فحاشی کی راگنی …

پاکستان کی تاریخ میں ایک عجیب نامبارک اتفاق عشرہ بہ عشرہ ہمارے ساتھ چلا ہے۔ جب بھی قوم کو کسی ایسے مرحلے کا سامنا ہوتا ہے wajahat1جہاں پانی دائیں بازو کے پائیں باغ میں مرتا ہو، مولانا حضرات اپنی پٹاری سے فحاشی کا کبوتر برآمد کر لیتے ہیں۔ ان دنوں پاکستان کو معاشی مشکلات، امن و امان اور عالمی تنہائی جیسے گمبھیر مسائل لاحق ہیں۔ دوسری طرف منتخب حکومت کے شروع کردہ متعدد معاشی منصوبے تکمیل کے قریب ہیں۔ موجودہ سیاسی صورت حال میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے دھان سوکھے ہی رہیں گے۔ چنانچہ منبرو محراب سے فحاشی کے نام پر ایک آزمودہ تماشا شروع کیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر ذرائع ابلاغ میں اپنے نجی عقائد کا سرعام پرچار کرنے والے پارسائی کے ایک مومی مجسمے نے فحاشی کی دہائی دی۔ پھر مخصوص معاشرتی رجحانات کے حامل دو شہریوں نے عدالت عظمیٰ میں ایک آئینی درخواست دائر کر دی ۔ حسب توقع عدالت عظمیٰ نے نجی ٹیلی ویژن چینلز کے ضمن میں فحاشی کی تعریف متعین کرنے کی ذمہ داری پیمرا پر ڈال دی۔ اس دوران منظر عام پر آنے والے غیر رسمی ریمارکس میں فحاشی کی بابت عدلیہ کا رجحان چھپائے نہیں چھپا۔ پیمرا کے نامزد ماہرین دو مرتبہ مل بیٹھے لیکن توقع کے عین مطابق فحاشی کی متفقہ تعریف طے کرنے میں ناکام رہے ۔ خاطر جمع رکھئے۔ پیمرا یا کوئی بھی دوسرا ادارہ فحاشی کا ٹھیک ٹھیک تعین نہیں کر سکے گا کیونکہ یہ سرے سے فحش یا غیر فحش کا قضیہ نہیں ، بنیادی جھگڑا پاکستان کے لیے معاشرتی، ثقافتی اور تمدنی نمونہ طے کرنے کا ہے۔ معاشرتی اقدار کی نمود قانونی یا انتظامی معاملہ نہیں ہوتا۔ انسانی اجتماع نامیاتی طور پر آگے بڑھتا ہے۔ ریاستی اداروں کا کام کسی مخصوص معاشرتی نمونے کو حتمی معیار قرار دینا یا شہریوں کی شخصی آزادی میں مداخلت کرنا نہیں بلکہ معاشرے میں موجود تنوع اور رنگارنگی کو اس طرح مربوط کرنا ہے جس سے تمام شہریوں اور طبقات کی آزادیوں کا تحفظ ہو سکے۔ قانون کا مقصد معاشرتی طرزِ عمل کا کوئی خاص نمونہ مسلط کرنا نہیں بلکہ ہر شہری کو دوسرے افراد یا گروہوں کے ہاتھوں نقصان یا استحصال سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔

قانون سازی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ تمام اصطلاحات کا ٹھیک ٹھیک مفہوم متعین کیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی معاشرے میں فحاشی کی متفقہ تعریف ممکن نہیں۔ پاکستان میں تو یہ کام اور بھی مشکل ہے جہاں قانون میں گناہ اور جرم کی تمیز خلط ملط ہو چکی ہے۔ جہاں مسلمان کی تعریف متعین کرنے میں 1953 ء سے 1973ء تک بیس سال لگے تھے، وہاں فحاشی کی تعریف کیسے متعین ہو گی؟ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کرکٹ کو فحش قرار دیتے تھے۔ طالبان حکومت میں گیند سے کھیلنے والے لڑکوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں میں شیکسپیئر اور ملٹن تو ایک طرف رہے، ڈاکٹر سید عبداللہ تو میر اور غالب کو نصاب سے بارہ پتھر باہر کرنے کے درپے تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے شیخ سعدی پر فحاشی کا الزام لگایا تھا۔ پیمرا میں بات بگڑتی دیکھ کر یہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی اچھی کہی ۔ ابھی تو سود کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل چوبیس برس سے عدالت عظمیٰ کے حسن توجہ کی منتظر ہے۔ دراصل فحاشی کا الزام وہ کمبل ہے جسے معاشرے پر ڈال کر مطلق العنانی کا ڈنڈا گھمایا جاسکتا ہے۔

کسی معاشرے کی ثقافت میں مذہب کے کردار سے انکار مقصود نہیں لیکن انسانی اجتماع میں عقائد کا تنوع ناگزیر ہوتا ہے۔ دوسری طرف ثقافت کی تشکیل میں آب و ہوا ، جغرافیائی محل وقوع ، تاریخ، معیشت اور تمدنی ارتقا جیسے عوامل بھی یکساں طور پر اہم کردار رکھتے ہیں۔ بیرونی دنیا کو چھوڑئیے، خود پاکستان میں فاٹا کی ثقافت پشاور سے نہیں ملتی۔ ہزارہ اور پوٹھوہار کی ثقافت مختلف ہے۔ میانوالی، لاہور اور بہاولپور کی ثقافت کے اپنے اپنے رنگ ہیں۔ دریائی خطوں کی موسیقی پہاڑی علاقوں سے اور صحراﺅں کے رقص برفانی منطقوں سے مختلف ہیں۔ ڈیرہ بگتی کی ثقافت ملتان پر مسلط نہیں کی جا سکتی۔ کراچی کا ساحلی اور صنعتی رہن سہن جیکب آباد میں اجنبی قرار پائے گا۔ ثقافت کی یہ رنگارنگی اقدار ، لباس اور رہن سہن پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر ایک ہی زمانے اور ایک ہی ملک میں بودوباش کا یہ تنوع موجود ہے تو سوچنا چاہیے کہ عالمی تاریخ کن ادوار سے گزری ہے اور انسانی معاشرے کے امکانات کس قدر وسیع ہیں۔ انسانوں کا رہن سہن ان کے روزگار ، پیداواری رشتوں اور تاریخی تجربات سے خدوخال پاتا ہے اور اسے انسانوں کی ذاتی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے۔

ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ کا رخ فرد کے وسیع تر احترام اور انسانی آزادیوں کے فروغ کی طرف ہے۔ فرد کا احترام انسانی جسم کے احترام کے بغیر ممکن نہیں۔ کسی شہری کی عضویاتی خصوصیات کوزیر بحث لانا مہذب اجتماعی مکالمے میں جائز نہیں ۔ عورتوں کے حقوق کی بحث دراصل جسمانی ساخت سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے یکساں معاشرتی رتبے کے لیے جدوجہد ہے۔ پاکستان میں غالب بیانیے کا المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی نصف آبادی کے لیے حقوق کا دائرہ وسیع کرنے کی بجائے انہیں پسماندہ معاشرتی سوچ کی چار دیواری میں بند کر کے باب الحیل کا قفل لگانا چاہتا ہے۔ 1955ءمیں عورتوں کے حقوق پر جسٹس رشید کمیشن قائم ہوا۔ احتشام الحق تھانوی نے اختلافی نوٹ لکھا۔ 1985ءمیں زری سرفراز کمیشن قائم ہوا، آپا نثار فاطمہ نے اختلافی نوٹ لکھا۔ 1997 ءمیں جسٹس ناصر حسن زاہد کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی ، مولانا طاسین نے اختلافی نوٹ لکھا۔ 2002ءمیں ماجدہ رضوی کمیشن کی رپورٹ پر مولوی تقی عثمانی نے ازکار رفتہ دلائل کا آموختہ دہرایا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے قابل احترام مذہب پسند حلقے پاکستانی عورتوں کے لیے زندگی کو آسان کرنا چاہتے ہیں یا اس نصب العین کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اگر مذہبی احکامات کی برہان قاطع تلوارلہرانا ہی مقصود ہے تو غلاموں اور کنیزوں کے بارے میں فقہی احکامات پر بھی روشنی ڈالی جائے۔ اگر غلامی کے باب میں فقہی احکامات امتدادزمانہ کے باعث غیر متعلق ہو چکے تو آپ پاکستان کی وزیر خارجہ، سٹیٹ بینک کی سربراہ اور یونیورسٹی کی وائس چانسلر خواتین پر بغداد اور بصرہ کے ضابطے کیوں مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

انسانی جسم، عورت کا ہو یا مرد کا، فحش نہیں ہوتا۔ فحاشی استحصال، محرومی، ناانصافی اور جہالت سے تعلق رکھتی ہے۔ معاشرے کے ارتقا کا راستہ اختلاف رائے، پُرامن مکالمے اور مختلف سماجی نمونوں کے تنوع سے ہموار ہوتا ہے۔ فتویٰ فکری یک رخے پن اور جامد معاشرے کی طرف لے جاتا ہے۔شہریوں کی نجی زندگی میں بے جا مداخلت سے تحکمانہ ریاست قائم ہوتی ہے۔ تحکمانہ ریاست میں شخصی آمریت ، خوف اور انتشار تو جنم لے سکتے ہیں، علم کا امکان نمو نہیں پاتا۔ پیداوار کے ہدف پورے نہیں ہوتے۔ بچوں کو تحفظ ، نوجوانوں کو مسرت اور بزرگوں کو احترام نصیب نہیں ہوتا۔ ایسا معاشرہ بیرونی دنیا میں اپنا مقام تو کیا حاصل کرے گا، داخلی طور پر بھی استوار نہیں ہوتا۔

پاکستانی خواتین پردے کو اختیار کرنے یا رد کرنے کا رضاکارانہ استحقاق رکھتی ہیں۔ ریاست کا فرض تو پرامن شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ فحاشی کی بحث عورت کے گرد کیوں گھومتی ہے۔ کیا پاکستانی مردوں نے اخلاقیات کے بہتر نمونے پیش کیے ہیں؟ ایک زاویہ تو یہ بھی ہے کہ ”گھریلو تفریح“ کی تعریف میں کیا میاں بیوی بھی شامل ہیں؟ کم عمر بچوں کی گمراہی کے بارے میں تشویش بجا لیکن بالغ شہریوں کے حق تفریح کا تعین کون کرے گا۔ فحاشی کی یہ بے وقت راگنی دراصل ریاست اور معاشرے کے ارتباط کے بارے میں دو قطبی نقطہ ہائے نظر کا تصادم ہے۔ یہ مہذب معاشرے اور حرم سرا میں انتخاب کا سوال ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے