کوئٹہ میں موت کارقص،پس چہ باید کرد؟

ملک میں امن وامان کی صورت حال پہلے کے مقابلے میں بہت بہترہوگئی ہے۔الحمدللہ!نہ اب کراچی پہلے کی طرح آسیب زدہ رہاہے اور نہ ہی کوئٹہ میں خوف ودہشت کاعفریت ننگاناچ رہاہے۔دھماکے کم ہوگئے ہیں۔عوام نے سکون کا سانس لیاہے۔اس میں پاک فوج کا کردارکسی سے مخفی نہیں،بلکہ اصل کریڈٹ جاتابھی فوج ہی کوہے۔کوئٹہ کی توآبادی سے زیادہ چیک پوسٹیں قائم ہیں۔سیکورٹی ہر وقت الرٹ ہے۔اس کے باوجودایک بار پھر کوئٹہ کوخون میں نہلادیاگیاہے۔اس بار نشانہ پولیس ٹریننگ سینٹر میں تربیت حاصل کرنے والے ریکروٹ بنے ہیں۔ان کے غم میں پوراملک سوگ میں ڈوبا ہواہے ،ہر شخص ان کے لواحقین کے دکھ کواپنے دکھ کی طرح محسوس کررہاہے۔ اللہ کرے ان کے خون کی سرخی سے امن وآشتی کی صبح نوطلوع ہوجائے۔

ہمارے سیکورٹی اداروں کی مستعدی کسی شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ان کی تیز نگاہیں مستقبل کے خطرات کو بھی قبل از وقوع بھانپ لیتی ہیں۔اب بھی کہا جارہاہے کہ دہشت گردوں کی صف بندی کی ہمیں پہلے سے اطلاع تھی۔ان کامنصوبہ عاشورہ میں شہر کولہولہوکرنے کا تھا،جس میں ناکامی کے بعد پولیس ٹڑیننگ سینٹر پر یہ بزدلانہ حملہ کیا گیا۔لشکر جھنگوی العالمی ہو یاجماعت الاحرار،ہر واقعے کے بعد ان کے نام لیے جاتے ہیں،یایہ خود ذمے داری قبول کرلیتے ہیں۔ان کی تلاش میں ملک بھر میں سرچ آپریشنز بھی ہوتے رہتے ہیں۔کومبنگ آپریشنوں میں بھی ان کو ہدف بنایاگیا،پھانسیاں بھی ان کے لوگوں کودی جاچکی ہیں،ان کی کمر توڑنے کے دعوے بھی ہر سطح پر کیے جاتے رہے ہیں،یہ انکشاف بھی نیا نہیں کہ دوسرے صوبوں میں ناکامی کے بعد انھوں نے بلوچستان کا رخ کرلیاہے۔لیکن سوال مگریہ ہے کہ کیایہ اس قدر طاقت ور ہیں کہ ریاست اب تک ان کا قلع قمع نہیں کرسکی۔ان کی فنڈنگ کے ذرائع مسدودہیں،ان کا جماعتی شیرازہ بکھیراجاچکاہے،ان کے شہ دماغ اکثر مارے گئے ہیں یاپس دیوارزنداں ہیں،سہولت کاربھی دھرے جاچکے ہیں،پھر…اس کے باوجودیہ اتنے طاقت وراب بھی ہیں۔اس کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سول ہسپتال حملے میں شہادتوں کے بعد مولانا محمد خان شیرانی نے کہاتھاکہ ہمیں حقیقت پسندی کاثبوت دیناچاہیے،دشمن ہمارے بیچ میں ہے،ہم میں سے ہے،آخر ہم اس بات کا اعتراف کیوں نہیں کرتے۔ان کی تقریرعوامی ترجمانی پر مشتمل تھی۔عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آخرہمیں کب تک ترنوالہ سمجھاجاتارہے گا،ہم اس خوف کی فضاسے کب نکلیں گے،ٹی ٹی پی کاخوف کچھ کم ہواتوجماعت الاحرارسامنے آگئی،اس کے حصار سے کچھ آزاد ہوئے تولشکر جھنگوی العالمی کاعفریت ہمیں نگلنے کے لیے پرتولنے لگا،آخرریاست ان کا قلع قمع کرنے میں کیوں ناکام ہے۔ماناکہ اب روز روز دھماکے نہیں ہورہے،پہلے جیسی خوف ودہشت کی فضانہیں ہے،لیکن دہشت گرداپنے پر ہدف میں کامیاب کیوں ہوجاتاہے؟اس کے خلاف پہلے سے صف بندی کرناکس کی ذمے داری ہے؟اتنے بڑے ٹریننگ سینٹرکی دیواریں مٹی کی تھیں،اس جانب پہلے توجہ کیوں نہ دی گئی۔کیایہی ہوتارہے گاکہ واقعہ ہونے کے بعد،اداروں کوہوش آئے گا؟نقصان ہونے سے پہلے اس کی پیش بندی کرنادانش مندی ہے،زخم کھاکر توہر کوئی چوکناہوجاتاہے۔یہاں توزخم کھانے کے بعد بھی بیداری کاجو عالم ہوتاہے،وہ کسی مخالف کی نہیں ،وزیرداخلہ کی زبانی سنیے،اسلام آباد میں نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اس کی ٹائمنگ کی جانب یوں اشارہ کیا:ہمارا یہ مسئلہ ہے کہ کسی بھی واقعہ کے بعد 20 دن تک ہم الرٹ رہتے ہیں اس کے بعد پھر معمول پر آجاتے ہیں۔چوہدری صاحب!جن کے پیارے خون میں نہلادیے گئے ان سے ذراپوچھیے،ان کاغم بھی کیا 20 ہی دن بعد ختم ہوجاتاہے؟جن کے سہاگ اجڑ گئے قوم کی ان ماؤں بیٹیوں سے معلوم کیجیے ،کیاان کے جیون ساتھی بھی 20دن بعدانھیں دوبارہ مل جاتے ہیں؟جن بچوں کے سرسے باپ کا سایہ چھن گیا،ان سے دریافت کیجیے،کیاان کے بابا20دن بعد پھر واپس آجاتے ہیں؟ایسے خاندان توزندہ درگور ہوجاتے ہیں۔مائیں جوان بیٹوں کے غم میں جیتے جی قبروں میں اترجاتی ہیں۔گھروں کے چولہے بجھ جاتے ہیں۔اس باپ کے کرب کااندازہ لگایئے،جس نے بیٹے کوخون پسینے کی کمائی سے پڑھالکھاکریہاں تک پہنچایاکہ میرے بڑھاپے کا سہارابنے گا،جب اس کی دہلیز پر جوان بیٹے کی لاش کجاتی ہے،تواس کے ارمانوں کے آبگینے کس بری طرح ٹوٹ جاتے ہیں۔

دشمن آسان ہدف اب بھی نہیں،اس کے محرکات پر غور کیاجائے، دشمن کے ساتھ رورعایت برتنے کاکوئی جواز نہیں۔کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر بھارتی حکومت کا رویہ خود بھی اس کی اہمیت کے ثبوت کے لیے کافی تھا،وہ اب تک آپ کی جیل میں ہے۔کیااب بھی وہ قابل گردن زنی نہیں؟کیاوہ دوبھائی،جن کودوسال قبل پھانسی دی گئی اور اب عدالت نے انھیں بے گناہ قراردیاہے،کلبھوشن سے بڑے مجرم تھے؟قوم کامطالبہ ہے کہ اس جاسوس کوفوری کیفرکردار تک پہنچایاجائے،اتفاق فاؤنڈری میں ملازمت کرنے والے ان چالیس بھارتی باشندوں کابھی قوم کو بتایاجائے،جن کی نشاندہی ڈاکٹر طاہر القادری نے کی تھی،وہ کہاں گئے؟ماناکہ دفع الوقتی کایہ ایک اچھا طریقہ ہے کہ کسی پر الزام لگادیاجائے،لیکن کہیں اس سے اصل دشمن کو شیلٹر توفراہم نہیں ہورہا؟آپ کو کسی اور کو مجرم بنانے میں مصروف دیکھ کر اس کے حوصلے بلند تونہیں ہوجاتے اور وہ نئے حوصلے سے اگلی واردات کی تیاری تو شروع نہیں کردیتا؟ماناکہ دہشت گردی کے تانے بانے سرحد پار سے ملتے ہیں،افغانستان سے اس پر کوئی مؤثر احتجاج کیوں نہیں کیاجاتا؟راکانام ہرواقعے میں زیرلب ہی کیوں لیاجاتاہے؟کیا”ر”اکوکھلی آزادی ہے کہ وہ جوچاہے گل کھلائے؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ” را”ہویاجماعت الاحرار،لشکر جھنگوی العالمی ہو یابلوچ لبریشن آرمی،اگرمضبوط شواہد ہیں توان کا ناطقہ بند کیاجائے۔ان کے ایک ایک فرد اوران کے سہولت کاروں کونشان عبرت بنایا جائے۔ان کی پشت پناہی کرنے والاملک ،خواہ وہ بھارت ہویاافغانستان،سعودی عرب ہویاایران،اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراحتجاج کیاجائے۔اس کے سفیر کوملک بدر اور تمام سفارت خانوں کو بند کیاجائے۔ا ن کے ساتھ ہر قسم کے تعاون وتناصر کا سلسلہ ختم کیاجائے۔جس طرح فاٹا ووزیرستان میں پاک فوج اور سیکورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف اسٹینڈ لیاہے،یہی انداز ملک بھر میں اپنانے کی ضرورت ہے۔اگر ہم دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لینے اوران کے سہولت کاروں کی سرکوبی کرنے میں اسی طرح تذبذب کا شکاررہے،مصلحتوں اور دباؤ کوخاطر میں لاتے رہے ،توخاکم بدہن،یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے