’افغان طالبان کا وفد پاکستانی حکام سے ملاقات کے لیے اسلام آباد میں‘

افغان حکام اور طالبان ذرائع کے مطابق طالبان کا ایک وفد بدھ کے روز اسلام آباد آچکا ہے جس میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان گذشتہ ماہ دوحا میں ہونے والے ملاقاتوں کے بارے میں پاکستانی حکام کو آگاہ کرنا ہے۔

تاہم پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے طالبان وفد کی پاکستان آمد کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر ڈاکٹر حضرت عمر زاخیلوال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان کا وفد اسلام آباد پہنچ چکا ہے تاہم اُنھیں یہ معلوم نہیں کہ وفد اور پاکستانی حکام کے درمیان کس موضوع پر بات چیت ہوئی ہے یا ہورہی ہے۔

دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وفد کے پاکستان آنے کی تصدیق کی۔

افغان طالبان کےترجمان نے بتایا کہ وفد پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کو درپیش مسائل کے بارے میں پاکستانی حکام سے بات چیت کے لیے آیا ہے۔

طالبان اور افغان حکومت ذرائع کے مطابق وفد میں ملا سلام حنیفی، ملاجان محمد اور مولوی شہاب الدین دلاور سمیت کوئٹہ سے بھی کچھ طالبان رہنما شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق وفد پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقات میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان حال ہی میں دوحہ میں ہونے والے ملاقاتوں کے بارے میں معلومات فراہم کرے گی۔

اُدھر کابل میں افغان حکام نے پچھلے ہفتے بی بی سی کو بتایا تھا کہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان پچھلے دو سال سے دوبئی اور قطر میں کئی ملاقاتیں ہوچکی ہیں، تاہم وہ ان ملاقاتوں کو ابھی تک مذاکرات کا نام نہیں دے سکتے۔ لیکن اُن کے مطابق یہ ملاقاتیں مستقبل میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے لئے راہ ہموار کرسکتی ہیں۔

طالبان نے دوحہ اور دبئی میں ہونے والے ملاقاتوں کی خبروں کی تردید کی تھی۔

افغان ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے ساتھ ہونے ان اجلاسوں میں امریکی حکام بھی شامل تھے لیکن پاکستان کا کوئی نمائندہ نہیں تھا۔

کیا افغان حکومت نہیں چاہتی کہ پاکستان بھی ان میٹینگز کا حصہ ہو؟ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کو شامل بھی کیا جائے گا۔

افغان طالبان کا یہ وفد ایک ایسے وقت میں اسلام آباد آیا ہے جب طالبان ذرائع کے مطابق پچھلے کئی ہفتوں سے کوئٹہ میں سیکورٹی فورسز نے افغان طالبان کے کئی رہنماؤں کو گرفتار بھی کیا ہے، تاہم پاکستانی حکام نے اس بارے میں ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

اس سے پہلے رواں سال اپریل میں بھی افغان طالبان کا ایک وفد جن میں ملاجان محمد اور ملاشہاب الدین دلاور شامل تھے، اسلام آباد آئے تھے۔ اُس وقت طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے لئے چار ملکی مصالحتی عمل جاری تھا۔ جو مئی 2016 میں افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تعطل کا شکار ہے۔ چار ملکی مصالحتی عمل میں افغانستان اور پاکستان کے علاوہ چین اور امریکہ بھی شامل تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے