نیک چلن کے لیے بد چلن کا پیغام

اگر چینی حکمت و دانش پر بات ہو تو عام طور پر کنفیوشس کا نام ذہن میں آتا ہے لیکن چینی فکرو دانش میں کچھ حد تک گہری دل چسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ حقیقی چینی دانش کا سرچشمہ کنفیوشس کی بجائے لاؤ تزو (متوفی 512 ق م ) ہیں جنہیں اُردو میں عام طور پر لاؤزی لکھا جاتا رہا ہے ۔ لاؤ تزو چینی مذہب تاؤ مت کے بانی ہیں اور تاؤمت کو اگر عربی میں ترجمہ کیا جائے تو ہم اسے ’سراط ِ مستقیم ‘ یعنی سیدھا راستہ کہیں گے ۔دنیا بھر کے مذاہب کی بنیاد بننے والا سنہری اصول ، ’’جو کچھ اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی کچھ دُوسروں کے لئے پسند کرو‘ سب سے پہلے لاؤتزو نے پیش کیا تھا ۔

ماہرین لاؤتزو کی بجائے کنفیوشس کے مغرب کے راستے دنیا بھر میں مشہور ہونے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ کنفیوشس کا زور مسیحی مبلغین کی طرح لوگوں کی اخلاقیات اور چال چلن درست کرنے پر تھا لیکن ، ان کے برعکس ، لاؤتز و کی توجہ انسان کو اضداد کی دنیا سے ماورا و بلند کرنے پر تھی ۔

لاؤتز و نے ساری زندگی اپنے عمل سے اضداد سے بلند ہونا سکھایا ۔ مثال کے طور پر ایک بار انہیں قاضی القضات مقرر کیا گیا ، شہر میں کسی امیر آدمی کی کوئی قیمتی چیز چرائی گئی تو انہوں نے چور کے ساتھ اُس شخص کو سزا دینے کا فیصلہ کیا جو مال وزر جمع کرکے لوگوں میں احساس ِ محرومی جگا رہا تھا ۔ لاؤتز و کا خیال تھا کہ غریب امیر کی ضد نہیں ہے بلکہ امیر کی اپنے لئے پیدا کردہ ایک سہولت ہے جس کو دیکھ امیر اپنے آپ کو امیر سمجھتا اور خوش ہوتا ہے ۔ وہ اپنے مال و دولت سے زیادہ غریب کی بھوک دیکھ کر حظ اٹھاتا ہے اور اپنا حظ قائم رکھنے کے لئے غریب کی غربت بھی قائم رکھتا ہے ۔

کچھ دوستوں کو شاید یہ بات عجیب لگے کہ اسی اصول کے تحت لاؤتزو اخلاقی گراوٹ اور بے راہ روی کی وجہ معاشرتی اخلاق کے ٹھیکہ داروں کو قرار دیتے تھے۔ اس کا پہلی مرتبہ کھل کر اظہار انہوں نے اُس وقت کیا جب کنفیوشس ان سے ملنے گئے ۔ کنفیوشس انہیں وعظ و نصیحت پر آمادہ کرنے گئے تھے ۔ وہ اکثر سوچتے کہ اگر لاؤتزو بھی ان کی طرح لوگوں کے چال چلن کی فکر کریں تو بدچلنی میں کم ہوسکتی ہے ۔

جب کنفیوشس پہنچے تو لاؤتزو کو اپنے جھونپڑے کے باہر موجود پایا ۔ کنفیوشس نے کہا ، ’’ آپ کو لوگوں کو کیا سکھا رہے ہیں ؟ یہ سب سکھانے کی بجائے ان کا چال چلن کیوں درست نہیں کرتے ‘‘۔

لاؤتزو نے جواب دیا :

کہاں ہے بد چلنی ؟ اگر ہے بھی تو اس کی فکر کرنا میرا کام نہیں ۔ میں تو ایسی راہ دکھاتا ہوں جس پر بد چلن تو دُور کی بات نیک چلن، اور چان چلن کا ٹھیکدار بھی دکھائی نہ دے ۔ بدچلنی تو چال چلن کے ٹھیکدار اپنی سہولت کے لئے خود پیدا کرتے ہیں ۔ کنفیوشس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی جیسے دُوسروں کا چال چلن ٹھیک کرنے والوں کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ دُوسروں کے چال چلن کی فکر کرنے والے بدچلنی کیسے پیدا کرتے ہیں ۔

لاؤتزو یہ کہنا چاہتے تھے کہ دُوسروں کی چال پر نظر رکھنے والے اپنی ہی گہری چال سے بے خبر ہوتے ہیں کہ وہ نیک چلن کہلانے کے لئے ہی بدچلن پیدا کررہے ہیں ۔ اگر وہ بد چلن پیدا نہیں کرتے تو وہ حظ نہیں اٹھاسکتے جو وہ کسی کو بد چلن قرار دے کر حقارت کی نگاہ سے دیکھ کر حاصل کرتے ہیں ۔ وہ لطف نہیں اٹھا سکتے جو وہ انہیں نصیحت کرتے وقت اٹھاتے ہیں ۔ وہ خود ساختہ بد چلن کے خلاف محاذ کھڑا کئے رکھتے ہیں مگر یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اسی کے دم سے پہچانے جارہے ہیں جسے وہ بد چلن کہہ رہے ہیں ۔

لاؤتزو کے نزدیک اصل مسٗلہ صحیح یا غلط، نیکی یا بدی ، اچھائی یا بُرائی کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ برتری اور امتیاز قائم رکھنے کا ہے۔

اس لئے لاؤتزو نے کنفیوشس سے کہا کہ تم بے فکر ہوجاؤ۔ لوگوں کو نیک چلن بنانے کی فکر چھوڑو اور یہ مان لو کہ دُوسروں کو بد چلن قرار دینے سے تمہیں خوشی ملتی ہے ۔ تم دُوسروں کی بد چلنی کا پرچار اس لئے نہیں کرتے کہ دُوسرے واقعی بدچلن ہیں بلکہ اس لئے کرتے ہو تاکہ تم نیک کہلا سکو ۔ جب تک تم اپنی نیکی کی چرچا بند نہیں کروگے اُس وقت تک تمہیں ہر طرف بد چلنی ہی دکھائی دے گی ۔

لاؤتزو کہتے تھے کہ دُوسروں کے چال چلن کی خبر رکھنے والوں کی مثال بھی اس دولت مند جیسی ہے جو اپنی دولت سے زیادہ دُوسروں کی غربت کاحظ اٹھاتا ہے ۔ اپنی آسانی سے زیادہ دُوسروں کی تکلیف سے خوش ہوتا ہے ۔ اپنے سکون سے زیادہ دُوسروں کی بے آرامی سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔جیسے کہ ایک ساہوکار جو کسی ایسے محل میں رہتا ہو جس کے اردگرد چھونپٹروں میں بھوک کا راج ہو ۔اسے محل کا لطف تو جھونپڑے والے کا درد ہی دیکھ کر آئے گا ۔

اسی طرح چال چلن کا ٹھیکدار بھی ایسے نفسیاتی محل میں رہتا ہے جس میں رہنے کا سارا لطف دُوسروں کو بد قرار دے کر حقارت سے دیکھنے کے خود تراشیدہ حق سے ملتا ہے ۔

چال چلن کا حساب لینے والے ، اضداد کی دنیا میں رہتے ہیں اس لئے انہیں دنیا بھر کی چالوں کی خبر ہوتی ہے مگر خبر نہیں ہوتی تو اپنی چال کی نہیں کہ جب وہ اچھائی طے کرتے ہیں تو بُرائی طے کر بیٹھتے ہیں ۔ جب وہ گورے کو اچھاکہتے ہیں تو کالا خود بخود بُرا ہوجاتا ہے ۔ جب وہ نیکی کو اپنے عدسے اور پیمانے سے دیکھتے ہیں تو دُوسروں کے پیمانے اور معیارات ناقص قرار پاتے ہیں ۔ جب وہ کہتے ہیں یہ رہی نیک چلنی تو اُسے لمحے بد چلنی پیدا بھی ہوجاتی ہے ۔ جب وہ کہتے ہیں کہ یہ رہی خوبصورتی تو جو اس سے ملتا جلتا نہیں وہ خود بخود بدصورت قرار پاتا ہے ۔ اگر صرف اپنے آپ کو سچ کہتے ہیں تو ان کے علاوہ باقی سب جھوٹے ہوجاتے ہیں ۔ اگر کہتے ہیں یہ ہے اچھا تو اس کے علاوہ سب بُرا قرار پاتا ہے ۔

لاؤتزو کہتے تھے کہ جب تک تم حسن کو نام نہیں دوگے بدصورتی پیدا نہیں ہوتی ۔ جب تک نیک چلنی کے نام پر خطِ امتیاز نہیں کھینچو گے بدچلنی پیدا نہیں ہوگی کیونکہ حسن کا ادراک کسی کو بدصورت قرار دیے بغیر بھی ہوسکتا ہے ۔ نیک عمل کسی کو بد قرار دیے بغیر بھی سرانجام پاسکتا ہے ۔ لیکن اگر تم ایک حقیقت کو ٹکڑوں میں بانٹو گے ؛ پھر خوبصورتی پیدا کرنے نکلو گے تو بدصورتی پیدا کرکے واپس آؤ گے ۔ نیک پیدا کرنے نکلو گے تو بد پیدا کرکے لوٹوگے ۔ اس لئے تمہیں دُوسروں نہیں اپنی انا کی بد چلنی پر پہرہ دینے کی ضرورت ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے