اکتوبر سے اکتوبر تک،10لاکھ قتل،ذمہ دار کون؟

ہمارا المیہ ہے کہ پاکستا ن اور بھا رت کشمیر کے اپنے اپنے زیر انتظا م حصوں کو متنا زع ما ننے کو تیا ر نہیں ۔ بھا رت کا دعو ی ہے کہ پا کستا ن کے زیر انتظا م کشمیر اور گلگت بلتستا ن متنازع علاقے ہیں جبکہ وادی ،جموںاور لداخ متنا زع علا قے نہیں ہیں ۔ دوسری جانب پا کستا نی اداروں کی ہمیشہ پا لیسی یہ رہی ہے کہ جموں و لدا خ سے زیا دہ متنازع ”وادی کشمیر ”ہے ۔ پاکستا ن نے کبھی بھی اپنے زیر انتظا م کشمیر اور گلگت بلتستان کو متنا زع خطے ما ننے کی کو شش نہیں کی۔ بھا رت بھی جمو ں ، لداخ اور وادی کو متنا زع ماننے سے انکا ری ہے ۔ اگر کشمیری عوام ریاست کو متنازع منوانے کی جدوجہد کریں تو ان کی آنکھوں میں فولادی کنکر مارے جاتے ہیں۔ غدار اور” دیش دروہی “کے فتوے الگ سے سننے پڑتے ہیں۔

ریا ست جمو ں کشمیر کا 41ہزا ر مربع میل سے زائدحصہ بھا رت ، 33ہزار مربع میل سے زائد پاکستا ن کے کنٹرول میں ہے جبکہ 10ہزارمربع میل سے زائد علاقہ چین کے قبضے میں ہے لیکن اس علا قے میں کسی بھی قسم کی آبا دی نہیں ہے صرف گلیشیئر اور سنگلاخ پہاڑ ہیں . پا کستان نے یہ علاقہ معائدہ سنگیانگ کے تحت چین کو تحفہ میں دے رکھا ہے ۔

تقسیم بر صغیر کے بعد ریا ست کشمیر کا ڈو گرہ حکمر ان ہری سنگھ ریا ست کو آزاد و خود محتار رکھنے کا خواہاں تھا . وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ملک میں اپنی ریاست ضم نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے اس نے پا کستا ن اور بھارت کو کشمیر میں پہلے سے مو جو د سر وسز (ڈاک، تار، ریلوے و دیگر)بحا ل رکھنے کیلئے تا ر بھیجے ۔

پا کستا ن نے ڈوگرہ کی درخواست کو قبو ل کر تے ہو ئے”معاہدہ قائمہ“ کر لیا مگر اس کےسا تھ ساتھ کشمیر کو بزور طا قت اپنا حصہ بنا نے کےلئے قبائلیوں کو جہا د کا پرائیویٹ ٹھیکہ بھی دے دیا ۔ بھارت کشمیر کو ہتھیانے کیلئے موقع کی تلاش میں رہا ، ڈوگرہ کے بھیجے گئے کسی تار کاجواب بھی نہیں دیا ۔جب پاکستان نے پرائیویٹ جہادی فتح کشمیر کیلئے روانہ کیے تو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر کے قبضہ جما لیا۔

میجر جنرل اکبر خان پاک فو ج کی جانب سے قبا ئلیوں کا کمانڈر مقرر کیا گیا مگر اصل کمانڈ خورشید انور نا می ایک مسلم لیگی کارکن کے ہا تھ میں تھی ۔ میجر جنرل اکبر کو بعد ازاں پنڈی سازش کیس میں گرفتار کر کے جیل ڈال دیا گیا ۔جنرل اکبر نے بعد ازاں ”پنڈی سازش کیس کے نام سے ایک کتاب تحریر کر کے ان تمام حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو آج تک حکومت پاکستان تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔

قبائلی یلغار کی ناقص پلاننگ کا یہ عالم تھا کہ لشکریوں کو پنجاب پولیس کا اسلحہ دینے کا وعدہ کیا مگر فراہم کردہ بندوقیں تقریباً ناکارہ تھیں ۔قبائلیوں کو مال غنیمت کیلئے متحد کر کے لشکرترتیب دیا گیا تھااور انہوں نے اپنی زیادہ تر توجہ مال غنیمت یعنی لوٹ مار پر ہی مرکوز رکھی۔

پرائیوٹ جہادی 22اکتوبر 1947کو خورشید انور اور میجر جنر ل اکبر کے سربرا ہی میں ایبٹ آبا د کے را ستے کشمیر پر حملہ آور ہو ئے اورمظفرآباد میں قتل عا م شرو ع کر دیا ۔ نا مور محقق ڈاکٹر صابر آفاقی کے بقول قبائلیو ں کے اسلا می لشکر نے سب سے پہلے ایک مسلما ن سکو ل ٹیچر عبدالعزیز کا قتل کیا جس نے اپنے ایک ہندو ہمسا ئے کو پنا ہ دے رکھی تھی ۔

مظفرآبا د میں تعینا ت وزیر وزرات (ڈپٹی کمشنر ) کی بیو ی کر شنا مہتا جو حملے میں زند ہ بچ گئی تھی لکھتی ہیں کہ تما م ہندو اور سکھو ں نے اپنی عورتوں اور چھوٹے بچو ں کو دریا ئے نیلم اور دریا ئے جہلم کے کنارے کھڑا کر کے تلو اریں چلا دیں ۔ بعض خواتین خود ہی دریا میں کود کر ڈو ب گئیں جو خود کو مو ت کے سپر د نہ کر سکیں وہ تلوا ر کا وار کھا کر دریا برد ہو ئیں۔ جوان مر د جہا دیو ں سے چھپتے چھپا تے سر ی نگر فرا ر ہو ئے ۔

مظفر آبا د میں لو ٹ ما ر اور قتل عا م کے بعد قبائلی سری نگر کی جا نب بڑھے ۔ با رہ مو لا کے قریب میہو رہ پا ور پرا جیکٹ (بر صغیر کا دو سراپن بجلی منصوبہ تھا ) کو اڑا دیا جس سے سری نگر میں تاریکی چھا گئی اور مہاراجہ بھی خطرہ بھانپ کر جموں فرارہو گیا ۔ قبائلی دو دن بارہ مولا میں لو ٹ ما ر اور قتل عا م کرتے رہے صرف دس کلو میٹر دور سری نگر کی جا نب پیش قدمی نہ کی اور اس دوران خو ف میں مبتلا مہاراجہ نے بھا رت سے مدد طلب کی تو بھا رتی فو ج بھی کشمیر میں اتا ر لی گئی ۔

پرائیو یٹ جہا دیو ں کی نا قص حکمت عملی اور قتل عا م کے رد عمل میں 6 نو مبر کو جمو ں میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کا قتل عا م شرو ع کر دیا ۔5لا کھ مسلما ن قتل کر دیے ، سینکڑ و ں خو اتین اغوا ءہو ئیں اور مسلما نوں کی بڑی تعداد نقل مکانی کر کے سیا لکو ٹ پہنچی ۔ اس ”بلوے“ میں کشمیر ی رہنما چو ہدری غلام عبا س کی جواں سال بیٹی بھی لا پتہ ہو ئی جس کا تا حال کو ئی سرا غ نہیں مل سکا ۔

ہما رے دوست اور معتبر صحا فی محسن علی خا ن ترک کا کہنا ہے کہ جمو ں کا قتل عام”ہولوکاسٹ“ سے بڑا و اقعہ ہے ۔ ہو لو کا سٹ میں ایک لا کھ یہو دی قتل ہو ئے جس کا آج تک پوری دنیا میں آج بھی چر چا ہے مگر جمو ں میں مذ ہب کے نا م پر کم و بیش 5لا کھ مسلما نو ں کا قتل عا م ہو ا لیکن آ ج اس حا دثے کا کو ئی نا م لیوا بھی نہیں ۔ غیر ملکی خصو صاً یو رپین مصنفین نے بھی اس قتل عا م کو بد ترین وا قعہ قر ار دیا مگر تما م با تیں کتا بو ں میں محفو ظ ہو کر رہ گئی ہیں ۔

1947 کے پرائیو ٹ جہا د کی صو ر ت میں پا نچ ہزار مر بع میل کا علاقہ پا کستا ن کے حصے میں آیا مگر بعد میں یہ کم ہو کر سا ڑھے چا ر ہزا ر مربع میل رہ گیا ہے۔ 1948میں بھا رت مسئلہ کشمیر کو اقوا م متحدہ میں لیکر گیا کئی سیشن ہو ئے مگر کو ئی نتیجہ نہ نکل سکا ۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پرآ خری بحث1957میں ہو ئی اس کے بعد اقوام متحدہ کاکشمیر ایشو پر کو ئی اجلا س نہیں ہو ا ۔

پا کستا ن جو کہ کشمیریو ں کا ازخود وکیل ہے اپنی ”لا جواب وکالت” کے بل بوتے پر مسئلے کو اقو ام متحدہ کے چیپڑ سکس میں بھی نہیں لا سکا ۔اقوام متحدہ چیپٹر سیکس کے تحت کسی بھی مسئلہ کے حل کیلئے طاقت کا استعمال کرنے کا اختیار رکھتا ہے جبکہ چیپٹر سیون کے تحت مسائل پر مذمت کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔ اگر پا کستا ن مخلص ہو تواسے چیپٹر سیکس پر لے کر آئے تو اقوام متحدہ طا قت کا استعما ل کر کے مسئلہ حل کرو ا سکتا ہے ۔

60کی دھائی میں پاکستان نے ”آپر یشن جبر الٹر “کے نام سے ایک خفیہ مہم جوئی کے ذریعے کشمیر حا صل کرنے کی کوشش کی مگر بھارت نے ردعمل میں لاہور پر حملہ کر دیا اوریوں یہ آپریشن بھی ناکام ہو ا۔اس کے بعد طویل عر صہ تک کشمیر میں حالات قدرے پر امن رہے ۔

1984ءمیں مقبول بٹ کی پھانسی کے بعد ایک بارپھر کشمیر پر لشکر کشی کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ کیونکہ کے حریت لیڈر کی پھانسی کے بعد کشمیر میں خاموش ردعمل کا امکان تھا جس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔

1987میں حزب المجاہدین قائم ہو گئی مگر مسلح جد وجہد کی ابتداءجموں وکشمیرلبر یشن فرنٹ کے ذریعے کرائی گئی ۔ اس جد وجہد میں کشمیری تنظیموں اور عوام نے حصہ لیا جس کے باعث کشمیر ایشو دنیا کے سامنے آیا اور بہت جلدعالمی حمایت بھی حا صل ہو گئی ۔

آزادی کی مسلح جدوجہد کے ابتدائی دو برسوں میں آدھا سرینگر حریت پسندوں ( آج بھی کشمیر میں آزادی کیلئے مسلح جد وجہد کرنے والوں کو حریت پسند ہی کہا جا تا ہے ) کے قبضہ میں تھا۔

بھارتی فوجی آزادی کے متوالوں پر گولیاں برسا نے کی بجائے گلے لگاتے اور جان کی امان پاتے تھے۔ ایسی ہی صورتحال تھی جیسی 2009میں سوات میں دیکھنے کو ملی ۔ عین ممکن تھا کہ کشمیر آزاد ملک بن جاتا مگر اس دوران راولپنڈی نے پالیسی تبد یل کرتے ہوئے مذہبی گروپوں کوجہاد کا نیا ٹھیکہ جاری کر دیا ۔

لبریشن فرنٹ کے حریت پسندبیابان جنگلوں اور خا موش وادیوں میں مذ ہبی جنو نیت کاشکار ہو کر گمنام نیند سو گئے ۔آج تک ان کے لاشے بھی نہیں ملے۔ودادی میں آگ وخون کا سلسلہ ہر نئے روز کیساتھ مزید تیز ہو رہا ہے اور بے گناہ کشمیری مرتے جا رہے ہیں ۔

پنجاب کے جہادی بھا ئیوں کی غیر ضروری مد اخلت نے کشمیر کا کیس بھی کمزور کر دیا ۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے صرف ایک حصے(وادی )میں جہاد اور آزادی کی جدوجہد نے کشمیریوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کیو نکہ جموں اور لداخ اس سے محفوظ ہیں ۔

پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں صرف” وادی کشمیر “کو متنا زعہ علا قہ قرار دیا جبکہ اقو ام متحدہ میں پاکستان کے منتقل مندوب بھی ”وادی “کی ہی رٹ لگائے ہو ئے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ پاکستان کو صرف” وادی“ چا ہیے ۔عوام سے کوئی ہمدردی اور لگاو نہیں جبکہ جموں اور لد اخ پر بھارتی قبضہ بھی قبول ہے ۔ پاکستان کو صر ف شہ رگ چاہیے جہاں سے بہتا سونا (دریا ) بہہ کر پنجاب کے صحراوں کو سیراب کر رہے ہیں ۔

منقسم ریاست کے تینوں حصوں کے عوام اور قیادت کو اب عقل سے کام لینا ہو گا ۔ 1947سے آج تک وطن کیلئے جانیں قربان کرنے والے ہندو، سکھ اور مسلم محب وطن کشمیریوں کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی قربانیوں کی لاج رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس کیلئے رنگ برنگی بو لیاں بولنے سے گریز کرنا ہو گا۔تمام جماعتوں ،پارٹیوں ،علاقوں اور خطو ں سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کو کسی ایک موقف پر متحد ہو نے کی ضرورت ہے ۔دنیا گلو بل ویلج بن چکی ہے مگر ہمارے لیڈر آج بھی ایک دوسر ے سے ہز اروں میل کے فاصلے اور برسوں کی مسافت پر ہیں ۔ فاصلوں کے بت تو ڑنا ہوں گئے ۔ جب تک کسی ایک قابل عمل نقطہ پر سب متفق نہیں ہو نگے اس وقت تک کو ئی کسی کو آزادی نہیں دیگا ۔

موجودہ صورتحال بر قرار رہی تو عنقر یب مسئلہ کشمیر بحیرہ ہند میں دفن ہو جا ئے گا اور منقسم خطوں کے حکمرانوں کو بلد یاتی اداروں کا ایڈ منسٹر یٹر بنانا بھی گوار ا نہیں کیا جائے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے