لیاقت علی خان کی 65 ویں برسی

[pullquote]آخری سانس تک پاکستان کی سلامتی کی دعا مانگے والے شہید ملت خان لیاقت علی خان کی آج 65 ویں برسی منائی جارہی ہے، لیکن اب تک ان کے قاتلوں کا سراغ نہ لگ سکا۔[/pullquote]

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں جلسے کے دوران فائرنگ کر کے قتل کردیاگیا تھا۔نواب زادہ لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1896 کو ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے تھے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر سے، جبکہ 1918 میں ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کی، بعد ازاں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی بنیادی شناخت مسلم اشرافیہ کی سیاست تھی۔ 1923 میں لیاقت علی خان نے باقاعدہ سیاسی میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔وہ 1936 میں مسلم لیگ کےسیکریٹری جنرل بنے جبکہ قائد اعظم کے دست راست بھی رہے ، قیام پاکستان کی جدوجہد میں بابائے قوم کا بھرپور ساتھ نبھایا۔

53ef3b4d5cfd4

لیاقت علی ابتدا ہی سے محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے ۔ ہیکٹر بولائتھو کے مطابق قائد اعظم کو 1933ء میں انگلستان سے واپس آ کر مسلم ہندوستان کی سیاست میں دوبارہ شریک ہونے پر لیاقت علی خان نے ہی آمادہ کیا تھا۔1940ء کی لاہور قرارداد کے بعد سے لیاقت علی خان، مسلم لیگ میں قائداعظم کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔ شخصی زندگی میں لیاقت علی روشن خیال اور مجلسی مزاج رکھتے تھے۔عوامی سطح پر ان کی سیاست مذہبی حوالوں سے بھرپور ہوتی تھی۔

1948 میں قائد اعظم کی وفات کے بعد وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کےطور پر قوم کےنگہبان بنے۔

پاکستان میں لیاقت علی خان سے لے کر بینظیر بھٹو تک جتنے بھی سیاسی لیڈر قتل ہوئے اُن کے قتل کی سازش کس نے، کب اور کیوں تیار کی یہ ایک راز ہی ہے۔ لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیق کرنے والے افسر اور اس حوالے سے تمام دستاویزات ایک ہوائی حادثے میں انجام کو پہنچ گئیں۔ہوائی جہاز کو یہ حادثہ جہلم کے قریب پیش آیا جہاں کسی اندرونی خرابی کی وجہ سے جہاز کو آگ لگ گئی اور مسافر اور ان کا سامان (اور لیاقت علی خان کے قتل کے مقدمے کے متعلق اہم کاغذات) نذر آتش ہو گئے۔لیاقت علی خان کے قتل پر سیاستدانوں کے رویوں کے بارے میں ایوب خان اپنی کتاب ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ میں لکھتے ہیں

"جب میں پاکستان واپس آیا تو مجھے کراچی میں نئی کابینہ کے اراکین سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین، چودھری محمد علی، مشتاق احمد گورمانی اور دوسرے لوگوں سے ملاقات کی۔ ان میں سے کسی نے نہ تو مسٹر لیاقت علی خان کا نام لیا اور نہ ان کے منہ سے اس واقعے پر افسوس یا دردمندی کے دو بول ہی نکلے۔گورنر جنرل غلام محمد بھی اس حقیقت سے بے خبر معلوم ہوتے تھے کہ ایک قاتل کی سنگدلانہ حرکت نے ملک کو ایک نہایت قابل اور ممتاز وزیرِ اعظم سے محروم کر دیا ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ انسان کیسا بے حس، بے درد اور خود غرض واقع ہوا ہے۔ ان حضرات میں سے ہر ایک نے خود کو کسی نہ کسی طرح ترقی کے بام بلند پر پہنچا دیا تھا۔ وزیر اعظم کی موت نے گویا ان کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھول دی تھیں۔ اس بات سے دل میں حد درجہ کراہت اور نفرت پیدا ہوتی تھی۔ بات تو بے شک تلخ ہے، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے ان سب لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا ہو کہ وہ واحد ہستی جو ان سب کو قابو میں ررکھ سکتی تھی، دنیا سے اُٹھ گئی ہے۔”

[pullquote]لیا قت علی خان کے آخری الفاظ
[/pullquote]
https://www.youtube.com/watch?v=Z3Xok24zrkQ&feature=youtu.be

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے