پاک بھارت تعلقات

[pullquote]ن م راشد کی شاعرانہ بصیرت[/pullquote]

یہ عجب حسنِ اتفاق ہے کہ پاکستان کا تصوّر بھی ایک شاعر ،علامہ اقبال نے دیا ہے اور قیامِ پاکستان کے بعدپاکستان کے تصوّر اور پاکستان کی حقیقت میں روح فرسا تضاد کا ماثر اور دلگداز نوحہ بھی ایک شاعر، ن م راشد نے لکھا ہے۔راشد کے نزدیک پاکستان کا تصور”نوعِ انساں کی کہکشاں سے بلند و برتر طلب “سے عبارت ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ طلوعِ آزادی کے بعد، چند برس کے اندر اندر ہماری قیادت تصوّر سے روگردانی اور نظریات سے انحراف کی راہوں پر سرپٹ دوڑنے لگی۔چنانچہ ن م راشد یہ جان کر” آنے والے دنوں کی دہشت “سے کانپنے لگے کہ ہماری قومی قیادت نے نیند میں چلنے والے ،نیم ہوشمند گداگروں کی خو اپنالی ہے اور یوں حرف اور معنی ، تصور اور حقیقت کا آہنگ ٹوٹ کر رہ گیاہے۔( ۱) اس سیاسی قیادت نے ہم پر سب سے بڑا ستم یہ ڈھایا تھاکہ اہلِ فکر و دانش سے فکر و اظہار کی حریّت کی دولت چھین لی تھی۔انجمن ترقی پسند مصنفین کے قائدین اور سرگرم اراکین پرسرکاری ملازمت کے دروازے بنداور قید و بند کے دروازے کھول دیئے تھے۔ہرچند ن م راشد ترقی پسند مصنفین کے ادبی اور سیاسی مسلک سے اختلاف رکھتے تھے تاہم وہ اُن کے آزادی¿ فکر و اظہار کے حق کے حامی تھے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے نظریاتی اختلاف کے حق پر قائم رہتے ہوئے روسی اشتراکیت کے حلقہ بگوش ادیبوں کو وسطِ ایشیا کے مسلمانوں پر روس کے اشتراکی استعمار کے جبروتشددسے سبق اندوز ہونے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔نظم ”انقلابی“ کا آخری بند اِس کی ایک مثال ہے:
مگر تو نے دیکھا بھی تھا
دیوِتاتار کا حجرہ تار
جس کی طرف تو اِسے کر رہا تھا اشارے،
جہاں بام و دیوار میں کوئی روزن نہیں ہے
جہاں چار سو باد و طوفاں کے مارے ہوئے راہگیروں
کے بے انتہا استخواں ایسے بکھرے پڑے ہیں؟
ابد تک نہ آنکھوں میں آنسو، نہ لب پر فغاں!
(انقلابی)
فکر و نظر کے اِس شدید اختلاف کے باوجودجب حکومت نے ترقی پسند ادیبوں کو ناروا تعزیر و احتساب کا نشانہ بنایا تو راشد نے اپنی متعدد نظموں میں ان ادیبوں کے حق میں آواز بلند کی۔نظم بعنوان ”ایک شہر“ میںاُنہوں نے اِس المناک صورتِ حال کویوں طنز کا نشانہ بنایاہے:
یہاں ہیں عوام اپنے فرماں روا کی محبت میں سرشار
بطیبِ دلی قیدِ زنجیر و بندِ سلال کے ارماں کے ہاتھوں گرفتار
دیوانہ وار!
یہاں فکر واظہار کی حریّت کی وہ دولت لٹائی گئی
کہ اب سیم و زر اور لعل و گہر کی بجائے
بس الفاظ و معنی سے
اہلِ قلم کے، خطیبوں کے ، اجڑے خزانے ہیں معمور
خیالات کا ہے صنم خانہ¿ِ نقش گر میں وفور
مغنّی ہے فن کی محبت میں چُور
سلاخوں کے پیچھے فقط چند شوریدہ سر، بے شعور!
(ایک شہر)
ہماری قومی زندگی میں یہ وہ دور تھا جس میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اور سیاسی مسلک سے اختلاف رکھنے والے ادیبوں اور دانشوروں پر سرکاری سرپرستی اور درباری عنایات کی بارش ہو نے لگی تھی۔ایسے میں ن م راشد نے اِس ’بارانِ رحمت ‘سے فیضیاب ہونے کو اپنی عزتِ نفس اور اپنے غرورِ وفا کے منافی سمجھا۔نظم بعنوان ”سوغات“اِس باب میں ہم سے بہت کچھ کہتی ہے:
زندگی ہیزمِ تنوّر شکم ہی تو نہیں
پارہ نان شبینہ کا ستم ہی تو نہیں
ہوس دام و درم ہی تو نہیں
سیم و زر کی جو وہ سوغات صبا لائی تھی
ہم سہی کاہ مگر کاہ رُبا ہو نہ سکی
درد مندوں کی خدا ہو نہ سکی
آرزو ہدیہ اربابِ کرم ہی تو نہیں!

ہم نے مانا کہ ہیں جاروب کشِ قصرِ حرم
کچھ وہ احباب جو خاکسترِ زنداں نہ بنے
شب تاریک وفا کے مہ تاباں نہ بنے
کچھ وہ احباب بھی ہیں جن کے لئے
حیلہ امن ہے خود ساختہ خوابوں کا فسوں
کچھ وہ احباب بھی ہیں، جن کے قدم
راہ پیما تو رہے، راہ شناسانہ ہوئے
غم کے ماروں کا سہارا نہ ہوئے!
کچھ وہ مردان جنوں پیشہ بھی ہیں جن کے لئے
زندگی غیر کا بخشا ہوا سَم ہی تو نہیں
آتشِ دیر و حرم ہی تو نہیں!
(سوغات)

ن م راشد کو ترقی پسند ادیبوں کے سیاسی مسلک سے لاکھ اختلاف سہی مگر وہ اُنہیں اپنے مسلک پر وفاداری بشرطِ استواری کا حق دیتے ہیں۔ جب حکومتِ وقت ترقی پسند ادیبوں سے اُن کا یہ حق چھینتی ہے تو راشد اُن کی ثابت قدمی کی داددیتے وقت سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔راشد اِن اہلِ قلم کو ”شبِ تاریکِ وفا“ کے ”مہ تاباں“قرار دیتے ہیں۔ اُن کی نظر میں یہ تخلیق کاروہ ”مردانِ جنوں پیشہ “ہیںجن کے لیے زندگی غیر کا بخشا ہوا ز ہرگز نہیں۔اِس نظم میں اُن ادیبوں اور فنکاروں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے جواسلام کے نام پرحکومتِ وقت( قصرِ حرم )کی چاکری میں مصروف ہیں۔راشد کا طرزِ عمل اِن سے جُدا ہے۔ وہ اہلِ اقتدار کی پیش کردہ سیم و زر کی سوغات کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں کہ اُن کی زندگی فقط پیٹ کے تنورکے لیے ایندھن فراہم کرنے ، دام و درہم اکٹھے کرنے کی ہوس سے عبارت ہرگز نہیں۔

اسی نااہل قیادت نے ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کے عظیم المیّہ سے دو چار کیا۔بھارت کی فوجی جارحیت نے پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ ساقی فاروقی نے بتایا ہے کہ اُن دنوں مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے راشد افواجِ پاکستان کے ساتھ محاذِ جنگ پردادِ شجاعت دینے میں مصروف ہوںاورجنگ کے المناک انجام پراُن کی ہستی رنج و غم میں ڈوب گئی ہومگربہت جلد اُنہوں نے اِس رنج و الم کو ایک نئے پاکستان کے خواب کو نکھارنے کی فکر میں سمو لیا۔چنانچہ راشد تباہی کے اِس ملبے سے نئی تعمیر کا عزم باندھتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں:

”ایک اور امر جس پر میں نے غور کیا ہے یہ ہے کہ ہم آزادی کے بعد سے نام نہاد Sub-continent کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں جیسے ترکی نے اپنی سلطنت کی تباہی کے بعد اپنے آپ کو یورپ سے وابستہ کر لیا تھا۔ کیا ہم مشرقی پاکستان کے چلے جانے کے بعد، اپنے آپ کو مشرق وسطیٰ سے وابستہ نہیں کر سکتے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری سرنوشت کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ساتھ زیادہ ہے، ہندوستان کے برصغیر کے ساتھ کم۔ ہندوستان ہمیں اپنے ساتھ باندھنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے لیکن ہندوستان کے ساتھ بندھ جانا ہمارے لیے ایسا ہی ہوگا جیسے بندر اپنے قلندر کے ساتھ بندھا ہوتا ہے۔ اس طرح ہماری تہذیب متواتر پسپائی اختیار کرتی چلی جائے گی۔ چنانچہ ہندوستان کے موجودہ غمزوں سے ہمیں اپنے آپ کو ہرحال میں محفوظ کر لینا چاہیے۔ ہر قیمت پر ہمیں ہندوستان سے الگ ہو جانا چاہیے کیونکہ ہندوستان میں ایسے عناصر ہمیشہ موجود رہیں گے جو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے Labensrauom کی تلاش میں ہوں اور پھر ہر موقع سے فائدہ اُٹھا کر ہر اُس شخص کا قلع قمع کرتے چلے جائیں جس کے نام میں فارسی اور عربی شامل ہو۔(۲) “

ن م راشد کا یہ خیال کہ” ہماری سرنوشت کا تعلق مشرقِ وسطی کے ساتھ زیادہ ہے ، ہندوستان کے برصغیر کے ساتھ کم“ ایک مسلمہ تاریخی صداقت سے پھوٹا ہے۔ برصغیر کی گذشتہ چار ہزار پانچ سو دس برس کی تاریخ میں پاکستان کُل سات سو گیارہ برس تک ہندوستانی سلطنت کا حصہ رہا۔اِن میں سے بھی پانچ سو بارہ برس مسلمانوں کے دورِ حکومت کے ہیں اور لگ بھگ سو برس بُدھسٹ اور کرسچین ادوارِ حکومت پر مشتمل ہیں۔ اِس طویل وقفہ¿ زماں میں بھی برصغیر بالعموم مختلف اور آپس میں متصادم و متحارب راج دھانیوں میں منقسم رہا۔آج جن علاقوں پر پاکستان مشتمل ہے وہ تاریخ کے کسی دور میں بھی بھارت کا حصہ نہیں رہے۔(۳) بلادِاسلامیہ¿ ہند (United States of Muslim India)اور برطانوی ہند کے ادوارِحکومت کی بات الگ ہے۔ Robert D. Kaplan نے اپنی تازہ ترین کتاب "Monsoon: The Indian Ocean and the Future of American Power” میں اِسی حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کا رُخ اپنے مغرب میں پھیلی ہوئی دُنیائے اسلام کی جانب ہے:

"The word "Pakistan” connotes the Indian Subcontinent, but geographically and culturally one may argue that the Subcontinent does not actually begin until the Hub River a few miles west of Karachi, near the Indus River delta.”(۴)

جناب اعتزازاحسن نے اپنی کتاب بعنوان "The Indus Saga”میں مذکورہ بالا تاریخی اور جغرافیائی حقائق سے برآمد ہونے والی پاکستان کی الگ، ممتاز اور منفرد جغرافیائی اور تہذیبی اکائی کی کہانی بڑے محکم استدلال کے ساتھ بیان کی ہے۔ ن م راشد ہمارے شعر و ادب کے ساتھ ساتھ ہماری تاریخ و تہذیب کی پائیدار اور زندہ روایات سے گہری شناسائی رکھتے تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد وہ باقی ماندہ پاکستان کی جغرافیائی اور تہذیبی وحدت کی اہمیت اُجاگر کرتے وقت ہمیں اپنی قوّتِ بازو پر بھروسہ اور اپنے قومی وسائل پر انحصار یعنی اقبال کے درسِ خودی کی تہ در تہ معنویت کی جانب یوں متوجہ کرتے ہیں:

”اس کے علاوہ ہم نے جو سب سے زیادہ خطرناک بات کی وہ اپنے وجود سے باہر اپنے لئے گرمی اور نور اخذ کر کے اس پر انحصار کرنا شروع کر دیا۔باہر سے گرمی اور نور مستعار لینے میں کوئی ہرج نہیں۔ اس پر انحصار کر لینا بُرا ہے۔ ہر تہذیب اسی طرح پھولتی پھلتی ہے جس طرح پودے، درخت اور پھول اپنی نشوونما پاتے ہیں لیکن جس طرح پودوں اور درختوں اور پھولوں کے اندر اپنا رس نہ ہو جس سے وہ اپنی غذا حاصل کر سکیں تو وہ مرجھا جاتے ہیںاسی طرح تہذیبیں اپنے اندرونی رس کے بغیر زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ یہی وہ رس ہے جو دراصل ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم باہر کی گرمی اور نور سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکیں۔(۵)“
یہ گویا ہمیں اقبال ہی کی دکھائی ہوئی راہِ عمل از سرِ نو اختیار کرنے کی تلقین ہے۔ن م راشد کے خیال میں یہی راہِ عمل پاکستان کی بقا اور ہم پاکستانیوں کی راہِ نجات ہے۔اِس اعتبار سے دیکھیں تو راشد کی شاعری ہی نہیںبلکہ سیاسی فکر بھی اقبال کی سیاسی فکر کا تسلسل پیش کرتی نظر آئے گی۔

حواشی
(۱) بحوالہ نظم بعنوان ”نمرود کی خدائی“ :مجموعہ¿ کلام ”ایران میں اجنبی“ ،لاہور، ۷۵۹۱، صفحہ ۴۱۱
(۲) راشد ۔ایک مطالعہ، مرتبہ :ڈاکٹر جمیل جالبی، کراچی، ۶۸۹۱ئ، ص۶۱۳
(۳) جناب احمد عبداللہ نے اپنی کتاب بعنوان The Historical Background of Pakistan and Its People میں سن2500قبل مسیح سے لے کر 1973 عیسوی تک اِس خطہ¿ ارض(وادی¿ سندھ) کی حکومتوں کا ایک طویل گوشوارہ درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:
©”The above table reveals that during the 4,473 years of Pakistan’s known history, this country was part of India for a total period of 711 years of which 512 years were covered by the Muslim period and about 100 years each by the Mauryan (mostly Buddhist) and British (Christian) periods. Can anybody agree with the Indian claim that Pakistan was part of India and that Partition was un-natural? It hardly needs much intelligence to understand that Pakistan always had here back towards India and face towards the countries on her west. This is true both culturally and commercially.” (Karachi, 1973, P.37(
(۴) مطبوعہ رینڈم ہاﺅس، نیویارک، سنِ اشاعت ۰۱۰۲ئ، صفحہ :۷۶
(۵) راشد ۔ایک مطالعہ، مرتبہ :ڈاکٹر جمیل جالبی، کراچی، ۶۸۹۱ئ، ص۵۱۳

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے