کل وہ بے گھر تھا،آج وہ عطیات دیتا ہے

ڈانوان سمتھ (Donovan Smith)جانتا ہے کہ محتاج ہونا کتنا تلخ ہے۔ جب اس کی اکیلی ماں کی نوکری چلی گئی اور ان کا گھر بھی نہ رہا تو وہ نیو میکسیکو کے بے گھر افراد کے ایک کیمپ میں رہا۔ لگ بھگ چھ ماہ کے لئے اس کا ٹھکانہ نیو میکسیکو کے شہر Albuquerque میں ہینڈرسن ہاؤس رہا۔ اور یہ سب پانچ سال پہلے کے واقعات ہیں۔

اب ڈانوان کا اپنا آن لائن کاروبار ہے جس کے ذریعے وہ ایلو ویرا اور بکری کے دودھ سے غسل کا خوشبودار صابن تیار کرکے فروخت کرتا ہے۔ صفر سے شروع ہونے والے اس کاروبار نے وقت کے ساتھ ساتھ غیر معمولی ترقی کی اور اب وہ مختلف فلاحی تنظیموں کی مدد کرنے کے قابل بھی ہوچکا ہے ۔13 سالہ سیاہ فام ڈانوان ابھی تک اپنی کمائی سے رقوم اس فلاحی تنظیم کو عطیہ کر چکا ہے جس نے بے گھر ہونے کے دور میں اس کی اور اس کی والدہ کی مدد کی تھی۔اس کے علاوہ وہ صابن کی ایک بڑی کھیپ بھی اس ادارے کو دے چکا ہے تا کہ اس کی یہ پروڈکٹ بھی ضرورت مندوں کو مفت میسر ہو۔

اسے بے شمار اعزازات ملے جن میں صدر اوباما اور ان کی اہلیہ کی جانب سے اس کے نام لکھے گئے وہ خطوط بھی شامل ہیں جن میں انھوں نے اس کی سماجی خدمات کو بہت پرجوش طریقے سے سراہا ہے۔ صدر اوباما ڈانوان کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں: ’’مجھے امید ہے کہ آپ کو اپنے کارناموں پر فخر ہو گا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’’ اپنے کام کو مکمل جانفشانی سے کرتے ہوئے اور ایک انسانی مقصد کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے آپ ہم سب دنیا میں رہنے والوں کی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔آپ جیسے نوجوان کل کے رہنما ہیں، اور آپ نے مستقبل سے وابستہ میری امیدوں کو جلا بخشی ہے۔‘‘

ڈانوان نے یہ سب اور بہت کچھ صرف تیرہ سال کی عمر میں حاصل کیا۔ اس کی والدہ کیزے فلپ سمتھ نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’وہ ہمیشہ سے انتہائی ذہین اور عقلمند ہے۔ وہ شروع سے ہی ایک منفرد بچہ رہا۔ہمیشہ سمجھدار اور خیال رکھنے والا انداز زندگی اس کا اثاثہ ہے۔اس کی ماں ہونا میں اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں۔‘‘

ڈانوان کی والدہ فلپ سمتھ نے چار سال تک نیوی میں ملازمت کی اور زخمی ہونے کی وجہ سے طبی بنیادوں پر اسے ملازمت سے دستبردار ہونا پڑا۔اس کے بعد فلپ سمتھ نے بطور شیف کچھ d2عرصہ ملازمت کی لیکن اپنی صحت کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اس کے بعد وہ کسی نئی ملازمت کے لیے تیار نہ ہو سکی۔

2011ء میں فلپ سمتھ اپنے بیٹے کے ہمراہ جارجیا سے Albuquerque میں قائم کئے گئے بے گھر سابق فوجی خواتین ملازمین کے لئے قائم کئے گئے شیلٹر ہوم میں منتقل ہو گئیںجبکہ ان کا بڑا بیٹا اور بیٹی رشتہ داروں کے ساتھ رہنے لگے۔ چھ ماہ کے بعد اسے معذوری کے سرکاری الاؤنسز ملنا شروع ہو گئے اور انہیں سابق فوجیوں کی ہاؤسنگ سکیم میں رہائش بھی مل گئی۔

ڈانوان نے 2014ء میں گیارہ سال کی عمر میں صابن بنانے کا کام شروع کیا۔ اس کی ماں نے اسے صابن سازی کی بنیادی باتیں سکھا دی تھیں جبکہ مزید تعلیم اس نے اس کام کی باقاعدہ کلاسز لے کر حاصل کی۔

اس کی ماں کے مطابق یوں تو اس نے مختلف اقسام کے صابن بنائے لیکن وہ اپنی چند مخصوص پروڈکٹس کی وجہ سے مشہور ہے جو بظاہر ڈونٹ، مکئی کے بھٹے ، بسکٹ ، آئس کریم ، برگر اور انڈوں کی طرح دِکھتے ہیں۔

پہلے پہل وہ اپنی مصنوعات خود فروخت کرتا تھا اور اس مقصد کے لئے اس نے Albuquerqueریل یارڈ مارکیٹ میں ایک کھوکھا حاصل کیا جہاں وہ ہر ویک اینڈ پر دکان سجاتا تھا۔وہ ہر اتوار کو صبح چار بجے اٹھتا تھا اور اپنے تیار کردہ صابن گاڑی میں رکھ کے مارکیٹ چلا جاتا تھا۔یوں یہ کاروبار ترقی کرتا ہوا آج ایک شاپنگ ویب سائٹ Etsy پر ایک آن لائن شاپ کا روپ دھار چکا ہے جہاں پر ڈانوان اب تک سینکڑوں آرڈر لے چکا ہے۔

گھر پر تعلیم حاصل کرنے والے اس ساتویں جماعت کے طالب علم نے اپنے آن لائن کاروبار کا نام Toil and Trouble بھی خود رکھا ہے جو کہ اس نے شیکسپیئر کے ایک کردار ’’میکبتھ‘‘ سے متاثر ہو کر رکھا۔یادرہے کہ وہ شیکسپیئر کا مداح ہے۔

اگرچہ ڈانوان کے کام نے کافی توجہ حاصل کی مگر یہ اس کی منزل نہیں۔ ایک ٹیلیفون کال کا جواب دیتے ہوئے اس نے کہا: ’’ میں کچھ نہیں جانتا، بس میں مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے صرف یہ سوچا کہ لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے اور میں نے یہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘

حال ہی میں Albuquerque کی ایک دس سالہ لڑکی وکٹوریہ مارٹنز(جسے منشیات دے کر اس کا ریپ کیا گیا اور موت کے گھاٹ اتار دیا گیا)کی دردناک موت نے ڈانوان کو ایک نیا مقصد دیا۔اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے بچوں کے استحصال کے متعلق مہم شروع کی۔

وکٹوریا کی المناک موت کے فوراً بعد فیس بک اور انسٹاگرام پر اپنے ایک مختصر ویڈیو پیغام میں ڈانوان کا کہنا تھا: ’’میری والدہ اور میرابھائی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور وہ میری حفاظت کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر بچے کو یہ تحفظ حاصل نہیں d3ہے۔نیو میکسیکو میں حال ہی میں ایک دردناک واقعہ ہوا ہے اور ایسے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔اگر آپ ایک ایسے بچے ہو جس کا استحصال ہوا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ آپ بہادر بنو اور ایسے بڑے تلاش کرو جن پر آپ کو اعتماد ہو، اور انہیں بتاؤ کہ آپ کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ انہیں اس وقت تک بتاتے رہو جب تک کہ وہ آپ کی بات پر کان نہ دھریں۔ کیونکہ کسی کا آپ کا استحصال کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔‘‘

اس ویڈیو کے انٹرنیٹ پر آنے کہ کچھ دنوں بعد ڈانوان Albuquerque Journal کے ادارتی صفحے کا موضوع بن گیا۔ مذکورہ رسالے کا ادارتی بورڈ یوں رقمطراز ہے: ’’ایک ساتویں جماعت کے لڑکے نے گزشتہ دو سال یہ ثابت کرنے میں صرف کیے کہ ایک اکیلی ماںکے سا تھ بے گھر ہونے کے عذاب کو جھیلنا انسان کو عظمت کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ ‘‘

یہ ادارتی بورڈ ڈانوان کو McDonald146s 365Black Community Awards کی طرف سے Youth Choice Award ملنے کے بعد لکھا گیا۔ یہ اعزاز اسے ’’ٹیلی وژن انٹرٹینمنٹ بلیک‘‘ کی طرف سے نشر کی گئی ایک تقریب میں دیا گیا۔یہ اس لڑکے کی قومی ٹی وی پر پہلی حاضری نہیں تھی۔ وہ ’’دی شو لطیفہ کوئین‘‘ کے خصوصی فیچر کا حصہ بھی رہاہے۔ سینٹ مارٹن ہاسپٹلٹی سنٹر کے کیلے ٹلرسن شو میں یوں کہتے ہیں: ’’ وہ امیر بننے کی کوشش نہیں کر رہا، بلکہ وہ تو ان لوگوں کو لوٹانا چاہتا ہے جنہوں نے اس کی مدد کی۔‘‘

اگر آپ نے فلم ’’ری سرجنس:ڈے انڈیپنڈیسن‘‘ دیکھی ہو تو آپ نے اِس کی جھلک دیکھی ہوگی۔ڈانوان d4 نے اس فلم میں Marcus کا ایک معمولی کردار نبھایا تھا۔

اپنی ان کامیابیوں کے باوجود ڈانوان اپنی عمر کے بچوں کی طرح کا ہی ہے۔مثال کے طور پر اسے اپنے ایکس۔باکس پر ویڈیو گیمز کھیلنا پسند ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے گیمز بہت پسند ہیں اور اس کے پاس ان کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

حالیہ مہینوں میں ڈانوان صابن نہیں بیچ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ تھوڑا بریک لینا چاہتا ہے اس لئے اس نے عارضی طور پر اپنی آن لائن دکان کو بند کردیا ہے لیکن اس کا عطیات دینے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

وہ بے گھر ہونے کے متعلق بچوں کی کتابوں کی سیریز لکھنے کے متعلق بھی پُر امید ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس کرب سے خود گزرنے کے بعدوہ ان بچوں کی مدد کرنا چاہتا ہے جو اس آزمائش کا شکار ہیں۔

اب تک ڈانوان کو مکڈونلڈ کمیونٹی چوائس ایوارڈ،این ایم ڈسٹنگویشڈ پبلک سروس ایوارڈ،اے ایل ایے گڈ ڈیڈ ایوارڈ، اے بی کیو گڈ سمیریٹن ایوارڈ 2016ء مل چکے ہیں۔

(امریکی خاتون صحافی کرسٹائین گویراکی یہ رپورٹ9 ستمبر 2016ء کو دی واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئی جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا گیا)

 

بشکریہ:ایکسپریس سنڈے میگزین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے