پاک بھارت:نہری پانی معاہدے کامتن

[pullquote]سندھ طاس معاہدہ[/pullquote]

پاکستان اور بھارت کے درمیان نہری پانی کے جس سمجھوتے پر دستخط ہوئے، وہ ۲۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس معاہدے کے ساتھ ۸ تتمہ جات بھی ہیں، جن میں معاہدہ کی مختلف دفعات اور متبادل تعمیرات نیز پانی کے استعمال کے بارے میں تشریحات درج ہیں۔ ان تتمہ جات میں معاہدہ یا تتمہ جات کی بعض دفعات کے بارے میں پیدا شدہ اختلافی مسائل کو ثالثی یا کسی فنی ماہر سے طے کرانے کے سلسلے میں بھی دو تتمہ جات شامل ہیں، نہری پانی کے معاہدے کا متن حسب ذیل ہے:

[pullquote]تمہید[/pullquote]

پاکستان اور بھارت کی حکومتیں طاس سندھ کے دریاؤں سے پورا اور مکمل فائدہ اٹھانے کی یکساں خواہش ہونے کے ساتھ اس ضرورت کو بھی تسلیم کرتی ہیں کہ وہ پانی کے استعمال کے سلسلے میں کچھ پابندیاں اور حدود مقرر کریں جن پر عملدرآمد کے دوران پیدا ہوئے تنازعات کے حل کے لیے انہوں نے تہیہ کیا ہے کہ وہ ایک معاہدہ کریں گی۔ انہوں نے معاہدہ کرنے کے لیے بالترتیب صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور وزیراعظم مسٹر جواہر لعل نہرو کو نامزد کیا ہے۔ جو ایک دوسرے کو اپنے اپنے اختیارات سے مطلع کرنے کے بعد مندرجہ ذیل دفعات اور تتمہ جات پر متفق ہو گئے ہیں۔
آرٹیکل

(۱) تعریف: معاہدے میں آرٹیکل معاہدہ کی دفعہ کو اور تتمہ اصل معاہدے کے ساتھ اضافوں کو کیا جائے گا ماسوائے ان صورتوں کے جب آرٹیکل یا تتمہ کے بارے میں دوسری تعریف کی جائے۔

(۲) معاون: معاہدہ میں معاون کی اصطلاح کسی ایسی ندی نالے کے لیے استعمال کی جائے گی جو قدرتی طور پر سارا سال یا وقفوں کے ساتھ بہتا ہو اور دریا میں گر جائے۔ معاونوں میں نکاسی کی مصنوعی نہریں بھی شامل ہیں۔

(۳) سندھ، جہلم، چناب، راوی، بیاس یا ستلج کی اصطلاحوں سے مراد انہی ناموں والے دریا ہیں، جن میں ان سے ملحقہ جھیلیں اور ان کے معاون جن کی تعریف اوپر دی جاچکی ہے بھی شامل ہیں۔ واضح رہے

i۔ مندرجہ بالا میں سے کسی دریا کو بھی معاون تصور نہیں کیا جائے گا۔

ii۔ چناب میں دریائے پنجند کو بھی شامل کیا جائے گا۔

iii۔ دریائے چندرا اور دریائے بھاگا کو دریائے چناب کا معاون سمجھا جائے گا۔

(۴) دریائے سندھ، جہلم، چناب، ستلج، بیاس یا راوی کے ساتھ جب لفظ ’’مین‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب صرف دریا ہوتا ہے، جس میں اس کے معاون شامل نہیں ہیں۔

(۵) مشرقی دریاؤں سے معاہدہ میں ستلج، بیاس اور راوی کے دریا مراد ہیں اور

(۶) مغربی دریاؤں سے مراد سندھ، جہلم اور چناب کے دریا ہیں۔

(۷) معاہدہ میں ’’دریاؤں‘‘ کی اصطلاح سے مراد دریائے ستلج، بیاس، راوی، سندھ، جہلم اور دریائے چناب ہیں۔

(۸) ملحقہ جھیلوں سے مراد وہ جھیل ہے جو مذکورہ دریاؤں میں سے پانی حاصل کرتی ہے یا اسے پانی پہنچاتی ہے لیکن ایسی کوئی جھیل جس میں دریا کا صرف جھلکا ہوا پانی آتا ہے ملحقہ جھیل نہیں کہلائے گی۔

(۹) زرعی استعمال سے مراد دریا کے پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے، جن میں پائیں باغ اور تفریح گاہوں کی آبپاشی شامل نہیں ہے۔

(۱۰) گھریلو استعمال کا مطلب مندرجہ ذیل مقاصد کے لیے پانی کا استعمال کرنا ہے،

(الف) پینے، کپڑے دھونے، نہانے، تفریح کرنے، صفائی، ذخیرہ کرنے، اور پولٹری وغیرہ کے لیے۔

(ب) گھریلو اور میونسپل مقاصد کے لیے جن میں پائیں باغوں اور تفریح گاہوں کو سیراب کرنا بھی شامل ہے۔

(ج) صنعتی مقاصد کے لیے جس میں کان کنی، چکیاں چلانے، اور اسی نوع کے دوسرے کام شامل ہیں۔

(۱۱) پانی کا ایسا استعمال جس میں کھیت نہ ہو سے مراد پانی کو جہاز رانی، لکڑی یا دوسرے سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے، سیلابوں پر قابو پانے، یا اسی نوع کے دوسرے استعمالات شامل ہیں، لیکن اس صورت میں استعمال کے بعد پانی اسی دریا یا اس کے معاون میں واپس آنا چاہیے جس سے اسے لیا گیا ہو، پانی کے مذکورہ استعمال میں زرعی مقاصد یا بجلی بنانے کے لیے پانی کا استعمال شامل نہیں ہیں۔

(۱۲) عبوری مدت سے مراد وہ عرصہ ہے جس کا ذکر آرٹیکل ۶ میں کیا گیا ہے۔

(۱۳) ’’بنک‘‘ کی اصطلاح سے مراد عالمی بنک برائے تعمیرات نو اور ترقی ہے۔

(۱۴) ’’کمشنر‘‘ سے مراد ان کمشنروں میں سے کوئی ایک ہے جو آرٹیکل ۸ (۱) کے تحت مقرر کیے جائیں گے اور کمیشن سے مرادوہ مستقل کمیشن ہے جو معاہدہ کے آرٹیکل ۸ (۳) کے تحت قائم کیا جائے گا۔

(۱۵) دریاؤں میں مداخلت سے مراد یہ ہے۔

(الف) دریاؤں سے پانی حاصل کرنا۔

(ب) دریاؤں کی روانی میں مصنوعی رکاوٹ پیدا کرنا جس سے پانی کی عام روزانہ مقدار میں تبدیلی ہوسکے تاہم ان رکاوٹوں میں وہ عارضی معمولی اور غیر اہم رکاوٹیں شامل نہیں ہیں جو پُلوں یا کسی دوسری وجہ سے پیدا ہوں۔

(۱۶) ’’تاریخ نفاذ‘‘ سے مراد وہ تاریخ ہے جس تاریخ سے یہ معاہدہ آرٹیکل ۱۲ کے مطابق نافذ العمل ہوگا، اور وہ تاریخ یکم اپریل ۱۹۶۰ء ہے۔

آرٹیکل نمبر۲:

[pullquote]مشرقی دریاؤں کے بارے میں دفعات[/pullquote]

(۱) تمام مشرقی دریاؤں کا پانی بھارت کے غیر محدود استعمال میں رہے گا۔ سوائے اس کے جس کا ذکر واضح طور پر اس آرٹیکل میں کیا گیا ہے۔

(۲) گھریلو استعمال اور پانی کی کھیپ کے بغیر استعمال کے سوا پاکستان کا فرض ہوگا کہ وہ ان علاقوں میں دریائے ستلج اور راوی کے پانی میں کوئی مداخلت نہ ہونے دے، جہاں یہ دریا پاکستان میں تو بہتے ہیں لیکن ابھی ’’قطعی طور پر‘‘ پاکستان میں داخل نہیں ہوئے، یہ دریا پاکستان میں مندرجہ ذیل مقامات پر داخل ہوتے ہیں۔

(الف) دریائے ستلج کے ضمن میں یہ مقام ہستا بند ہوگا، جو ہیڈ سلیمانکی سے بالائی حصے میں واقع ہے۔

(ب) دریائے راوی کی صورت میں یہ جگہ B.R.B.D. لنک کے سائفین سے آدھا میل اوپر واقع ہے۔

(۳) پاکستان ’’پانی کی کھیپ کے بغیر استعمال‘‘ اور زرعی استعمال جن کا ذکر تتمہ ب میں کیا گیا ہے، اس کے سوا دریائے راوی اور چناب کے ان معاونوں کے پانی میں بھی کوئی مداخلت نہیں ہونے دے گا جو پاکستان کے علاقہ میں بہتے ہوئے مذکورہ دریاؤں کے پاکستان میں داخل ہونے سے قبل ان میں جاملتے ہیں۔

(۴) دریائے راوی اور چناب کے ان معاونوں کا پانی جو ان دونوں دریاؤں کے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد ان میں شامل ہوتے ہیں پاکستان کے غیر محدود استعمال کے لیے وقف ہوگا لیکن اس دفعہ سے پاکستان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھارت سے مذکورہ معاونوں میں پانی دینے کا مطالبہ کرے، اگر پاکستان کی طرف سے کسی ایسے معاون میں پانی دیا جائے جو دریائے راوی میں کسی ایسے مقام پر شامل ہو جو پاکستان میں واقع ہے تو بھارت اس معاون کے پانی میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا، دونوں فریق اس امر پر بھی رضامند ہو گئے ہیں کہ پاکستان کے استعمال میں آنے والے پانی کی مقدار کے تعین اور دیکھ بھال کے لیے چوکیاں قائم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں، پاکستان نے ان چوکیوں کے قیام کے اخراجات برداشت کرنا بھی منظور کرلیا ہے۔

(۵) ایک عبوری مدت طے ہوگی جس کے دوران بھارت۔

(i) زرعی استعمال کے لیے پانی کی نکاسی کی حد مقرر کرے گا۔

(ii) پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے بھی ایک حد مقرر ہوگی۔

(iii) اور مشرقی دریاؤں سے پاکستان کو پانی کی فراہمی جاری رہے گی۔

(۶) یہ عبوری مدت یکم اپریل ۱۹۶۰ء سے یکم مارچ ۱۹۷۰ء تک ہوگی جس میں توسیع بھی ممکن ہے، لیکن متبادل انتظامات نہ ہونے کی صورت میں بھی توسیعی مدت ۳۱ مارچ ۱۹۷۳ء سے بڑھائی نہیں جاسکے گی۔

(۷) اگر عبوری مدت میں ۳۱ مارچ ۱۹۷۰ء کے بعد توسیع کی گئی تو اس پر دفعہ ۵ (۵) کا اطلاق ہوگا۔

(۸) اگر عبوری مدت میں توسیع کی گئی تو اس مدت میں جو پیراگراف نمبر۵ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

(۹) عبوری مدت کے دوران پاکستان کو مشرقی دریاؤں کے پانی کے غیر محدود استعمال کا حق حاصل ہوگا، عبوری مدت ختم ہونے پر پاکستان کو مشرقی دریاؤں کے پانی کے استعمال کا کوئی حق باقی نہیں رہے گا، البتہ اگر ان دریاؤں کا پانی پاکستان میں داخل ہوگیا تو پاکستان کو اس کے غیر محدود استعمال کا حق حاصل ہوگا، لیکن اس کو آئندہ ایسے کسی استعمال کا حق بھی نہیں رہے گا۔
مغربی دریاؤں کے بارے میں دفعات

(۱) پاکستان کو مغربی دریاؤں کے پانی کے غیر محدود استعمال کا حق حاصل ہوگا اور بھارت پر یہ فرض عائد ہوگا کہ وہ ان دریاؤں میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہونے دے۔

(۲) بھارت کا فرض ہوگا کہ وہ تمام مغربی دریاؤں کے پانی میں کسی قسم کی رکاوٹ یا مداخلت کی اجازت نہ دے تاہم اسے ان دریاؤں (سندھ، جہلم اور چناب) کے پانی کے محدود استعمال کی اجازت ہوگی، جو مندرجہ ذیل ہیں۔

(الف) گھریلو استعمال (ب) کھپت کے بغیر استعمال (ج) زرعی استعمال جس کا ذکر تتمہ ’’سی‘‘ میں کیا گیا ہے، (د) بجلی پیدا کرنے کے لیے جس کا ذکر تتمہ ’’ڈی‘‘ میں کیا گیا ہے۔

(۳) پاکستان ان تمام وسائل کا پانی بھی غیر محدود طریقے پر استعمال کرسکے گا جن کا پانی وہ ستلج اور راوی میں دے گا اور بھارت اس پانی کو استعمال نہیں کرے گا۔ فریقین پاکستان کے استعمال میں آنے والے پانی کی مقدار کے تعین اور نگرانی کے لیے ایسی چوکیاں قائم کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں جو کمیشن کے خیال میں ضروری ہوں گی۔

(۴) بھارت تتمہ ’’ڈی‘‘ اور ’’ای‘‘ کی شقوں میں مذکور کے سوا بھارت مغربی دریاؤں پر نہ تو کوئی ذخیرۂ آب تیار کرے گا اور نہ ہی کوئی بند تعمیر کرے گا۔

(i) پاکستان ان تعمیرات کو جلد ازجلد مکمل کرنے کی کوشش کرے گا جن کے ذریعے اس علاقے کو سیراب کیا جاسکے جو ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد سے مشرقی دریاؤں سے سیراب ہوتا ہے۔

(ii) فریقین اس امر پر متفق ہیں کہ پانی کا استعمال اس طرح کیا جائے گا جس سے پانی کی مقدار میں کمی بیشی نہیں ہوگی۔

(iii) اگر پاکستان بالائی علاقے میں توسیع کا خواہش مند ہو یا اس سے زیادہ پانی ڈالنے کا خواہش مند ہو تو ایسی کسی تجویز کو عملی جامہ پہنانے سے قبل نکاس کی نہروں کی گنجائش میں اضافہ کرے گا، تاکہ اس سے بھارت پر کوئی اثر نہ پڑے۔

(iv) پاکستان ہڈیارہ کی نکاسی کی نہر قصور نالہ، سیم شاہ نکاسی نہر، فاضلکا کی نکاسی نہر کو اچھی حالت میں رکھے گا اور ان میں پانی کی کمی نہیں ہونے دے گا۔

(۵) اگر بھارت نکاسی کی مذکورہ نہروں میں سے کسی کو پاکستانی علاقے میں گہرا کرنا چاہے تو پاکستان اس پر رضامند ہو جائے گا، اخراجات بھارت برداشت کرے گا۔

(۶) فریقین کوشش کریں گے کہ دریاؤں کے قدرتی پاٹ کو جوں کا توں رکھیں اور پانی کی روانی میں ایسی کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو جس سے فریقِ ثانی کو نقصان پہنچے۔

(۷) کوئی فریق ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گا جس سے مادھوپور اور لاہور کے درمیان دریائے راوی اور ہریکے اور سلیمانکی کے درمیان دریائے ستلج کے رُخ میں تبدیلی واقع ہو۔

(۸) سیلاب کے یا دوسرے فاضل پانی کے قدرتی نالوں سے نکاسی پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ اور اس طرح کوئی نقصان ہو بھی جائے تو فریقِ ثانی سے اس کا ہرجانہ طلب نہیں کیا جاسکے گا۔ دونوں فریقوں نے اس امر پر اظہار رضامندی کیا کہ جہاں تک ممکن ہوسکے سیلاب یا دوسرے فاضل پانی کی نکاسی کے بارے میں جس سے فریقِ ثانی متاثر ہو سکتا ہو، اسے قبل ازوقت اطلاع دیں گے۔

(۹) فریقین نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے بیراجوں، بندوں اور آبپاشی کے منصوبوں کو اس طرح عملی جامہ پہنائیں گے جس سے فریقِ ثانی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

(۱۰) دونوں فریقوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہوسکے دریاؤں کے پانی کو گندا ہونے سے بچائیں گے، دریاؤں میں گندے پانی کی نالی ڈالنے سے قبل اس امر کو محفوظ رکھا جائے گا کہ اس سے فریق ثانی متاثر نہ ہو۔

(۱۱) فریقین نے اس امر پر اظہار رضامندی کیا ہے کہ وہ دریاؤں میں بہہ کر آنے والی لکڑی یا دوسری اشیا کو ان کے مالکان کو واپس کردیں گے، تاہم مالکان کو ضروری اخراجات وغیرہ ادا کرنے ہوں گے۔

(۱۲) پانی کے صنعتی استعمال کے سلسلے میں مندرجہ ذیل امور کو محفوظ رکھا جائے گا:

(الف) معاہدے کی تاریخِ نفاذ کے وقت سے جو پانی صنعتی استعمال میں ہو اس کی مقدار معمول کے مطابق رہے گی۔

(ب) معاہدہ کی تاریخِ نفاذ سے بعد کی صورت میں اسے اتنا پانی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی جتنا اس یا اس نوع کی صنعت میں تاریخ نفاذ کے وقت استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر اس نوع کی صنعت تاریخِ نفاذ کے وقت کہیں زیر عمل نہ ہو تو اس کے لیے اتنا پانی لیا جائے گا جس سے فریقِ مخالف کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

(۱۳) گھریلو استعمال کے لیے اس طرح جو پانی کوئی فریق حاصل کرے گا وہ زرعی مقاصد کے لیے حاصل کردہ پانی تصور ہوگا۔ دونوں فریق اس امر کی پوری کوشش کریں گے کہ اس طرح حاصل کردہ پانی کو براہ راست یا کسی معاون کے ذریعہ واپس اسی دریا میں ڈال دیا جائے جس سے وہ لیا گیا تھا۔

(۱۴) اگر کوئی فریق کسی دریا کے پانی کو اس طرح استعمال کرے جس کا ذکر معاہدہ میں موجود نہیں تو اسے اس استعمال کو کسی طرح بھی برقرار رکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔

(۱۵) معاہدہ کی واضح دفعات کے علاوہ اس کی کوئی ایسی تشریح نہیں کی جائے گی جس سے دریاؤں پر فریقین کے علاقائی حقوق متاثر ہوں۔

آرٹیکل نمبر۵:
[pullquote]مالی قواعد و ضوابط[/pullquote]

اس حقیقت کے پیش نظر کہ آرٹیکل ۴(۱) میں جن کاموں کا حوالہ دیاگیا ہے ان کا مقصد مغربی دریاؤں اور دیگر وسائل سے پاکستان میں آبپاشی کی نہروں کے لیے آب رسائی کا متبادل انتظام ہے کاموں کے لیے ۶,۲۰,۶۰,۰۰۰ اسٹرلنگ پاؤنڈ کی رقم ادا کرنے پر رضامند ہے۔

(ii) پیراگراف (۱) میں ۶,۲۰,۶۰,۰۰۰ پاؤنڈ اسٹرلنگ کی جس رقم کا ذکر کیا گیا ہے ہر سال یکم نومبر کو متواتر دس مساوی قسطوں میں ادا کی جائے گی۔ ایسی سالانہ اقساط میں سے پہلی قسط یکم نومبر ۱۹۶۰ء یا اگر اس تاریخ تک معاہدے پر عملدرآمد شروع نہ ہو تو معاہدے کے نفاذ کے ایک ماہ بعد ادا کردی جائے گی۔

پیراگراف (۲) میں درج شدہ اقساط میں سے ہر قسط بینک کو دریائے سندھ کے طاس کے اس فنڈ کے قرض کے لیے ادا کی جائے گی جو بینک قائم کرے گا اور اس کی دیکھ بھال کرے گا اور ادائیگیاں پاؤنڈ اسٹرلنگ میں کی جائیں گی یا دیگر کرنسی یا کرنسیوں میں جن کا وقتاً فوقتاً پاکستان، بھارت اور بینک رضامند ہوں گے۔

پیراگراف (۳) کے تحت جو ادائیگیاں کی جائیں گی وہ اس معاہدے کے قواعد و ضوابط کے سوا بھارت کی جانب سے پاکستان کی طرف کسی مالی دعوے کے تحت کسی کھاتہ میں ڈالے بغیر کی جائیں گی، بشرطیکہ یہ قاعدہ پاکستان کو کسی دوسرے طریقے سے بھارت کو وہ قرضے ادا کرنے میں بری الذمہ نہ قرار دیتا ہو جو پاکستان کی جانب سے واجب الادا ہو سکتے ہیں۔

(۵) اگر پاکستان کی درخواست پر تتمہ ایچ کے حصہ ۸ اور آرٹیکل ۲ (۶) کے مطابق عبوری مدت میں توسیع کردی جاتی ہے تو ایسی صورت میں بینک بھارت کو دریائے سندھ کے طاس کے ترقیاتی فنڈ میں سے حسب ذیل گوشوارے کے مطابق ہی مناسب رقم ادا کرے گا۔

عبوری مدت کی توسیع کی کل مدت… بھارت کو ادائیگی

ایک سال ۳۱,۲۵,۰۰۰ پاؤنڈ اسٹرلنگ

دو سال ۲,۴۶,۲۵۰ پاؤنڈ اسٹرلنگ

تین سال ۹۸,۵۰,۰۰۰ پاؤنڈ اسٹرلنگ

(۶) آرٹیکل ۴ (۱) اور آرٹیکل ۵ (۱) کے قواعد کا مطلب یہ نہ ہوگا کہ ان کے ذریعے بھارت کو تعمیرات کے اس نظام کے فیصلے میں شمولیت کا حق مل گیا جو پاکستان آرٹیکل ۴ (۱) کے تحت کرتا ہے اور نہ ہی ایسے کاموں کے سلسلے میں بھارت نے کوئی معاہدہ کیا ہو اس کے مطابق اسے کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے کا حق ملتا ہے۔

(۷) ان رقومات کے سوا جو اس معاہدے میں خاص طور پر شامل ہیں کسی فریق کو اس معاہدے کے قواعد کی پابندی کے لیے یا اس سے دوسرے فریق کے پانی حاصل کرنے کے عوض ادائیگی کا دعویٰ کرنے کا حق حاصل نہ ہوگا۔

آرٹیکل نمبر ۶:
[pullquote]اعداد و شمار کا تبادلہ[/pullquote]

دریاؤں کے پانی کے بہاؤ اور استعمال کے متعلق فریقین کے درمیان حسب ذیل اعداد و شمار کا تبادلہ باقاعدگی کے ساتھ جاری رہے گا۔

(الف) مشاہدہ کرنے کے تمام مقامات سے روزانہ یا جیسے کہ وقتاً فوقتاً تخمینہ اور مشاہدہ کیا گیا ہو اور دریاؤں کے بہاؤ سے متعلق گیج اور اعداد و شمار:

(ب) ذخیروں کے لیے یومیہ پانی حاصل کرنا یا چھوڑنا

(ج) حکومت یا حکومت کے کسی ذیلی ادارے اب کے بعد اس آرٹیکل میں نہریں کہلائیں گے، کے تحت چلنے والے نہروں کے تمام مرکزوں سے لنک نہروں سمیت پانی کی واپسی

(د) لنک نہروں سمیت تمام نہروں سے پانی کا ناجائز طور پر ضائع ہونا

(س) لنک نہروں سے پانی کا یومیہ حصول

ہر فریق ہر ماہ یہ اعداد و شمار جمع کرنے کے بعد دوسرے فریق کو مہیا کرے گا لیکن اس کی ترسیل میں اس ماہ کے بعد تین ماہ کی مدت سے زیادہ عرصہ نہ گزرے گا جس کے لیے جمع کیے گئے ہوں، لیکن اس امر کا خیال رکھا جائے گا کہ محولہ بالا اعداد و شمار میں سے دونوں فریق کام جاری رکھنے کے لیے جو ضروری تصور کرتے ہوں وہ ہر روز مہیا کرنے ہوں گے یا جیسے کہ درخواست کی گئی ہو قلیل وقفوں کے بعد مہیا کرنا ہوں گے۔ اگر ایک فریق دوسرے فریق سے کسی قسم کی معلومات کے لیے تار، ٹیلی فون، یا وائرلیس کے ذریعے درخواست کرتا ہے تو اسے دوسری پارٹی کو اطلاع دینے کے اخراجات ادا کرنے ہوں گے۔

(۲) اگر اس آرٹیکل کے پیراگراف ایک میں درج شدہ معلومات کے علاوہ دونوں میں سے کوئی ایک فریق دریاؤں، نہروں یا دریاؤں کے ساتھ متعلقہ نہروں کی ہائیڈرولوجی یا اس معاہدے کے کسی قاعدے کے متعلق معلومات فراہم کرنے کی درخواست کرتا ہے تو دوسرا فریق ایسی معلومات اس حد تک فراہم کرے گا جو اس کے پاس موجود ہوں۔

آرٹیکل نمبر۷:
[pullquote]مستقبل میں تعاون[/pullquote]

(۱) فریقین اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ دریاؤں کی مناسب ترویج و ترقی سے ان کا مشترکہ مفاد وابستہ ہے اور اس سلسلے میں وہ باہمی معاہدے کے ذریعہ ممکن حد تک باہمی طور پر تعاون کرنے کا اعلان کرتے ہیں، بالخصوص (الف) ہر فریق جس حد تک قابل عمل تصور کرتا ہو اور اخراجات کی کفایت کے سلسلے میں دوسرے فریق کی رضامندی کے ساتھ دوسرے فریق کی درخواست پر دریاؤں کے طاس کی نکاسی کی حدود میں ایسے ہائیڈروجک آبزرولیشن اسٹیشن قائم کرے گا اور ان سے متعلق ایسی موسمیاتی مشاہدہ گاہیں نصب یا قائم کرے گا اور ان کے ذریعے ایسے مشاہدے کرے گا جس سے کہ دوسری جانب سے درخواست کی گئی ہو اور اس طرح حاصل شدہ معلومات فراہم کرے گا

(ب) ہر فریق جہاں تک قابل عمل تصور کرتا ہو دوسرے فریق کی جانب سے اخراجات کی کفالت کی رضامندی حاصل کرنے پر دوسرے فریق کی درخواست پر پانی کی نکاسی کے ایسے کاموں کی تکمیل کرے گا جو دوسرے فریق کے پانی کی نکاسی کے لیے منصوبوں کے تحت ضروری ہوں۔

(ج) فریقین میں سے کسی ایک کی درخواست پر فریقین باہمی سمجھوتے کے تحت دریاؤں پر انجینئرنگ کے کاموں میں سے ایک دوسرے سے تعاون کرسکتے ہیں، ہر موقع پر انتظامات کا معمول وہ ہوگا جس پر فریقین رضامند ہوں۔

اگر ایک فریق کسی دریا پر کوئی انجینئرنگ تعمیرات جس سے دوسرے فریق کو مادی نقصان پہنچنے کا احتمال ہو کرنا چاہے تو وہ فریق ثانی کو اپنے ارادے سے مطلع کرے گا اسے اپنے منصوبے کی تفصیلات اور مطلوبہ اعداد و شمار فراہم کرے گا تاکہ وہ اچھی طرح جان سکے کہ مجوزہ منصوبہ سے اس پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔

آرٹیکل نمبر ۸:
[pullquote]سنگل کمیشن[/pullquote]

(۱) بھارت اور پاکستان دونوں دریائے سندھ کے لیے کمشنر کی مستقل آسامی قائم کریں گے، جب یہ آسامی قائم ہوگی تو اس پر ایک ایسا شخص جو انجینئر ہو اور بجلی اور پانی کے استعمال میں اعلیٰ درجے کی اہلیت رکھتا ہو مقرر کریں گے۔ جب تک دونوں حکومتیں کسی خاص مسئلے پر بالواسطہ طور پر بات چیت کرنے کا فیصلہ نہ کریں ہر کمشنر اس معاہدے سے پیدا ہونے والے معاملات میں اپنی حکومت کی نمائندگی کرے گا اور معاہدے کے نفاذ کی متعلقہ امور باقاعدہ رابطے کا کام دے گا اور بالخصوص ان امور سے متعلق:۔

(الف) معاہدے کی رو سے اطلاعات و اعداد و شمار کا تبادلہ

(ب) معاہدہ کی رو سے کوئی نوٹس دینا یا نوٹس کا جواب دینا

(۲) ہر کمشنر کے اختیارات اور اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کا فیصلہ متعلقہ حکومت کرے گی۔

(۳) دونوں کمشنر یکجا طور پر دریائے سندھ کے مستقل کمیشن کی حیثیت کے حامل ہوں گے۔

(۴) کمیشن کا مقصد اور کارکردگی میں یہ حد شامل ہوگی کہ وہ اس معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلے میں باہمی تعاون کے انتظامات کرے اور ان کو بحال رکھے پانی کی ترقی میں متعلقہ فریقوں میں تعاون کو فروغ دے اور بالخصوص

(الف) دریاؤں کے پانی کی ترقی کے کسی ایسے مسئلے کا مطالعہ کرے اور اس مسئلے سے متعلق دونوں حکومتوں کو رپورٹ پیش کرے جو دونوں حکومتیں مشترکہ طور پر کمیشن کو پیش کرسکتی ہوں، ایسی صورت میں جبکہ صرف ایک حکومت کوئی مسئلہ پیش کرتی ہے دوسری حکومت کے کمشنر کو اسی مسئلے پر غور کرنے سے قبل اپنی حکومت سے ضروری اجازت حاصل کرنا ہوگی۔

(ب) آرٹیکل ۹ کے تحت پیدا ہونے والے کسی سوال کو اس کے قواعد کے مطابق فوری طور پر حل کرنے کی ہرممکن کوشش کرے گا۔

(ج) ہر پانچ سال کی مدت میں ایک مرتبہ دریاؤں کا معائنہ کرنے کے لیے دورہ کرے تاکہ دریاؤں پر ہونے والے مختلف ترقیاتی کاموں کے بارے میں حقائق معلوم کرسکے۔

(د) عبوری مدت میں ایسے اقدامات کرے جو تتمہ ایچ کے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کرنے کے لیے ضروری ہو۔

(۵) کمیشن کا اجلاس ہر سال باری باری بھارت اور پاکستان میں ہوگا یہ مستقل سالانہ اجلاس نومبر یا ان دیگر مہینوں میں منعقد ہوا کرے گا جو دونوں کمشنروں کے لیے قابل قبول ہوں۔ کسی ایک کمشنر کی جانب سے درخواست کرنے پر بھی اجلاس منعقد ہوسکے گا۔

(۶) کمشنروں کو اس قابل بنانے کے لیے وہ اپنے فرائض کو پورا کرسکیں ہر حکومت دوسری حکومت کے کمشنر کو وہی مراعات اور آزادی دینے پر رضامند ہے جو اقوام متحدہ کے اور اس کے ماتحت اداروں میں ممبر ملکوں کے نمائندوں کو اقوام متحدہ کے مراعات و تحفظات کے کنونشن کے آرٹیکل ۴ کی دفعہ ۱۱،۱۲،۱۳، کے تحت حاصل ہیں۔ اس امر پر اتفاق کیا گیا ہے کہ کمشنروں کو یہ مراعات اور آزادی ان کی انفرادی حیثیت میں فائدہ اٹھانے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے دی گئی ہیں کہ وہ کمیشن کے سلسلے میں اپنے فرائض کو آزادانہ طور پر پورا کرسکیں۔ نتیجتاً جو حکومت کمشنر مقرر کرتی ہے اس کا حق ہی نہیں بلکہ اس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی صورت میں جہاں یہ تقرر لانے والی حکومت کی رائے میں آزادی انصاف کے راستے میں حائل ہو کمشنر کو اس سے آزادی ہے۔ اس طرح محروم کرسکتی ہے جس سے اس مقصد پر کوئی زَد نہ پڑے جس کی تکمیل یا حصوں کی خاطر یہ آزادی دی گئی تھی۔

(۷) معائنوں کے مقاصد کے لیے جیسے پیراگراف ۴ (سی) (ڈی) میں درج ہے ہر کمشنر کے ہمراہ دو مشیر اور معاون بھی دورہ میں شامل ہوسکتے ہیں جن کو مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

(۸) کمیشن ہر سال بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو یکم مارچ کو ختم ہونے والے سال کی رپورٹ پیش کرے گا، وہ دونوں حکومتوں کو ایسے موقع پر دیگر رپورٹس بھی پیش کرے گا جو وہ مناسب خیال کرتا ہو۔

(۹) ہر حکومت اپنے کمشنر اور اس کے عام عملہ کی کفالت کی خود ذمہ دار ہوگی۔

(۱۰) کمیشن اپنے طریقے کار کا خود فیصلہ کرے گا۔

آرٹیکل نمبر ۹:
[pullquote]اختلافات اور تنازعات کا تصفیہ[/pullquote]

(۱) فریقین کے درمیان اس معاہدے کی تشریح یا اطلاق کے متعلق کوئی اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں جو اگر درست ثابت ہو اور معاہدے کی خلاف ورزی کے مترادف ہوسکتا ہو تو اس پر سب سے پہلے کمیشن غور و خوض کرے گا۔ اور اسے حل کرنے کی کوشش کرے گا۔

(۲) اگر کمیشن پیراگراف (۱) میں درج شدہ سوالات میں سے کسی ایک کے تصفیہ پر نہیں پہنچتا تو یہ تصور کیا جائے گا کہ اختلاف پیدا ہوچکا ہے جس پر حسب ذیل طریقے سے غور و خوض کیا جائے گا۔

(الف) کمشنروں کے خیال میں اگر کوئی اختلاف تتمہ ایف کے قواعد و ضوابط کے حصہ اول کی ذیل میں آتا ہو تو دونوں کمشنروں کی درخواست پر تتمہ ایف کے حصہ دوم کے تحت غیر جانبدار ماہر اس پر غور و خوض کریں گے۔

(ب) اگر اختلاف پیراگراف (۲) (اے) کے ذیل میں نہیں آتا یا اگر غیر جانبدار ماہر تتمہ ایف کے پیراگراف ۷ کے مطابق کمیشن کو اطلاع دیتا ہے کہ اس کی رائے میں اختلاف یا اس کے کسی حصے کو تنازعہ تصور کیا جائے تو تصور کیا جائے گا کہ تنازعہ پیدا ہوچکا ہے۔ جیسے پیراگراف ۳، ۴، ۵ کے قواعد و ضوابط کے مطابق حل کیا جائے گا کمیشن کو اس امر کا اختیار ہوگا کہ کسی ’’اختلاف‘‘ کو تتمہ ایف کے حصہ ۲ کے قواعد و ضوابط کے مطابق غیر جانبدار ماہر کے ذریعے یا ’’تنازع‘‘ تصور ہوتو پیراگراف ۳، ۴، ۵ کے قواعد و ضوابط کے مطابق حل کرے۔ یا اس طریقے کے ذریعے حل کرے جس پر کمیشن متفق ہو۔

(۳) جونہی ایک تنازع کو جو اس آرٹیکل کے ذیل میں آنے والے پیراگراف کے مطابق حل کرنا درکار ہو کمیشن دونوں حکومتوں کو حقیقت سے جس قدر جلد ممکن ہو مطلع کرے گا، اور اپنی رپورٹ میں وہ نقاط و مسائل الگ الگ بیان کرے گا جن پر کمیشن متفق اور اختلافِ رائے رکھتا ہو، ان مسائل کے متعلق ہر کمشنر کے نظریات اور ان کی وجوہات بھی شامل ہوں گی۔

پیراگراف ۳ میں درج شدہ رپورٹ کی وصولی کے بعد دونوں میں سے کوئی ایک حکومت یا اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ رپورٹ کی ترسیل میں غیر ضروری تاخیر واقع ہوئی ہے تو وہ دوسری حکومت کو یہ تنازع سمجھوتہ کے ذریعے طے کرنے کی دعوت دے سکتی ہے ایسا کرنے کی صورت میں وہ اپنی جانب سے مذاکرات میں شریک ہونے والوں کے نام اور دوسری حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے مقرر ہونے والوں سے خاص وقت اور مقام پر جو دوسری حکومت بتائے گی ملاقات کرنے کی آمادگی کی اطلاع دے گی دونوں حکومتیں ان مذاکرات میں مدد کرنے کے لیے ایک یا دو مصالحت کنندگان جو دونوں کو قابل قبول ہوں کی خدمات حاصل کرنے کے سلسلے میں سمجھوتا کرسکتی ہیں۔

(۵) کہ تتمہ جی میں شامل کیا گیا ہے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مصالحتی عدالت قائم کی جائے گی۔

(الف) ایسا کرنے کے لیے فریقین میں سمجھوتہ پر یا

(ب) پیراگراف (۴) کے مطابق مذاکرات شروع ہونے کے بعد اگر دونوں میں سے کسی ایک فریق کی درخواست پر اس کی رائے میں تنازع کا حل مذاکرات یا مصالحت کے ذریعے ممکن نہ ہو یا

(ج) اگر دونوں میں سے کوئی ایک دوسری حکومت کی جانب سے پیراگراف (۴) کے مطابق دعوت وصول کرنے کے ایک ماہ کے اختتام پر اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ دوسری حکومت مذاکرات میں غیر ضروری طور پر تاخیر کررہی ہے۔

(۶) غیر جانبدار ماہر اختلافات ختم کرانے کے سلسلے میں غور و خوض کررہا ہو تو اس کے دوران میں پیراگراف (۳) (۴) اور (۵) کے قواعد کا اطلاق نہ ہوگا۔

آرٹیکل نمبر ۱۰:
[pullquote]اختلاف و تنازعات[/pullquote]

اگر ۳ مارچ ۱۹۶۵ء سے قبل حکومت پاکستان بنک کو مطلع کرتی ہے کہ پاکستان کے قابو سے باہر اسباب کی بنا پر عالمی پیمانے پر عداوتیں شروع ہوجانے کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں کہ ۳۱ مارچ ۱۹۷۳ء تک آرٹیکل (۴) میں درج شدہ کاموں کی تکمیل کے لیے بیرون ممالک سے ضروری میٹریل اور سامان درآمد نہیں کرسکے جو اس آرٹیکل میں تبادلے سے متعلق ہے آئندہ متبادل عنصر کہلائے گا اور اگر یہ اطلاع موصول ہونے کے بعد بنک یہ رائے قائم کرتا ہے کہ

(الف) یہ رقابتیں واقعی اس پیمانے پر جاری ہیں کہ اس کے نتیجے میں پاکستان انتظامات، مطلوبہ سامان جو ۳۱ مارچ ۱۹۷۳ء تک متبادل تکمیل کے لیے ضروری ہے، بیرونی ملکوں سے درآمد کرنے کے قابل نہیں۔

(ب) نفاذ کی تاریخ سے پاکستان نے ایسا سامان حاصل کرنے کے لیے تمام مناسب اقدامات کیے ہیں اور ایسے وسائل اور سامان کو جو پاکستان کو اندرون اور بیرون ملک سے وصول ہوا ہے کام میں لاکر متبادل تعمیرات کو پوری مستعدی اور کوشش سے آگے بڑھایا ہے۔

بینک فوری طور پر فریقین کو اس کے مطابق مطلع کرے گا تو ایسی اطلاع ملنے پر فریقین آرٹیکل (۳) کے قواعد کو نظرانداز کیے بغیر فوراً باہمی طور پر صلاح و مشورہ شروع کردیں گے اور اس نکتہ نظر سے کسی سمجھوتہ پر پہنچنے کے لیے باہمی صلاح و مشورہ میں بینک کا اثر و رسوخ استعمال کریں گے کہ آیا اس وقت پیش آنے والے حالات کی روشنی میں اس معاہدے کے قواعد و ضوابط میں کس قسم کی ترامیم مناسب اور مفید ہیں اور اگر صورت یہ ہو تو ان ترامیم کی نوعیت اور حد کیا ہوگی!

آرٹیکل نمبر ۱۱:
[pullquote]عام دفعات[/pullquote]

(۱) یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ

(الف) اس معاہدے کا تعلق صرف دریاؤں کے پانی کی تقسیم اور استعمال اور اس سے متعلقہ امور اور صرف اس سلسلے میں حقوق اور ذمہ داریوں سے ہے۔

(ب) اس معاہدے کے مندرجات اور اس پر عملدرآمد سے پیدا ہونے والی صورتوں کا کسی صورت میں یہ مطلب نہیں سمجھا جائے گا کہ دونوں میں سے کوئی فریق اپنے کسی حق یا دعویٰ سے دستبردار ہوگیا ہے سوا ان اور ذمہ داریوں کے جن سے دستبرداری کا اعلان اس معاہدے میں خاص طور پر کردیا گیا ہے۔

دونوں فریق اس پر متفق ہیں کہ وہ اپنے کسی حق یا دعوے یا کسی جھگڑے کے سلسلے میں اس معاہدے کو یا اس معاہدے پر عملدرآمد سے پیدا ہونے والی کسی صورت کو اپنے حق میں دلیل کے طور پر پیش نہیں کریں گے۔

(۲) کوئی فریق اس معاہدے کے مندرجات کو کسی قانونی اصول کی تطہیر کے طور پر پیش نہیں کرے گا۔

(۳) اس معاہدے کی کوئی دفعہ فریقین کے کسی حق یا ذمہ داری پر اثرانداز نہیں ہوگی اور نہ ہی معاہدہ پر عملدرآمد سے فریقین کی کوئی ذمہ داری یا حق متاثر ہوگا۔

[pullquote]آرٹیکل نمبر ۱۲:[/pullquote]

(۱) یہ معاہدہ تمہیدی بیان اس کے آرٹیکلز اور اسے سی ایچ تک تتموں پر مشتمل ہے اور دریائے سندھ کے پانی کا سمجھوتہ مجریہ ۱۹۶۰ء کہلائے گا۔

اس معاہدے کی توثیق ہوگی اور اس کی توثیق کی دستاویزات کا تبادلہ نئی دہلی میں ہوگا، توثیق کے کاغذات کے تبادلے کے بعد اس معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوجائے گااور اسے یکم اپریل ۱۹۶۰ء سے موثر تصور کیا جائے گا۔

(۳) اس معاہدے کے قواعد میں وقتاً فوقتاً باضابطہ سمجھوتے کے تحت جو اس مقصد کے لیے دونوں حکومتوں کے درمیان ہوگا ترمیم کی جائے گی۔

(۴) اس معاہدے کی دفعات (ترمیم شدہ غیر ترمیم شدہ) اس وقت تک نافذ العمل رہیں گی جب تک انہیں دونوں حکومتوں کے درمیان باقاعدہ طے پانے والے کسی اور معاہدے کے ذریعے ختم نہیں کردیا جاتا۔ معاہدے کے گواہوں کے طور پر دونوں حکومتوں (پاکستان، بھارت) کے نمائندوں نے اس پر دستخط کیے ہیں۔

دستخط: جواہر لعل نہرو (وزیراعظم بھارت)۔

فیلڈمارشل محمد ایوب خان(صدر پاکستان)

ڈبلیو اے بی آئلف (نائب صدر عالمی بینک)

(بحوالہ: روزنامہ ’’کوہستان‘‘ لاہور۔ ۲۰ ستمبر ۱۹۶۰ء)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے