر خراب رہتی ہیں ۔ لوگوں نے بتایا کہ دوسرا المیہ یہ ہے کہ کہ سرکاری ڈاکٹر چیک اپ کے بعد ان کو اپنے پرائیویٹ ہسپتالوں اور لیبارٹریز میں ریفر کرتے ہیں ۔ تا کہ مزید پیسہ بنایا جا سکے ۔
پوری دنیا میں تعلیم اور صحت کو بجٹ میں ترجیحات حاصل ہوتی ہیں ۔ لیکن پاکستان سمیت آزاد کشمیر میں جہاں پہلے ہی ان شعبوں کے لئے کم رقم مختص ہوتی ہے اُس میں بھی کرپشن کے ریکار ڈ بنائے جاتے ہیں۔

معلو م نہیں یہ احتجاج کب رنگ لائے گا ۔ معلوم نہیں یہ بے حسی کب ختم ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے