سیاسی اسلام سے مسلم جمہوریت تک کا سفر

عرب دنیا کی بااثر ترین سیاسی جماعت اورتیونس کی ابھرتی ہوئی جمہوریت میں اہم کردار ادا کرنے والی’’النہضہ‘‘ نے حالیہ دنوں میں تاریخی تبدیلی کااعلان کیا ہے۔النہضہ جس کی بنیاد خالصتاً مذہبی تنظیم کے طور پر رکھی گئی تھی،اب کلی طور پر ایک نئی شناخت کو اختیار کر کے جمہوریت پسند مسلمانوں کی جماعت کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ ۱۹۸۰ء میں،میں نے شریک بانی کے طور پر جس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی وہ اب سیاسی جماعت اور سماجی تحریک،دونوں کام ساتھ لے کر نہیں چلے گی۔اس تنظیم نے اپنی تمام مذہبی اور ثقافتی سرگرمیاں ختم کر کے صرف سیاست پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ہے۔

’’النہضہ‘‘ کا ارتقا تیونس کے سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔تنظیم نے اپنا آغاز آمر اور سیکولر حکومت،جس نے عوام کے ساتھ ظلم وجبر کا رویہ اپنا رکھاتھا اور عوام کے مذہبی آزادی اور آزادی اظہار رائے پر پابندیاں عائد کر رکھیں تھیں،کے خلاف اسلامی تحریک کے طور پر کیا۔تیونسی آمروں نے دہائیوں سے ملک میں ہر قسم کے سیاسی بحث و مباحثوں پر پابندی لگا رکھی تھی اور سیاسی مقاصد رکھنے والی تمام تحریکوں کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ صرف اور صرف سماجی وثقافتی تنظیموں کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔ لیکن ۲۰۱۱ء کی عرب بہار نے اس آمرانہ دور کا خاتمہ کردیا،جس کی وجہ سے سیاسی مسابقت کی فضاہموار ہوئی۔

تیونس کا نیا آئین ’’النہضہ‘‘ کے ارکانِ پارلیمان نے بنایا ہے، جس کی توثیق ۲۰۱۴ء میں کی گئی۔یہ آئین جمہوریت اور سیاسی و مذہبی آزادی کی حفاظت کرتا ہے۔نئے آئین کے مطابق تیونس کے باشندوں کو عبادت کرنے کی،اپنے ایمان اورعقائدکا اظہار کرنے کی مکمل آزادی ہے اور عرب مسلم تشخص کو وہاں ایک اہمیت حاصل ہے،النہضہ کو اب مزید ان معاملات میں الجھنے کی ضرورت نہیں رہی۔النہضہ نے اپنے اوپرسے اسلامی جماعت کا لیبل ہٹادیا ہے، جس کی وجہ سے بنیاد پرست اورانتہاپسند اس تنظیم کو بدنام کر رہے تھے۔النہضہ کے نقطہ نظر کے مطابق،تیونس میں جمہوریت کے اس تاریخی مرحلے میں سیکولرازم کا مذہب سے اب کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ سیکولرازم کو جبر کے ذریعے نافذنہیں کیا جاسکتا اور اب نئے آئین کے بعد النہضہ سمیت کسی بھی ایسی تنظیم کی ضرورت باقی نہیں، جوسیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی کے لیے بھی کام کرے۔

یہ ایک لازمی امر ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں اسلامی اقدار ہی اصل رہنمائی کرتی ہیں تاہم اب اسلامی ریاست اور سیکولر ریاست کے حوالے سے پرانے نظریات اور بحثوں میں الجھنے کا وقت نہیں ہے۔ تیونس میں اب مذہبی حوالے سے کام کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی بلکہ وہاں پر اب ایک اچھے جمہوری نظام کی ضرورت ہے، جو عام لوگوں کی زندگی کو بہتر بنا سکے۔النہضہ تیونس کی مخلوط حکومت میں شامل ہے،اور اب اس کا واحد مقصد تیونس کے باشندوں اوروہاں رہنے والے مقامی افراد کے معاملات کو بہتر طور پر حل کرتے ہوئے ان کے معیار زندگی کو بہتربنانا ہے۔

’’النہضہ‘‘ کا ارتقا مسلسل ۳۵ سالہ خود تشخیصی عمل اور ۲ سال تک بنیادی سطح پر مطالعے اور مباحثے کانتیجہ ہے۔ ’’النہضہ‘‘ نے مئی ۲۰۱۶ء میں تنظیمی اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں ۸۰ فیصد مندوبین نے اس فیصلے کی حمایت کی۔یہ تبدیلی کوئی بہت بڑی نظریاتی یا مذہبی سوچ کی تبدیلی نہیں تھی۔کیونکہ ہماری اقدار تو پہلے سے ہی جمہوریت سے ہم آہنگ ہیں۔ دراصل تبدیلی صرف اس ماحول میں ہوئی جس میں ’’النہضہ‘‘ کام کرتی تھی۔تیونس میں اب آمریت کی بجائے جمہوریت ہے، اور جمہوری ماحول میں کام کرنے کے لیے النہضہ اب ایک سیاسی تنظیم کے طور پرسامنے آئی ہے، آمریت اور سیکولرازم سے لڑنے کے بجائے النہضہ کو اب عملی اور اقتصادی منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔سیاست اور مذہب کے درمیان تنازعات نے مشرق وسطی کے تقریباتمام ممالک کوعدم استحکام اور تشدد کی طرف دھکیلا ہے۔ ’’النہضہ‘‘ کی پالیسی میں آنے والی اس تبدیلی کو یہ بات ثابت کرنی ہو گی کہ درحقیقت اسلام اور جمہوریت آپس میں مطابقت رکھتے ہیں اور اسلامی تحریکیں جمہوری ماحول میں رہتے ہوئے معاشرے کی ترقی میں ایک اہم اور تعمیری کردار ادا کرسکتی ہیں۔
مزاحمت اور جدیدیت

۱۹۷۰ء میں میں نے اور عبدالفتاح نے مل کر اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی جو بعد میں ’’النہضہ‘‘ کہلائی۔ ہم دونوں جامعہ زیتونیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ یہ دنیا کی پہلی اسلامی جامعہ ہے،جو۷۳۷ء میں قائم کی گئی۔اس جامعہ نے ریاست کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق اسلامی محرکات اور ذمہ داری کے نقطہ نظر کی ترویج کی۔ہمارے نقطہ نظر کی تشکیل مختلف اصلاح پسند اسلامی مفکرین کے ساتھ رابطے کے ذریعے ہوئی۔ ہمیں مصر کی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا اور شام میں اسی کی شاخ کے رہنما مصطفی سباعی جیسے اسلامی مفکرین نے متاثر کیا۔اسلامی تحریک کی بنیاد رکھنے کے بعدہم جن دیگر مغربی مفکرین سے متاثر ہوئے ان میں الجیریا کے فلاسفر مالک بن نبی اور زیتونیہ یونی ورسٹی سے تعلق رکھنے والے محمد طاہر بن عاشور(جو قرآن کی عقلی تفسیر کے نظریے کے بانی ہیں،اور مقاصد شریعت کو اہمیت دیتے ہیں) بھی شامل ہیں۔

اس وقت صدر حبیب بورقیبہ کی آمریت اورسیاسی اور شہری آزادی کے خاتمے نے تیونس کو بد ترین معاشی، معاشرتی،سیاسی اوراقتصادی عدم استحکام سے دوچار کیا ہوا تھا، اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی بدعنوانی،معاشی تنزلی، سماجی عدم استحکام اور،۱۹۷۶ء سے۱۹۷۸ء تک ہونے والی مسلسل ہڑتالوں اور مظاہروں نے تیونس کو تباہی کی طرف دھکیل دیا تھا۔ یہاں تک کہ تیونس کی تاریخ نے ۲۶ جنوری ۱۹۷۸ء کا وہ سیاہ دن دیکھا، جب حکومت نے درجنوں مظاہرین کوہلاک کردیا، سیکڑوں زخمی ہوئے جب کہ ہزاروں مظاہرین کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

جمہوری اصلاحات کی ضرورت پر بڑھتے ہوئے اتفاق رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریک اسلامی نے ایسے تمام لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا، جو یہ محسوس کر رہے تھے کہ انھیں صرف مذہبی وابستگی اور مذہبی حوالے سے کسی رائے کے اظہار (چاہے وہ عوامی سطح پر ہو یا انفرادی سطح پر) کی وجہ سے سیاسی عمل سے خارج کر دیا گیا تھا، یا پھر ان وجوہات کی بنیاد پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔اس سلسلے میں تحریک اسلامی نے بحث و مباحثہ کے مختلف فورم تشکیل دیے،تحقیقی مجلے شائع کیے اور جامعات کی سطح پر طلبہ کو متحرک کیا۔

اپریل ۱۹۸۱ء میں بورقیبہ حکومت نے سیاسی جماعتوں کے اندراج سے پابندی اٹھا لی۔اس موقع پر تحریک اسلامی نے سیاسی جماعت کے اندراج کے لیے درخواست جمع کروادی۔ سیاسی جماعت بنانے کے مقاصدیہ تھے کہ وہ جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرے گی، پُرامن شراکتِ اقتدار، صاف وشفاف انتخابات، معتدل مذہبی دانشورں کے تحفظ اور ایسی جدیدیت کے فروغ کے لیے، جو تیونس کی روایات اور ثقافت سے مطابقت رکھتی ہو، جدوجہد کرے گی۔ لیکن حکام نے اس درخواست کو نظر انداز کر دیا۔

اصلاحات کے بڑھتے ہوئے مطالبات پر کوئی مثبت اقدام کرنے کے بجائے حکومت نے تحریک اسلامی کے خلاف کریک ڈاؤن کا دائرہ بڑھا دیا،مجھ سمیت تحریک اسلامی کے پانچ سوارکان کو گرفتار کر لیا گیا۔۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۴ء تک مجھے اپنے ساتھیوں سمیت قید میں رکھا گیا۔رہائی کے فوراً بعد ہی ہمیں ’’حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ‘‘ یعنی ریاست کے خلاف بغاوت کے الزامات لگا کر دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ حکومت نے ظلم اور جبر اور مطلق العنانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے النہضہ کے بہت سے ارکان کو نام نہاد عدالتی کاروائی کے ذریعے عمر قید کی سزائیں سنائیں۔

۱۹۸۷ء میں زین العابدین بن علی نے جب بورقیبہ کا تختہ الٹا تو سیاسی ماحول میں بہتری کی امید پیدا ہوئی۔بن علی نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ آج سے کثیر الجماعتی جمہوری دور کا آغاز ہو گیا ہے۔اس موقع پر اسلامی تحریک نے ایک بار پھر ’’حزب النہضہ‘‘کے نام سے سیاسی جماعت کے اندراج کے لیے درخواست دی۔ پہلے کی طرح اس درخواست کو بھی نظر انداز کر دیا گیا اور سیاسی ماحول کی بہتری کی امید ایک سراب ثابت ہوئی۔بن علی نے بھی بورقیبہ دور کی ظلم وجبر کی پالیسی اپنا لی۔۱۹۸۹ء میں قومی انتخابات کے موقع پر جب ایسے آزاد امیدواروں نے، جن کا تعلق النہضہ سے تھا،۱۳ فیصد ووٹ حاصل کر لیے اور ایک اندازے کے مطابق شہری علاقوں سے ۳۰ فیصد ووٹ حاصل کیے تو حکومت النہضہ کو ختم کرنے کے درپے ہو گئی۔ ہزاروں ارکان کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا، بے پناہ تشدد کیا گیا۔ نوکریوں سے نکال دیا گیا اور تعلیمی مواقعوں سے محروم کر دیا گیا۔مجھ سمیت بہت سے ارکان کو زبردستی جلاوطن کر دیا گیا۔

اگلی دو دہائیوں میں تیونس ظلم و جبر کا شکار رہا اور ’’النہضہ‘‘ تحریک کالعدم تنظیم کے طور پر زیر زمین اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرتی رہی۔ دسمبر ۲۰۱۰ء میں وہ تاریخی لمحہ آیا جب ایک پھل فروش محمد البو عزیزی نے پولیس اور دیگر حکومتی اہلکاروں سے تنگ آکر حکومتی دفتر کے سامنے خود سوزی کر لی۔ البوعزیزی کے اس عمل نے عوام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔پھر ایک ماہ کے اندر اندربڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج نے بن علی کو بھاگنے پر مجبور کر دیا اور ساتھ ہی اس احتجاجی تحریک نے تقریباً پورے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،جس کے نتیجے میں کئی حکومتوں کے تختے الٹ گئے۔ النہضہ نے عوام کے ساتھ مل کر اس احتجاجی تحریک میں حصہ ضرور لیا،لیکن اپنے پرچم اور نام کا استعمال نہیں کیا، تاکہ حکومت کو یہ بہانہ بنانے کا موقع نہ مل سکے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں حصول اقتدارکے لیے تحریک چلا رہی ہیں۔

اکتوبر ۲۰۱۱ء میں ملک میں ہونے والے پہلے صاف و شفاف انتخابات میں النہضہ نے عوام میں اپنی جڑیں مضبوط ہونے، بہترین تنظیمی نیٹ ورک اور آمر کے خلاف جدوجہد میں تسلسل کی وجہ سے واضح فرق سے برتری حاصل کی۔قومی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے النہضہ نے دو سیکولر جماعتوں سے اتحاد کر کے عرب کی روایتی سیاست میں ایک نئی مثال قائم کی۔

انتخابات کے بعد جب ملک ایک نازک صورتحال سے گزر رہا تھا اور جمہوریت نے بھی ابھی پاؤں نہیں جمائے تھے، ’’النہضہ‘‘ نے بدلے کے بجائے مصالحت اور مفاہمت کو پروان چڑھایا۔نئے آئین پر ہونے والے مذاکرات کے دوران بھی النہضہ نے اپنے بہت سے مطالبات پر مفاہمت کی اور صدارتی وپارلیمانی نظام کی حمایت کی، حالانکہ النہضہ نے پہلے خالصتاً پارلیمانی نظام کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی رضامندی کا اظہار کیا کہ آئین سازی میں شریعت کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں ہوگی۔ النہضہ کی مفاہمتی پالیسی اوراس نظام میں رہ کر کام کرنے کی وجہ سے ایک نیا آئین سامنے آیا۔ یہ آئین جمہوریت کا تسلسل، قانون کی بالادستی، سیاسی، مذہبی، معاشی، ثقافتی اور ماحولیاتی حقوق کا آئینہ دار ہے۔

۲۰۱۳ء میں سلفی انتہا پسندوں نے سیاسی قتل و غارت گری اور حملو ں کا ایک سلسلہ شروع کیا،تاکہ سیاسی عمل کو پٹری سے اتارا جا سکے۔اس موقع پر کچھ ارکان اسمبلی نے بھی النہضہ پر ان واقعات کا الزام لگا کر آئین سازی پر ہونے والے مذاکرات کا بائیکا ٹ کر دیا۔جس پر النہضہ اور اس کی اتحادی جماعتوں نے بجائے یہ کہ ان کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر آئین کا مسودہ تیار کرتی،ان کے ساتھ مفاہمت کر کے کام کا دوبارہ آغاز شروع کیا۔اس جمہوری عمل کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے النہضہ نے وہ قربانیاں بھی دیں، جس کی مثال خطے میں کہیں نہیں ملتی۔النہضہ نے حکومت چھوڑدی، جس کے نتیجے میں غیر جانبدار ٹیکنوکریٹ حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ دراصل حکومت میں رہنا ہمارا مقصد نہیں تھا،بلکہ ہم چاہتے تھے کہ آئین ساز کمیٹی اور قانون ساز اسمبلی اپنا کام مکمل کرے، تاکہ جمہوری تیونس کی بنیادیں مضبوط ہو سکیں۔

۲۰۱۴ ء کے انتخابات میں النہضہ نے اپنی شکست کو خوشی سے تسلیم کیا اور۲۰۱۲ء میں بننے والی جماعت ’’ندا تونس‘‘ کی فتح کو بھی بخوشی قبول کیا۔اس کے بعد سے اب تک ’’النہضہ‘‘ حکومتی جماعت ’’نداتونس‘‘ کی اتحادی ہے۔باوجود اس کے کہ دونوں جماعتیں ہر معاملے پر ایک جیسا موقف نہیں رکھتیں، لیکن یہ اتحاد بہتر طریقے سے کام کر رہا ہے۔اس طرح ایک مکمل آئین کی موجودگی میں اور سیاسی مفاہمت کے نتیجے میں النہضہ اپنے مقصد یعنی’’مسلم جمہوریت‘‘ کی جانب گامزن ہے۔

[pullquote]مسجد اور ریاست کی علیحدگی[/pullquote]

النہضہ کادسواں تنظیمی اجلاس مئی ۲۰۱۶ء میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں پالیسی میں تبدیلی کی ایک فہرست جاری کی گئی، اس فہرست کو دیکھ کر یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ النہضہ کی تمام تر توجہ صرف سیاسی سرگرمیوں پر مرکوز ہے، معاشرتی، تعلیمی، ثقافتی اور مذہبی سرگرمیاں اب النہضہ کا ہدف نہیں ہیں، حالیہ برسوں میں النہضہ آہستہ آہستہ معاشرتی، فلاحی اور مذہبی سرگرمیوں کو ترک کر رہی ہے اور اپنی شناخت ایک ایسی تنظیم کے طور پر کر وارہی ہے جو کہ آزاد شہری معاشرے کے لیے کام کرے گی۔مقرر کردہ تبدیلیوں کے نفاذ کا آغاز کیاجاچکا ہے۔النہضہ کی نئی پالیسی کے تحت اب تنظیم کے کارکنان مساجد میں مذہبی تقریر یا تبلیغ نہیں کرسکتے اور فلاحی انجمنوں میں اہم عہدے بھی حاصل نہیں کرسکتے۔

ہمارا مقصد مذہب اور سیاست کو الگ کرنا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت مذہب کی ترجمانی نہیں کر سکتی اور نہ ہی اسے ایسا کرنا چاہیے۔ اور مذہبی اداروں کے لیے بھی ضروری ہے کے وہ آزاد اور غیر جانبدار رہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ مسجد لوگوں میں تقسیم کا باعث نہ بنے بلکہ وہ ان کو اکٹھا کرنے کی جگہ ہو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مسجد کے امام کا غیر سیاسی ہونا بھی ضروری ہے۔امام مسجد کی تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے شعبے یعنی مذہبی معاملات کا ماہر ہو،تاکہ اس کی پہچان ایک بہترین مذہبی رہنما کی ہو۔ اس وقت تیونس میں صرف سات فیصد ایسے امام ہیں جو اس تربیتی عمل سے گزر چکے ہیں۔

تنظیمی اجلاس نے تیونس کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی منظوری دی ہے۔جس میں اپنی تمام تر توجہ آئینی طریقہ کار کو مستحکم کرنے، انصاف کی فراہمی، اقتصادی اصلاحات، معاشی ترقی اور اصلاحات کو فروغ دینے پر مرکوز کی گئی ہے۔ہم ایک ایسا کثیرالجہتی نقطہ نظر تشکیل دے رہے ہیں، جس کے مطابق دہشت گردی سے بہتر انداز سے نمٹاجاسکے اور ساتھ ساتھ مذہبی ادارے زیادہ بہتر انداز میں کام کر سکیں۔

النہضہ کو اب اسلامی تحریک نہیں بلکہ ’’مسلم ڈیموکریٹس‘‘ کی تنظیم سمجھنا چاہیے۔ہم چاہتے ہیں کہ مذہبی تعلیمات کی طرف دعوت دینے کے بجائے تیونسی عوام کے روز مرہ کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ النہضہ کی بنیاد ہمیشہ اسلامی اصولوں پر ہی رہے گی اور یہی روایات ہمارے لیے مشعل راہ بنیں گی۔لیکن نئے آئین کے لاگو ہونے کے بعد اس بات کی کوئی خاص ضرورت نہیں کے النہضہ مذہبی حقوق کے حصول کے لیے جدو جہد کرے،کیونکہ نئے آئین کے تحت ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہے، چاہے کوئی کسی مذہب پر یقین رکھے یا مذہب کا انکا ری ہو جائے۔ مذہب اور سیاست کے الگ ہو جانے سے حکام عوام کو گمراہ کرنے کے لیے مذہبی سیاست جیسے الزامات کا ہتھکنڈہ استعما ل نہیں کر سکیں گے۔اس سے مذہبی اداروں کو بھی آزادی سے کام کرنے کا موقع ملے گا، کیوں کہ انقلاب سے پہلے ریاست سیاست کی وجہ سے مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگا دیا کرتی تھی۔

یہ تقسیم تیونس کو انتہاپسندی سے لڑنے میں بھی مدد دے گی۔ آمرانہ دور حکومت میں جب مذہبی سرگرمیوں پر پابندی تھی، تو مذہب کی طرف رجحان رکھنے والے اعتدال پسند نوجوان مرکزی دھارے میں شمولیت سے روکنے کے لیے لگائی جانے والی بے جا پابندیوں کے نتیجے میں انٹرنیٹ کے ذریعے انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ جاتے تھے۔انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو اچھے طریقے سے سمجھا جائے اور اسلامی احکامات کی روایتی تعبیر کرنے کے بجائے انھیں جدید دور کی ضروریات زندگی کو سامنے رکھ کر سمجھا جائے۔مسجد کی سیاست سے علیحدگی اور بہتر نظام حکومت کی صورت میں مذہبی ادارے نہ صرف فعال انداز میں کام کر سکیں گے بلکہ جدید مذہبی تعلیم اور اسلامی نظریات کی جدید تعبیر بھی کی جا سکے گی۔

تیونس میں گزشتہ پانچ سالوں میں غیر معمولی سیاسی پیش رفت ہوئی ہے۔حکومت کو اس پیش رفت سے فائدہ اٹھانے کے لیے معاشی اور سماجی ترقی کو اپنی ترجیحات میں رکھنا ہوگا۔ اس وقت نہ صرف جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے بلکہ روزگار اور معاشی ترقی کی ضرورت کو سامنے رکھ کر اقتصادی اصلاحات بھی کرنی ہوں گی۔ اور اس کام کے لیے النہضہ سمجھتی ہے کہ قومی سطح پر بحث و مبا حثہ ہونا چاہیے،جس کے نتیجے میں سرمایہ داری کا ایسا نمونہ سامنے آئے، جس میں کاروبار کرنے کی آزادی ہو لیکن سماجی انصاف اور سب کو یکساں مواقع بھی حاصل ہوں۔

معاشی ترقی میں تیزی لانے کے لیے حکومت کو اسٹریٹیجک شعبوں میں پیداوار دوبارہ شروع کرنے کے راہ ہموار کرنی ہو گی۔جیسا کہ فاسفیٹ کی پیداوار،جو کہ انقلاب کے بعد سے مزدوروں اور مالکان کے درمیان تنخواہوں کے تنازعہ کی وجہ سے نہایت کم ہو چکی ہے۔اسی طرح النہضہ چاہتی ہے کہ بینکاری کے شعبے میں اصلاحات متعارف کروائی جائیں،تاکہ کمپنیاں اور لوگ انفرادی طور پر آسانی سے قرضے حاصل کر سکیں۔اس کے علاوہ ہم نے حکومت کو اس پر مجبور کیا ہے کہ وہ کسانوں اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کی مدد کرے۔ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ نئے تجارتی شراکت دار تلاش کرے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ برآمدات میں اضافہ کرے، اس مقصد کے لیے افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا میں بہت سے مواقع موجود ہیں۔ اسی طرح حکومت کو یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں تیزی لانی ہو گی۔

تیونس کی کامیابی کے لیے کاروبار دوست ماحول کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ملک میں مجموعی طور پر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ سرکاری نوکری کرنا ہی سب سے بہتر ہے،کیونکہ پچھلے ادوار میں بدعنوانی کی وجہ سے لوگوں میں کاروبار کرنے کا رجحان با لکل بھی فروغ نہ پا سکا۔النہضہ اس سوچ کو بدلنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے،کیوں کہ اس سوچ کی وجہ سے ریاست تمام وسائل پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے تھی۔اگر لوگوں میں کاروبار کا رجحان بڑھتا ہے تو ریاست کی اجارہ داری خود بخود ختم ہوجائے گی۔نوجوانوں کو کاروبار کی طرف راغب کرنے کے لیے النہضہ حکومت کی مکمل معاونت کر رہی ہے۔النہضہ سے تعلق رکھنے والے زیاد العذاری جو کہ پیشہ وارانہ تربیت اور روزگار کے وزیر ہیں،اس سلسلے میں ضرورت کے مطابق اصلاحات متعارف کروا چکے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک پروگرام کا بھی آغاز کیا جس کے تحت ۶ لاکھ بے روزگار نوجوانوں کو پیشہ وارانہ تربیت دی جائے گی،تربیتی مراکز کو ازسر نو تعمیر کیا جائے گا اور’’کیرئیر گائیڈنس‘‘ کے لیے قومی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔

النہضہ ایسی اصلاحات کی بھی حمایت کرتی ہے کہ جس کے ذریعے نجی اداروں کے تعاون سے منصوبوں پر کام کرنا آسان ہو جائے اور نجی اداروں کے تعاون سے نئے کاروبار متعارف کروائے جائیں۔زیاد العذاری کی متعارف کروائی گئی اصلاحات میں نئے کاروبار کرنے والوں کے لیے تربیتی پروگرام،مالی مدداور سرکاری امور میں آسانی رکھی گئی ہے تاکہ نیا کاروبار کرنے والوں کا حوصلہ بڑھایا جا سکے۔

تعلیمی نظام میں تبدیلی لائے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔ تیونس کے نظام تعلیم کا اس کے صنعتی شعبے سے کوئی میل نہیں کھاتا۔ یہی وجہ ہے کہ بیروزگاری کی شرح اس وقت ۱۵ فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔تعلیم کو روزگار کا ذریعہ بننا چاہیے نہ کہ وہ بیروزگاری میں اضافے کا باعث بنے۔النہضہ چاہتی ہے تعلیم کے شعبے میں ایسی اصلاحات متعارف کروائی جائیں جن سے تعلیمی ادارے صنعتی شعبے کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہوں، جس کے لیے وہ طلبہ کی فنی تعلیم کی طرف توجہ دیں۔ اور ان کے لیے مختلف نجی و سرکاری اداروں میں روزگار کے مواقع پیدا کریں۔

تیونس میں ہونے والی ڈرامائی سیاسی تبدیلی اور معاشی ترقی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں سماجی تبدیلی بھی لائی جائے۔ اس سلسلے میں سرکاری شعبے اور کاروبار میں خواتین کا کردارسب سے اہم ہے۔تیونس کی سیاست، عدلیہ اور سول سوسائٹی میں آنے والی اس جمہوری تبدیلی میں خواتین کی شرکت اور ان کی قیادت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔آج جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ میں ۶۰ فیصد سے زائد خواتین ہیں۔اس کے باوجود مردوں کے مقابلے میں خواتین میں بیروزگاری زیادہ ہے۔ملک کی جمہوری ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ خواتین کی ترقی کی راہ میں حائل مشکلات دور کی جائیں،انھیں تمام شعبہ جات میں یکساں مواقع حاصل ہوں اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلے میں النہضہ نے مارچ ۲۰۱۷ ء ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے امیدواروں میں خواتین اور مردوں کی یکساں نمائندگی کا فیصلہ کیا ہے۔

ان تمام معاملات سے اہم داخلی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اس غیر مستحکم خطے میں داخلی سلامتی کو یقینی بنانا اس جمہوری نظام کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے۔انفرادی حقوق کا احترام کرتے ہوئے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہوئے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی ہر ممکن طریقے سے حفاظت کرے۔ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ انتہا پسندی کی وجوہات جاننے کے لیے قومی سطح پر کوئی حکمت عملی ترتیب دی جانی چاہیے۔ انسدادِ دہشت گردی کی بہتر حکمت عملی ردعمل کے امکانات کو کم کرتی ہے۔ اس لیے ہمارے اداروں کو چاہیے کے شہری حقوق،اظہار رائے کی آزادی،میڈیا،سول سوسائٹی کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی تشکیل دیں اور اپنے کام کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی لائیں۔ قومی انسدادِ تشدد کمیشن کا قیام اور قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے ہونے والی نئی ترامیم اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔

داعش جیسے شدت پسندگروہوں کو شکست دینے کا واحد راستہ یہ ہے کہ لاکھوں مسلم نوجوانوں کو بہترین متبادل فراہم کیے جائیں۔عرب کے لوگوں نے سماجی پابندیوں،کم مواقع اور آمروں کے ہاتھوں ظلم و ستم جیسی آزمائشوں کا سامنا کیا ہے۔ان کے احساس محرومی سے شدت پسند گروہوں نے فائدہ اٹھا کر انھیں خطے میں اپنی طرز کی آمریت اور انارکی پھیلانے جیسے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اگر انھیں اپنے طرز عمل سے اس بات کا یقین دلادیا جائے کہ ’مسلم جمہوریت‘ فرد کے حقوق کا احترام کرتی ہے،معاشی و سماجی مواقع پیدا کرتی ہے اور عرب اسلامی روایات اور پہچان کی حفاظت کرتی ہے تو تیونس میں جمہوریت کی کامیابی نہ صرف شدت پسندوں، بلکہ سیکولر آمروں کے منہ پر بھی ایک طمانچہ ہو گی۔

[pullquote]اختتامیہ:[/pullquote]

اس بات کا قوی امکان ہے کہ النہضہ کی نئی حکمت عملی اس کی کامیابی کا با عث بنے گی۔ہمیں امید ہے کہ یہ تبدیلی مسلم دنیا میں اسلام اور جمہوریت کی مطابقت پر حوصلہ افزا بحث کا آغاز کرے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے کے دیگر ممالک کی صورتحال تیونس سے مختلف ہے۔مصر،عراق اور شام جیسے ممالک کو آمریت اور فرقہ واریت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔جس ملک کے جتنے بڑے مسائل ہوں گے، تبدیلی کی قیمت بھی اسی حساب سے چکانی ہو گی اور وقت بھی اتنا ہی لگے گا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ تبدیلی آرہی ہے، ’’چاہے وہ انارکی کے نتیجے میں آئے یا پرامن انقلاب کے نتیجے میں یا پھر بتدریج ہو نے والی اصلاحات کے نتیجے میں‘‘ اور جب بھی تبدیلی آئے گی تو تیونس اور ’’النہضہ‘‘ اس تبدیلی کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہوں گے۔

(ترجمہ: سمیہ اختر، حافظ محمد نوید نون)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے