مشرق وسطیٰ میں جاری خانہ جنگی

مشرق وسطی میں عالمی امن کے ٹھیکیداروں نے خانہ جنگی کی آگ تو بہت پہلےسلطنت عثمانیہ کے انہدام اور پھر اسرائیل کے ظالمانہ قیام کی صورت بھڑکائی تھی،جس پر رفتہ رفتہ”عرب اسرائیل جنگ”،”عراق،کویت جنگ” اور عرب اسرائیل جنگ کی صورت تیل چھڑکاجاتارہا۔نائن الیون کے بعد ان عالمی ٹھیکیداروں نے ایک مرتبہ پھر عیاری ومکاری سے مشرق وسطیٰ (جسے خطہ اسلام کہنا زیادہ مناسب ہے کیوں کہ دنیا کے بیچوں بیچ یہی خطہ ہے جہاں اسلام اور مسلمان سب سے زیادہ ہیں،مشرق وسطی کی اصطلاح صرف اسرائیل کو پہچان دینے کے لیے ایجاد کی گئی)کو خون ریز خانہ جنگی میں مبتلاکرنے کا آغاز کیا،چنانچہ عرب بہار اسی خانہ جنگی کا تسل تھی۔ اب ترکی اورسعودی عرب کو شام،عراق اور یمن میں الجھاکر نہ صرف اسلحہ بیچ کر مال کمایا جارہا ہےبلکہ خانہ جنگی برپاکرنے پرتالیاں بھی پیٹی جارہی ہیں۔مکاری اور ہٹ دھرمی کی انتہادیکھیں کہ نائن الیون حملے کے بعد امریکا نے پہلے افغانستان کو تہس نہس کیا،پھر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی،اب نائن الیون کے نام پر سعودی عرب کےخلاف”جاسٹا”نامی قانون پاس کرکے خطرے کی گھنٹی بجائی جارہی ہے۔اس سے بڑی مکاری اور کیا ہوگی کہ ایک طرف امریکاسعودی اتحاد کوحوثیوں کے خلاف لڑنے کے لیے اسلحہ فروخت کرتا ہے،تودوسری طرف ایران کے ذریعے حوثیوں تک اسلحے کی ترسیل کرتاہے۔پھر حوثیوں کے امریکی بحری جہازوں پر میزائل حملوں کا ڈرامہ رچاکردنیا کو یہ باوربھی کروایا جاتاہے کہ حوثی تو امریکا کے بھی دشمن ہیں۔دراصل امریکا دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔چنانچہ ایران اور امریکا کی دشمنی بظاہر دکھائی جاتی ہے ورنہ حقیتا ایران امریکا کا سب سے بڑا پارٹنر ہے۔لیکن دونو ں کی منافقت کا اندازہ اس سےلگائیں کہ انقلاب ایران کے بعد خمینی نے”مرگ بر امریکا اور امریکا شیطان اکبر”ایسے نعرے لگائے ،ادھر امریکا نے ایران کو برائی کی جڑ قرار دیا۔لیکن اس سب کچھ کے باوجود ایران امریکا سے اسلحہ خریدتا رہا اور امریکا ایران سے تیل برآمد کرتا رہا۔

بہرحال چند ماہ پہلے نائن الیون حملے کی تحقیق کے باقی ماندہ28 صفحات کی خفیہ فائل دنیا کے سامنے لائی گئی،جس کے مطابق سعودی عرب کو نائن الیون حملے کے ملزموں کا مددگار ٹھہرایا گیا،پھر سعودی عرب کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے ایک قانون سامنے لایا گیا جسے امریکی صدر باراک اوبامانے دکھلاوے کے لیے ویٹو بھی کیا لیکن اوباما کے ویٹو کو امریکی کانگریسی ارکان نے ووٹنگ کے ذریعے توڑ دیا۔اب باتیں بنائی جارہی ہیں کہ وہ کانگریسی ارکان نے بنا پڑھے ووٹنگ کردی تھی،سی آئی اے کے افسر نے بھی انٹرویو میں کہہ دیا کہ سعودی عرب ملوث نہیں،ایک امریکی عدالت کے جج نے اس قانون کی مخالفت بھی کی لیکن یہ سب ڈرامے صرف دھوکہ دینےاور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے کیے جارہے ہیں۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے سعودی عرب کے خلاف عراق میں داخل ہونے کے بعد خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔چنانچہ حال ہی میں سعودی عرب کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے ایران پر لگائی گئی پابندیاں اٹھائی گئیں،تاکہ ایران تیل کی ترسیل زیادہ کرےاور سعودی معیشت کو خسارہ ہو۔قانون جاسٹا کے بعد امریکا میں 70 بلین ڈالر کے سعودی اثاثوں پر بھی امریکا کی رال ٹپک رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں یمن کے قریب بحیرہ عرب میں موجود امریکی بحری جہازوں پر "حوثیوں کے میزائل حملوں” کا ڈرامہ کرکے براہ راست یمن میں کودنے کے لیے امریکا پر مارہاہے۔

لیکن سعودی عرب کی حالیہ حکومت کی بصیرت کو داد دینی پڑی گی جو نہ صرف بروقت جاگی ہے بلکہ امریکا سے جان چھڑانے کے لیے دنیا بھر کے چکر لگا کر اپنے حامی بھی پیدا کرلیے ہیں۔شاید 28 صفحات کی رپورٹ اسی بیدار مغز حکومت کے آنے اور انگڑائی لینے پر ہی مارکیٹ میں لائی گئی۔ کیوں کہ شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان نے اپنی بصیرت سے سابقہ حکومتی مشیر اوروزراءمیں کافی اکھاڑ پچھاڑ کرکے، پھر اوباما کی سعودی عرب آمد کے موقع پر اوباماکو جہاز سے اترتے چھوڑ کر نماز کے لیے چلے جانے سے یہ تاثردیدیا تھا ، کہ اب نئے سرے سے تعلقات قائم ہوں گے۔یہی نہیں شاہ سلمان کی حکومت نے ایک طرف سعودی عرب کی طرف بڑھنے والے شرپسندوں کو یمن میں جاکر روکا،تودوسری طرف پوری دنیاکے ساتھ نئے سرے سے تعلقات بھی استوار کیے اور اپنی معیشت کوتیل پر منحصر کرنے کی بجائے تجارت اور دیگر خدمات پر منتقل کرنے کے لیے 2030 نامی شاندار وژن متعارف کروایا۔چناچہ موجودہ حکومت نے دو سال سے بھی کم عرصے میں چین،جاپان،روس،ملائشیا،ترکی،فرانس،اٹلی،جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملکوں کے دورے کیے اور ان سے دفاعی و تجارتی معاہدے کرکے اپنی معیشت کو نئی بنیادوں پر ڈالا۔اس کے علاوہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے ممالک کو انوائٹ کرکے ان سے تجارتی وسفارتی تعلقات بڑھائے۔یہی وجہ ہے ہر دوسرے دن کسی نہ کسی ملک کا صدر یاوزیر اعظم یاوزیر خارجہ یا کوئی مشیر، وزیر ،سفیر سعودی حکومت کے مہمان ہوتے ہیں۔ غینیا،گانا،تشاد،یوگنڈا،موریطانیہ،سیرالیون،مالی،چاڈایسے چھوٹے ملکوں کے سربراہوں سے لے کر مالدیپ،تھائی لینڈ،فلپائن،بنگلہ دیش،بھارت ،پاکستان،ترکی،وغیرہ تک کے وزرا اور صدور شاہ سلمان کی ضیافت کھاچکے ہیں۔پھر شاہ سلمان کی حکومت کا 34 اسلامی ملکوں کے ساتھ مل کراسلامی فوجی اتحاداور ترکی کے ساتھ مضبوط تعلقات ایک ایسا شاندار کارنامہ ہے جسےاگر عملا جلد سے جلد ایکٹو کرلیا جائے تو عالم اسلام کو امریکا کی ضرورت رہے ،نہ روس کی،نہ کسی اور کی۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام انتہائی دفاعی پوزیشن پر کھڑا ہے۔بالخصوص خطہ اسلام یعنی مشرق وسطیٰ جہاں شام،یمن،عراق،فلسطین میں درندگی اور غارت گری کے بعد اب اغیارترکی اور سعودی عرب کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں۔سعودی عرب کو یمن،اور ترکی کو عراق اور شام میں الجھانے کامقصد اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ دشمنوں کے اس ٹولے میں سب سے آگے نام نہاد اسلامی ملک ایران ہے۔آپ کو ماننا پڑے گا ایران ہی خطہ اسلام اور جزیرہ عرب میں انتشار اور خانہ جنگی کی بنیادی وجہ ہے۔یقین نہ آئے تو خامنہ آئی کے مشیر برائے عسکری امور جنرل حسن فیروزآبادی کے اس انٹرویو کو ملاحظہ کرلیں جو انہوں نے پاسداران انقلاب کی قریبی ویب سائٹ فارس کو دیا،اس انٹرویو میں ایرانی مشیر جنرل حسن نے اقرار کیا ہے کہ عراق،شام،لبنان،یمن وغیرہ میں ہمارے عسکری گروپ موجود ہیں جو نظام ولایت فقیہ کے ترجمان ہیں اور اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔شام اور عراق میں ایران کی مداخلت اور خانہ جنگی برپا کرنے کے یہی ثبوت کافی ہیں کہ شام میں کئی بڑےایرانی جرنیل مارے گئے۔یمن میں حوثیوں کے پیچھے صرف ایران ہی کھڑا ہے جس کے ثبوت کے لیے اسلحے سے لدے ایرانی جہازوں کا پکڑا جاناہے۔چنانچہ2013ءمیں جب حوثیوں کا فتنہ دبا ہوا تھا ، اس وقت کی حکومت نے ایران کا اسلحہ سے بھرا”جیہان”نامی جہاز پکڑا۔پھر چنددن قبل امریکی بحری جہازوں پر ہونے والے حملے میں خود امریکی تحقیق کاروں نے اقرار کیا ہےکہ ایرانی ساختہ زلزال نامی میزائل حملے میں استعمال کیے گئے۔ سعودی عرب کی سرحدوں پر بھی یہی میزائیل داغے گئے ۔رواں سال 4 اپریل کو بھی اسلحے سے بھرے دو ایرانی جہاز امریکہ نے پکڑے تھے۔ یہی نہیں آسٹریلوی حکام نے بھی ایک اسلحے سے لدا ایک ایرانی جہاز پکڑا تھا۔پھر خود ایران کے نیول چیف ایڈ مرل حبیب اللہ سیاری نے ایک بیان میں اقرار کیا عالمی پانیوں میں ایرانی جہازوں کی آمد ورفت کا مقصد ایرانی انقلاب کی نشرواشاعت ہے۔یادرہے اس وقت یمن کے قریب خلیج عدن اور باب المندب میں "الوند”اور بوشہر نامی دوایرانی بحری جہاز موجود ہیں جس کا خود ایران نے اقرار کیاہے۔چنانچہ اس بحری مشن کو ایران نے”گروپ44″نام دیا ہے۔اس کے علاوہ ایران نے اپنے بحری جہاز جنوبی افریقا اور بحراوقیانوس کی طرف بھی بھیجے ہیں جہاں سے یمن میں اسلحہ بھی سپلائی کیا جاتاہے۔ایران نہ صرف مشرق وسطی اور جنوبی افریقا میں مذہب کے نام پر مداخلت کررہاہے بلکہ پاکستان میں بھی اپنے پاسداران انقلاب کے مسلح افراد بھیج کر دراندازی کا مرتکب ہورہا ہے۔چنانچہ چند دن پہلے مہدی موسوی نامی ایک ایرانی ٹارگٹ کلر کراچی سے پکڑا گیا،جو پولیس موبائل تک استعمال کرتارہا،وزیراعلی سے لے کر بڑے بڑے سرکاری افسروں سے ملاقاتیں کرتارہا۔بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیوسمیت ایم کیو ایم کے کئی ٹارگٹ کلرز نے ایرانی سپورٹ کا اقرار کیا،پھر ایران کے شرپسند پاکستان سے نوجوانوں کو ورغلا کر شام بھیج رہےہیں،جس کا اقرار پاسدران انقلا ب اور "زینبیون” نے اپنی ویب سائٹوں پر کیا۔

ان حقائق کے ہوتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے وہ دشمنوں کے خلاف مفادات سے بالا ہوکراتحاد کرکے ان کی دراندازیوں کا منہ توڑ جواب دیں۔اگر نیٹو اتحاد اپنے مفاد کے لیے مل کر لڑسکتاہے تو مسلمانوں کا فوجی اتحاد مل کر کیوں نہیں لڑسکتا۔اگر آج امت مسلمہ مجموعی طور پر ایسا نہ کرسکی تو شام ،یمن،عراق کے بعد یکے بعد دیگر ے یہ خونخوار بھیڑیے ایک ایک کرکے سب کو کھاتے جائیں گے۔

[pullquote]
نوٹ: مذکورہ بالا مضمون میں کالم نگار نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضرروی نہیں.[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے