ہوئے تم دوست جس کے!

مثل مشہور ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ نادان دوست ایک ایسا دوست ہوتا ہے، جس کے دل میں آپ کے لیے خلوص کا دریا موجیں مار رہا ہوتا ہے اور آپ کے پسینے پہ اپنا خون بہانے کو یہ ہر وقت تیار رہتا ہے۔ آپ کی خاطر جوئے خوں عبور کرنے کو بھی تڑپتا ہے، آسمان سے تارے توڑ کے لانے کو بھی پھڑکتا ہے اور آپ کی جگہ امتحان میں بیٹھنے سے لے کر آپ کی محبوبہ کے بھائی سے ڈنڈے کھانے کو بھی بخوشی تیار ہو جاتا ہے۔یہ دوست اپنا پیٹ کاٹ کے آپ کے لیے سینما کا ٹکٹ خریدتا ہے، آپ کی پراکسی بو لتے بو لتے خود پکڑا جاتا ہے۔ آپ کے راز رکھتے رکھتے خود تھانے پہنچ جاتا ہے۔ محلے میں بد نام ہوتا ہے، کالج سے نکال دیا جاتا ہے اور ماں باپ کے بلند فشارِخون اور ذیا بیطس کا سبب ٹھہرتا ہے۔آپ کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پہ وہ الوہی چمک آجاتی ہے جو کسی خاص روحانی تعلق کی نشاندہی کرتی ہے اور وہ سب کچھ بھول بھال کے آپ کے آگے پیچھے پھرتا ہے ۔ آپ کی خوشنودی حاصل کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔

ان سب حرکات کے پیچھے یقین جانیے کوئی ایسا مفاد وابستہ نہیں ہوتا جسے حاصل کیے بغیر یہ دوست جی نہ پائے۔ اکثر ایسے دوستوں سے لوگ گھبراتے ہیں۔ ان کی حد سے بڑھی ہوئی محبت، بد نامی کا سبب بنتی ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں، یہاں تک کے آپ اس تعلق میں اہانت محسوس کرتے ہیں۔ کسی جھگڑے کو سہولت سے حل کرنا چاہتے ہیں مگر دوست کی دادا گیری کے سبب اکثر آپ کا معاملہ کمزور پڑ جاتا ہے۔
ایسے دوست کو جھڑکنے، ڈانٹنے اور منع کرنے سے باز رہنے کی بڑی وجہ یہ ہی ہوتی ہے کہ کہیں یہ دکھ کے مارے اپنی جان سے ہی نہ گزر جائے۔ ایسا زود رنج ، نازک طبع، دیوانہ، نادان دوست خدا کسی کو نہ دے۔

کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا رویہ کچھ، اسی نادان دوست سے ملتا جلتا ہے۔ بہت سی باتوں سے صرفِ نظر کر کے صرف سفارتی اور حکومتی سطح پہ کشمیر کی اخلاقی مدد کی طرف دیکھیں تو، نادانیوں کا اتنا طویل سلسلہ ہے کہ بقول شاعر، ‘ہماری نادانیوں کا جانے، کہاں تلک سلسلہ ملے گا’۔
ماضی کی باتیں سب جانتے ہیں، جولائی سے شروع ہونے والی حالیہ صورتِ حال میں پاکستان نے اخلاقی اور سفارتی سطح پر اپنا کردار نبھانے کی جو کوششیں کیں ان پہ بخدا، دکھی ہونے کے باوجود ہاسا ہی نکل گیا۔ وہ لوگ جو دارالخلافہ اسلام آباد سے امیرالمومنین، معاف کیجیے گا وزیرِ اعظم کے ملفوظات لے کر نکلے، مسئلہ کشمیر پہ ان کی معلومات اور ان کی گفتگو کی اثر پذیری پہ میں کیا کہوں؟ چھوٹا منہ بڑی بات ہو گی۔
آگے بڑھیے تو کشمیر کمیٹی کے سربراہ پہ نظر پڑتی ہے، اب کی بار ہاسا نکلے ہی جاتا ہے۔ کچھ بھی کہنے کی ضرورت ہی نہیں، ان کی ایک جھلک ہی سے ساری دنیا کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان کشمیر کے معاملے پر کتنا سنجیدہ ہے۔

حیرت مجھے صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ پاکستان کے یہ اقدامات دیکھ کر بھی مودی جی کو کچھ سمجھ نہیں آتا؟ خواہ مخواہ لاکھوں کی تعداد میں فوج تعینات کر کے اپنے ملک کے غریبوں کا حق مار رہے ہیں۔ جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں اور صحافیوں کو جانے کیا کوک بھری ہے کہ وہ جنگ، جنگ کے علاوہ کچھ بول ہی نہیں رہے۔

مودی جی! اگر پاکستان کشمیر کو اپنا حصہ بنانا چاہتا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنی قربانیاں دینے کے بعد، بہت تھوڑی سی کاوش سے عالمی برادری کا جھکاؤ اپنی طرف کرا سکتا تھا، آپ کے خیال میں ہمارے حکمران جو ایک نسل کے اندر اندر، خاک سے لاکھ کے ہو جاتے ہیں اتنے بے وقوف ہیں کہ کشمیر کے لیے سفارتی جنگ نہ لڑ سکیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے