تھپڑ کی گونج،،یاد رہے گی

کئی دن گزر گئے سن رہا ہوں، آزادیء صحافت پر حملہ ہو گیا ہے، لعنت ہے ان بے شرموں پر ، عورتوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، یہ کس قسم کے رکھوالے ہیں۔۔ زیادہ تر چینلز پر یہی تجزیات چل رہے ہیں۔ پاکستان کے سب سے معتبر اور سب سے بڑے ‘صحافی’ ، لوگوں کو ہر وقت قیامت یاد کرانے والے ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت تمام بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے لوگ ایسے ہی تبصرے بھی کر رہے ہیں۔

میں نے اس واقعہ کی پوری ویڈیو دیکھی پھر فیصلہ نہیں کر پایا ، مذمت کس کی کروں۔۔ کسی ایک کی مذمت کرنا مناسب نہیں۔ خاتون کے چہرہ پر پڑنے والے تھپڑ کی مذمت ضروری ہے لیکن کیا اس خاتون اینکر کی ناتجربہ کاری بلکہ اس کو اس کام پر لگانے والوں کی مذمت نہیں کرنی چاہئے؟۔ کیا خاتون کے سوالات، اس کی ایف سی اہلکار پر لفظی گولہ باری کی مذمت نہیں کرنی چاہئے۔

صحافت ایک مقدس پیشہ تھا مگر پھر اس میں سرمایہ کار آنے شروع ہو گئے، پھر ایک دور ایسا آیا جسے سنہری دور بھی کہا جا سکتا ہے جہاں چند صحافیوں نے ایک اخبار شروع کیا، یہاں سے ایک نیا کلچر متعارف کرایا گیا جسے چھاپہ مار صحافت کہتے ہیں، لوگوں کے گھروں میں، ان کی دکانوں میں ، کارخانوں میں،غرض ہر جگہ جہاں ظلم وہاں خبریں کا نعرہ لگا کر یار لوگ گھس جاتے تھے، پھر مک مکا ہو جاتا یا نہیں یہ میں نہیں جانتا۔

بہرحال جب ٹی وی چینلز کو لائسنس دھڑا دھڑ ملنا شروع ہوئے تو بھی ورکرز کی تنظیم پی ایف یو جے نے کراس میڈیا کی مخالفت کی، یعنی جن مالکان کے پاس پہلے ہی اخبارات کے ڈیکلریشن ہیں انہیں ٹی وی چینلز کے لائسنس دینے کی مخالفت کی جا رہی تھی، اس کا پس منظر یہ تھا ورکر یہ سمجھتے تھے کہ جن مالکان کے پاس پہلے ہی کلاشنکوف موجود ہے ان کو توپ پکڑادینے سے انہیں ورکرز کے معاشی قتل کا کھلا لائسنس مل جائے گا۔

یہ ایک پہلو تھا جس پر ورکر پریشان تھے، دوسرے کا علم اس وقت ہوا جب مختلف ٹی وی چینلز پر اینکرز بٹھانے کا موقع آیا تو وہاں کہیں کوئی دندان ساز نظر آیا، کہیں پر کوئی فیشن ڈیزائنر تو کہیں کوئی ناکام فلم پروڈیوسر پروگرام کرتا نظر آیا۔۔ بہت کم چینلز پر صحافی اینکرز بیٹھے دکھائی دیتے ہیں لیکن اب تو کئی عامل صحافیوں سے پروگرام کی میزبانی کے نام پر وہ کام لیے جا رہے ہیں کہ بازار حسن کے بڑے سے بڑے تاجر بھی شرما جائیں۔

ہر چینل پر باقاعدگی سے چھاپہ مار پروگرام شروع ہو گئے ہیں، کئی میزبان اپنے ساتھ پولیس کو لے جانے کی زحمت بھی کر لیتے ہیں مگر زیادہ تر اینکر اس پولیس و انتظامیہ والی علت سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس پروگرام کے دوران یا رپورٹنگ کے دوران یہ واقعہ پیش آیا اس میں اگر ایف سی اہلکار کی آخری حرکت یعنی تھپڑ اور پھر فائرنگ ۔۔ اگر یہ نکال دیا جائے تو اس تمام واقعہ میں قصور اس خاتون کا ہی دکھائی دیتا ہے، اس ایف سی اہلکار کو یہ کہنا تمہیں شرم نہیں آتی، تمہارے گھر پہ ماں بہن نہیں ہے، پھر اس کی آستین کھینچ کر کہنا اس کا رویہ دیکھا جائے۔

اس واقعہ کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دینے والے احباب سے گزارش ہے مجھے یہ سمجھایا جائے ایسی صحافت کا سبق کس کتاب میں اور کس یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا ہے؟زور زور سے چیخنا، سیکورٹی اہلکاروں کا بازو پکڑ کر کھینچنا ۔۔ اسے شرم دلانا۔۔ یہ صحافت کا کون سا طریقہ ہے؟ اس لیے بار بار یہ شور مچایا جاتا ہے کہ صحافیوں کی تربیت کا اہتمام بہت ضروری ہے۔کوئی ان لوگوں کو بتائے تو سہی کہ جناب سترہ گریڈ سے کم کے کسی بھی اہل کار کو میڈیا سے بات چیت کرنے کی اجازت نہیں، ویسے بھی نادرا کے مسائل پر ایک ایف سی اہل کار کیا جواب دے سکتا ہے؟ ہمارے وزیر داخلہ تو ایک ایس ایچ او کو بھی اخباری بیان جاری نہیں کرنے دیتے اور یہ کام بھی بذات خود دینی فریضہ سمجھتے ہوئے مذہبی جوش و عقیدت کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔

خود کواس ایف سی اہلکار کی جگہ رکھ کر سوچئے، ایسی کوئی خاتون آپ کا بازو پکڑ کے کھینچتی، آپ کے کان کے پاس چیخ چیخ کر کہتی تمہارے گھر میں ماں بہن نہیں ہے تو آپ کتنی دیر برداشت کر پاتے؟ یہاں اگر مگر شروع ہو جائے گا۔ اگر یہ آزادی صحافت پر حملہ ہے جس پر تمام چینل برہم دکھائی دیتے ہیں تو کیا پی ٹی آئی کے دھرنا کے دنوں میں ہونے والے صحافیوں پر تشدد کے واقعات پر کسی اینکر یا چینل انتظامیہ نے شور مچایا؟ کیا اس وقت وزیر داخلہ اور حکومت سے نوٹس لینے کو کہا گیا؟ کیا کسی ایک چینل نے بھی دھرنے کے دوران پیش آنے والے حادثات کی درست رپورٹنگ کی؟ ان تمام سوالات کو جواب نفی میں ملے گا کیونکہ اس وقت آزادی سے زیادہ خیال کسی اور بات کا تھا۔

ویسے بھی ملک ریاض ، پی ٹی سی ایل، موبی لنک، وارد کے پاس گروی رکھے ہوئے اداروں کے منہ سے آزادی کا لفظ کچھ مناسب نہیں محسوس ہوتا۔ کوئی تنظیم اگر اس واقعہ پر احتجاج کرتی ہے تو وہ یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ پی ایف یو جے کا کوڈ آف ایتھکس اس کے آئین میں درج ہے، جو بھی اس آئین کی اور اس کوڈ کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کے لیے آواز بلند کرنا مناسب نہیں۔

آج کل فیشن بن گیا ہے ، ریٹنگ کے لیے پروگرام کرنے کا ایک صاحب کیمرہ ٹیم کے ہمراہ ایک جوتے بیچنے والے کی دکان میں گھس جاتے ہیں اور ایک باریش دکاندار سے بڑی درشتی سے سوال کرتے ہیں آپ جو جوتے فروخت کر رہے ہیں کیا آپ کو معلوم ہے یہ کس کی کھال کے بنے ہیں؟ آپ کو شرم نہیں آتی اتنی لمبی داڑھی رکھی ہوئی ہے مگر سور کی کھال کے بنے جوتے بیچ رہے ہیں۔۔ وہ صاحب جتنی مرضی صفائی دیں ، آپ نے اپنے چینل پر اس کی مٹی پلید کر دی۔ اب وہ کیس سپریم کورٹ میں بھی جا کر جیت جائے مگر اس کے چہرے پر لگنے والا داغ نہیں دھل سکتا۔

یہی صاحب ریلوے کے کارگو کے ذریعہ پستول اور گولیاں بھیجتے ہیں اور اسے سٹنگ آپریشن کہتے ہیں، انہیں کوئی کاش یہ بتا دے، یہ کام کرنے والے کس طرح کرتے ہیں، ان کی ٹریننگ کیسے ہوتی ہے، اس میں استعمال ہونے والا میٹیریل اصلی ہوتا ہے یا نقلی؟ اس کے لیے باقاعدہ کورسز کرائے جاتے ہیں۔۔ مگر یہاں آپ پستول لے کر اسمبلی ہال تک پہنچ جائیں اور اس پر اپنے آپ کو ہیرو سمجھیں۔۔ یہ نئے دور کی صحافت ہے۔

ایک صاحب شادی ہال میں داخل ہوتے ہیں اور سیدھا اس کے کچن میں گھس جاتے ہیں وہاں جا کر دکھاتے ہیں برتنوں کے ساتھ مکھیاں اور کیڑے ہیں۔۔ ڈیپ فریزر میں گوشت درست انداز میں نہیں رکھا ہوا، پھر وہ بھی اس بینکوئٹ ہال کے مالک حاجی صاحب کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ گوشت پر تاریخ نہ لکھی ہونے پر انہیں برا بھلا کہتے ہیں ۔ کیا یہ انداز صحافت درست ہے؟ کیا ہمارا یوں کسی کے بھی شادی ہال، بیکری، ہوٹل، دکان میں گھس جانا درست ہے؟

جی نہیں۔ یہ صحافت نہیں۔ یہ چھاپے مارنا پولیس کا کام ہے، انتظامیہ کا کام ہے اگر وہ مناسب سمجھیں تو میڈیا کو ساتھ لے جاسکتے ہیں مگر ہمارا ازخود نوٹس لینا درست نہیں۔ہمارا کام رپورٹ کرنا ہے، اس پر بغیر مقدمہ درج کیے خود سے اس کو سزا دینا ہمارا کام نہیں ہے۔ ہماری حدود و قیود ہیں ، ہمیں ان کا خیال رکھنا ہے۔صحافتی تنظیمیں تو شاید مالکان کو پیاری ہو چکی ہیں اس لیے اب صحافیوں کی تربیت کا اہتمام کرنے کے لیے بھی ہمیں حکومتوں یا این جی اوز کی جانب دیکھنا پڑ رہا ہے، ہمارا کام ہر معاملے کی مذمت کرنا نہیں، احتجاج کرنا نہیں ہے،واقعہ رونما ہونے کے بعد اس پر بیان جاری کرنا نہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو نکھارنا بھی ہماری تنظیموں کی ذمہ داری ہے۔

بہت عرصہ پہلے ایک بھارتی فلم میں دلیپ کمار جو جیل سپرینٹیڈنٹ کا کردار کر رہے ہوتے ہیں جیل میں آنے والے ولن انوپم کھیر کو تھپڑ مارتے ہیں۔انوپم کھیر کہتا ہے : اس تھپڑ کی گونج سنی تم نے، اب اس گونج کی گونج تمہیں مدتوں یاد رہے گی۔۔ میرے خیال میں کراچی کے ٹی وی چینل کی اینکر یا رپورٹر کو پڑنے والے تھپڑ کی گونج بھی ہمیشہ ہم سب کو یاد رکھنی چاہئے۔ ہم اگر کسی کی بے عزتی کا سامان بن رہے ہیں تو یہ مت سوچیں کہ وہ آپ کی جواباً عزت ہی کرتا رہے گا، وہ بھی آپ کی بے عزتی کر سکتا ہے، یہ واقعہ پیش آنے کے بعد تو ہم سب کو تیار رہنا چاہئے ایسی صورتحال سے کوئی بھی دوچار ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی جتنا مرضی نعرے ماریں آزادی صحافت کے کچھ نہیں ہونا، دونوں فریقین کے مابین صلح ہو گئی، دونوں نے ایک دوسرے پر لگائے الزامات واپس لے لیے، پر منہ پر لگنے والے تھپڑ کا کیا کریں۔ وہ تو واپس نہیں ہو سکتا۔

بقول نیوٹن ۔۔ ہر عمل کا رد عمل بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کسی کا بازو کھینچیں، اسے بے شرم کہیں ، اسے اس کی ماں بہن یاد کروائیں تو یاد رکھیں وہ بھی آپ کو آپ کی نانی یاد کروا سکتا ہے۔ امید ہے اس واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے ہمارے دوست جو ایڈونچر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس سے باز آ جائیں گے نہیں تو پھر کہیں سے آواز آ سکتی ہے کہ اس تھپڑ کی گونج کی گونج تمہیں یاد رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے