22اکتوبرکی سیاہی اورلہولہوکشمیر

یہ سن 47ء کا وہ دن ہے جب سرحد کے قبائلی لشکر کو ایبٹ آباد کے راستے کشمیر میں داخل کیا گیا تھا ۔ جنرل گریسی کشمیر پر حملے کی حکم کی تعمیل سے انکار کر چکے تھے ۔ قبائلیوں نے مظفرآباد سے قتل عام اور لوٹ گھسوٹ کا سلسلہ شروع کیا جو پانچ دن میں بارہ مولا تک جا پہنچا ۔ یہ سلسلہ 27 اکتوبر تک جاری رہا ۔ قبائلی حملہ آور اس بات کا لحاظ نہیں کرتے تھے کہ مقامی غیر مسلم کلمہ پڑھ رہے ہیں‌یا نہیں ،بس تلواریں اور کلہاڑیاں چلاتے تھے اور مال غنیمت اکھٹا کرتے تھے ۔

میں‌ اکتوبر 47 ء کے ان دلدوز مناظر کے عینی شاہد بزرگوں سے اس بارے میں بہت کہانیاں سن رکھی ہیں ۔ جن کا حاصل یہ ہے:

1۔ قبائلی لشکر کو ”جہاد” کے نام پر مشتعل کر کے بھیجا گیا تھا ۔

2۔ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ جو مال لوٹو گے وہ مال غنیمت ہو گا ۔

3۔ انہوں نے کشمیر غیر مسلم باشندوں کی عورتوں اور بزرگوں کے ساتھ وہ سب کچھ کیا جو مذہب اسلام میں سختی سے ممنوع ہے ۔

4۔ کئی عورتوں کے کانوں سے سونے کی بالیاں نوچی گئیں اور پھر بے حرمتی کے بعد وہ تہہ تیغ کر دی گئیں ۔

5۔ اکثر بزرگ 47ء کے ان فسادات کو ”غدر” کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے بڑے ہو کر اس لفظ کا درست مطلب معلوم ہوا ۔

6۔ کچھ مقامی لوگوں نے اس لالچ میں قبائلیوں کی مدد کی کہ لوٹی ہوئی دولت اور بھاگ جانے یا قتل ہو جانے والے غیر مسلموں کی زمینیں ان کے ہاتھ آئیں گی ۔

7۔ کئی مسلم باشندے جنہوں نے اپنے جاننے والے غیر مسلم پڑوسیوں یا دوستوں کو پناہ دے رکھی تھی ، انہیں‌بھی حملہ آوروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ۔

8۔ کئی ہندو اور سکھ گھرانوں نے اپنی عورتوں‌ کو صرف اس لیے قتل کر دیا کہ یہ ہمارے ساتھ بھاگ نہیں‌سکیں گی، اگر پیچھے رہ گئیں تو قبائلی ان کی بے حرمتی کریں گے ۔

9۔ اُس وقت ایک جملہ دہشت کی علامت بن گیا تھا ”آفریدی آ گئے ہیں بھاگو، جان بچائو”

10۔ بہت سی غیر مسلم عورتوں نے مجبورآ اسلام قبول کیا لیکن انہیں‌بھی لُوٹا گیا اور بعد میں کچھ بااثر لوگوں نے ان کے ساتھ صرف اس لیے نکاح کیے کہ ان کی زمینیں ہتھیائی جائیں۔

یہ چیدہ چیدہ نکات ہیں‌لیکن یہ پہلی غیر اخلاقی اور غیر انسانی مداخلت تھی جس نے کشمیر کے مسئلہ کی ایسی بنیاد رکھی جس کے بعد نفرت کا لاوہ ابل پڑا ۔ ردعمل میں‌جموں‌ میں سکھوں اور ہندوئوں نے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کیا اور وہ کشمیر جہاں ہندو، مسلمان ، بدھ مت سمیت مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے ایک ساتھ رہتے تھے ، ان کے درمیان شکوک اور کسی حد تک نفرت کی دیواریں اٹھا دی گئیں ۔ اس طرح صدیوں‌ سے قائم بین المذاہب ہم آہنگی اپنے الم ناک انجام سے دوچار ہوئی ۔

کشمیر کا اس وقت کا حکمران پاکستان کے ساتھ معائدہ قائمہ کر چکا تھالیکن اس غیر متوقع چڑھائی نے اسے اس قدر عدم تحفظ کا شکار بنایا کہ اسے بھارت سے عارضی مدد طلب کرنا پڑی اوراس معائدے یا درخواست کی بابت یہاں گزشتہ 70 سالوں سے افسانے گھڑ گھڑ کر سنائے جاتے رہے ۔ کسی نے اپنی غلطیوں‌کا تجزیہ نہیں کیا اور ہر ایک نے ڈوگرہ حکمران کو گالیاں دینے میں ہی عافیت جانی ۔

کشمیر کا مسئلہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہے ۔ بس شرط یہ ہے کہ صرف ”مطالعہ پاکستان” کی درسی کتاب میں‌ مسئلہ کشمیر کے عنوان سے درج اڑھائی پیراگراف پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ان فسادات کے کچھ اور روداد نگاروں کو بھی پڑھا جائے ۔ اگر یہ مشکل لگے تو اس زمانے کے کسی کشمیری بزرگ کے پاس چند لمحے بیٹھ جائیں اور ان سے پوچھیں کہ ”غدر” میں کیوں‌ایک دم سے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے ۔ جواب مل جائے گا۔

صاف لفظوں میں کہا جائے تو 22 اکتوبر کو شروع ہونے والی یہ قبائلی یلغار انسان دشمن اور کشمیر کے مسئلے کو شروع ہی سے خراب کرنے کی بڑی وجہ ہے ۔ یہ دن کشمیر کی لہو لہو تاریخ میں ایک سیاہ دھبے کی مانند ہے ۔ تاریخ آج بھی میجر جنرل اکبر خان آف گجرات اور خان عبدالقیوم خان اور ان کے ہمنوائوں سے اس ظالمانہ مہم جوئی کے بارے میں سوال پوچھتی ہے؟ وہ دونوں تو اپنے اعمال سمیت اس جہاں سے گزر گئے مگر کشمیری آج تک ان کی لگائی ہوئی اس آگ میں جھلس رہے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے