لشکر جھنگوی اور ن لیگ

کوئٹہ میں ہونے والے افسوسناک حملے کے بعد یہ خبر سامنے آئی ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق کلعدم لشکر جھنگوی سے تھا اور وہ افغانستان سے مسلسل رابطے میں تھے۔

اس واقعے کے بہت سے پہلؤوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں لشکر جھنگوی کا مضبوط ترین سیاسی بازو مسلم لیگ ن کا رانا ثناءاللہ ہے۔ پنجاب میں پاک فوج کے جس آپریشن کو رانا ثناءاللہ اور پنجاب حکومت روکنے کی کوشش کر رہی ہے وہ بھی لشکر جھنگوی کے خلاف ہی ہورہا ہے۔

کچھ دن پہلے پاک فوج کے دباؤ پر لشکر جھنگوی کے کچھ اہم راہنماؤوں پر پانبدیاں بھی لگیں تھیں۔

بظاہر یہ لشکر جھنگوی کا جاری آپریشن کے خلاف ایک ردعمل سامنے آیا ہے لیکن اس حملے کے ذریعے کچھ اور مقاصد بھی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مثلاً ۔۔۔

اس حملے کے بعد اسلام آباد میں ہونے والے ممکنہ دھرنے کی سیکورٹی ایشوز کو اٹھایا جائیگا۔۔۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ نواز شریف پر دباؤ بڑھنے کی ساتھ ہی انڈیا ایل او سی پر دباؤ بڑھا دیتا ہے۔ اب کی بار اس نے ورکنگ باؤنڈری پر بھی گولہ باری شروع کر دی ہے اور اب دہشت گردی کی یہ خوفناک کاروائی۔ ( کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ ہم یعنی انڈیا پاکستان میں فرقہ ورانہ دہشت گردی کو کنٹرول کرتا ہے لہذا لشکر جھنگوی کے حوالے سے کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ) ۔۔۔

سی پیک کے حوالے سے چین کے بعد روس اور ایران کی دلچسپی نے انڈیا کی نیند حرام کی ہوئی ہے اس لیے یہ بلوچستان کو سیکیورٹی کے حوالے سے غیر محفوظ ثابت کرنے کی کوشش بھی ہے۔

یہ تاثر مضبوط ہو چکا ہے کہ انڈیا بلوچستان کو ہار چکا ہے براہمداغ بگٹی اور ہربیار مری وغیرہ کو بلوچستان کی اپنی عوام مسترد کر چکی ہے۔ پرامن بلوچستان کے تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

راحیل شریف کا آخری رہ جانے والا ایک مہینہ مخالفین کو ایک صدی جتنا لمبا محسوس ہورہا ہے۔ راحیل شریف کو اب ایسی جگہوں کا دورہ کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہئے۔ انکی زندگی بہت قیمتی ہے۔

اور آخر میں محمود اچکزئی کی اپنی حکومت کہہ رہی ہے کہ دہشت گردوں کو افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔ افغان حکومت کی دہشت گردوں کی پشت پناہی سے پوری دنیا واقف ہے۔ اس حملے میں شہداء کی اکثریت پشتون ہے۔

کیا محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی میں اتنی جرات ہے کہ پشتونوں کی اموات پر افغانستان سے سوال کر سکیں ؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے