صحافت کی متاعِ عظیم

آج کل پاکستان کی دنیائے صحافت میں سرل المیڈا کے کالم نے بحث و تکرار اور حقِ آزادی کے اوپر نہ صرف ایک لا یعنی اور تکلیف دہ بحث چھیڑ دی ہے بلکہ اس واقعے نے صحافتی حلقوں کو قومی مفاد کی تشریح کے نام پر ملک کے مقتدر اداروں اور حکومتی اداروں پر سوالات کے نئے تیر برسانے کا ایک موقع فراہم کر دیا۔ میں اس سارے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ذہن و شعور کے پردوں پر اپنی تصویریں کھینچتا گیا۔ سوالات کے کئی جھونکے دل و دماغ کے دامن کو چھوتے ہوئے نکل رہے تھے۔ صحافت جسکو ریاست کے چار ستونوں میں سے ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ کیا آج اس کے علمبردار واقعی اس متاعِ عظیم کے سچے امین ہیں؟ کیا صحافت جسکے تقدس اور دعوتِ حق ہونے کی دنیا قائل ہے۔ آج اپنی معنوی حثیت اور حقیقی مفہوم کھو چکی ہے؟ کیا صحافت کے نام پر ہونے والی تجارت نے دعوتِ حق کے علمبرداروں کو اپنی تاریکیوں کے لپیٹ میں تو نہیں لے لیا؟ کیا آج بھی واقعی صحافت ظالموں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات و طاقت کے ساتھ میدان میں سرگرمِ عمل ہے۔ اس طرح کے کئی اور سوالات ذہن کو پراگندہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔

فکر و شعور کے پردے پر ان سوالات کے ابھرنے کے ساتھ ساتھ دوسری طرف ہندوستان کے میدانِ صحافت کے بے نظیر صحافی اور اہلِ حق کے بیباق داعی امام الہند ابوالکلام آزاد کے یہ الفاظ کسی یادِ رفتہ کی مانند دھندلائے سے مگر پھر بھی جگمگاتے ہوئے ذہن کے پردے پرمنعکس ہو رہے تھے۔ جب وہ الہلال اور البلاغ میں مالی نقصانات کے باوجود اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا دولت مند قرار دیتا ہے
"میں نے تجارت کی دکان نہیں کھولی تھی۔ اس لئے کبھی بھی میں نے اپنے کاروبار کے نفع و نقصان کو تجارت کے ترازو میں نہیں تولا۔میرا میزانِ سود و زیاں دوسرا تھا۔ اور باوجود اسکے کہ الہلال پریس جاری کرکے میں نے اپنا وہ سب کچھ کھو دیا۔جو مالِ دنیوی میں میرے پاس تھا۔میرے منافع و فوائد کا خزانہ اتنا وسیع و عظیم ہے کہ آج ہندوستان میں کسی انسان کے پاس نہ اتنی چاندی ہے اور نہ اتنا سونا ہے۔ نہ لعل و جواہر ہیں نہ زمین کی زراعت۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ اس سرزمین میں سب سے بڑا دولت مند آدمی میرے سوا اور کوئی نہیں”

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ ” تجارت اور دعوت کی راہیں بالکل متضاد ہیں۔اور ایک وقت میں دونوں کا رشتہ جمع نہیں کیا جا سکتا۔ تجارت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مگر دعوت کی پہلی شرط کھونا ہے۔اخبار نویسی اور تجارتی مطبوعات کی تمام شاخیں تجارت کے ماتحت ہیں۔ اور یورپ جو تحریر و تصنیف کے اس طریق کار کا موجد ہے۔ اسکو تجارت ہی کے اصول پر چلا رہا ہے۔ ہر اس شخص کو جسکی نظروں سے میرے مطبوعہ کاموں کی ایک سطر بھی گذری ہے۔ اور نیز ہر اس شخص کو جس تک میری آواز پہنچ سکتی ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ میں تاجر نہیں ہوں”

صحافت کے ان عظیم اصولوں کو دیکھ کر میں آج کل کے میڈیا ہاؤسز اور پریس سے وابستہ کاروبار کو جب دیکھتا ہوں تو ایک عجیب سی اُلجھن کا شکار ہوتا ہوں کہ کیا ریاست کا یہ اہم ستون کاروباری حضرات کے ہاتھوں اسیر ہو کر رہ گیا؟؟ کیا نظریات، وطن پرستی ، قومی مفاد اور فکرو شعور کی بلند پرواز آج نفع و نقصان کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے؟

صبح و شام سیاستدانوں، فوجی افسروں ، بیوروکریسی اور پھر سارے معاشرے کو اپنی بریکنگ نیوز کی زینت بنانے والے ہمارے محترم دوست کہیں بھولے سے بھی اپنی خود احتسابی اور اپنے مالکان کے تاجرانہ صحافت کے آگے کھڑے ہوکر آواز بغاوت بلند کر نے کی روایت کے امین ہیں؟میں افراد کی نہیں جماعتی صحافتی زوال کا ماتم گسار ہوں۔ شخصی طور پر تو کئی ایسے صحافیوں کو خود جانتا ہوں کہ جنکی صحافتی زندگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن المیہ ریاست کے اس اہم ستون کے مجمو عی خستہ حالی اور دعوتِ حق کے زیور سے محروم ہونے کا ہے۔وہ مقتدر، قابلِ قدر اور علم و تجربے سے مالا مال صحافی دوست جو بڑی شائستگی کے ساتھ اور بڑے مدلل انداز میں ملک کی ہر خرابی اور کمزوری پر تنقید کرتے ہوئے عوامی شعور کو بیدار کرنے کا بیڑہ اُٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔

اے کاش کیا اچھا ہوتا کہ وہ ٹی وی چینلز پر چلنے والے مہذب معاشرے سے کوسوں دور اور اخلاقی تنزل کی زندہ جاوید مثالوں، ٹی وی ٹاک شوز جو صرف ریٹنگ کی خاطر عوام پر مسلط کی جاتی ہیں کا بھی اسی انداز میں آپریشن کرتے جس طرح کہ ایک سیاستدان یا پھر دوسرے اداروں کی کارکردگی کو تہہ و تیغ کے جاتا ہے۔

مجھے تعجب ہے کہ عوام کی دولت لوٹنے والوں پر تو شام سے لیکر رات گئے تک پروگراموں کی بھرمار ہوتی ہے۔ کیونکہ اس سے چینلز کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر عوام کے اخلاق اور شعور کو لوٹنے والے مارننگ شوز اور دیگر کئی پروگراموں پر آج تک کوئی ٹاک شو نہیں ہوا کیونکہ ایسا کرنااپنے ہی میڈیا ہاؤسز کے مالی مفاد سے متصادم ہوگا۔ اور آقا کے خلاف بولنا اپنے مالی مفاد کے خلاف اقدام ہوگا۔

اسی طرح پرنٹ میڈیا پر جادو ٹونے، جعلی پیروں اور مذہب و ثقافت کے دشمنوں کے صرف اپنے مالی مفاد کے لئے جو بے ہنگم اشتہارات چھاپے جاتے ہیں ان کو دیکھ کر عقل پریشان ہوجاتی ہے ۔ کہ اسی اخبار کے ناخدا عوام کی رہنمائی اور حق کی آواز بن کر مقتدر قوتوں اور سیاسی زعماء کو ملک کی بدحالی اور خرابی کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ جبکہ اس گناہِ عظیم میں اخلاقی بدحالی اور جھوٹ و سچ کے اختلاط میں ہماری صحافتی برادری برابر کی ذمہ دار ہے۔

لہذا دوسروں پر تنقید، ملک کے دشمنوں کو بے نقاب کرنا اور عوام تک سچ کی خبر پہنچانا اگر تجارت کے اصولوں پر کیا جائے تو یہ صحافت نہ ہوگی بلکہ ایک ایسا کاروبار ہوگا جسکی بنیاد صحافت کی متاعِ عظیم کے لاشے پر ہوگی اور اگر صحافت واقعی ایک عبادت اور دعوتِ حق ہے جسکی مثال ہماری تاریخ میں الہلال اور البلاغ کی صورت میں موجود ہے تو پھر دعوتِ حق اور صحافتی ایمانداری کا آغاز اپنے گھر سے ہونا چاہئے۔ جہاں پورے ملک پر ناقدانہ پروگرام اور قوم کے ہر رہنماء کے کردار کا آئے دن آپریشن ہوتا ہے وہاں پر میڈیا ہاؤسز اور پرنٹ میڈیا کی آواز اپنے گھر کے ان اعمال کے خلاف بھی اُٹھنا چاہئے جنکا نتیجہْ قوم کی اخلاقی گراؤٹ، صحافت کے عظیم اور مقدس پیشے کی اہانت کی صورت میں نکلتا ہے جو کہ کسی صورت میں نہ تو قومی مفاد میں ہے اور نہ ہی صحافت کی متاعِ عظیم کے علمبرداروں کے شایانِ شان ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے