کون کرے فیصلہ؟

بحیرہ عرب کے ساتھ پھیلاوسیع وعریض میگا سٹی "کراچی” طویل عرصے تک پاکستان کامعاشی مرکزرہا ہے اور ہے بھی مگرحالیہ برسوں میں یہ اقتصادی حب کی بجائے ڈکیتیوں، اغوابرائے تاوان، دہشت گردی اورقتل کی وجہ سے مشہورہوتا جارہاہے۔ کراچی کے تاجراور صنعتکارمحتاط اندازمیں اچھے وقت کی مثبت امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ہر آنے والی حکومت یا برسراقتدار آنے والا شخص "کراچی” کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے، لوٹ کھسوٹ کرکے چلتا بنتا ہے، اگلوں پچھلوں پر الزامات کی بوچھاڑ کرتاہے اور یہ جاوہ آجا۔ کسی بھی پارٹی یا شخص کا نام لینا مناسب نہیں، کوئی دودھ کا دُھلا ہوتو ذکر بھی کریں۔برطانوی دور کا ٹرام سسٹم ختم کرکے گرین لائن بسیں چلانے کا منصوبہ آج تک نجانے کن فائلوں میں بند ہے، باواقائد اعظم کی بسیں ہیں، جن میں بیٹھ کر چاروں قُل اور کلمہ ہی یاد آتاہے، رہی سہی کسر ٹارگٹ کلنگ اور ڈکیتیوں نے پوری کردی ہے۔سڑکیں ہیں شاید نہیں، نہ ہونے کے برابر تصورکرلیں، غلطی سے 3-4 سال قبل جو پُل بنے تھے، جن کی تختیوں پر اب بھی اپنے نام لکھنے کی لڑائی ہے، حالت ان کی ناگفتہ بہ ہے، اب گرے کہ تب، ناقص میٹریل کےاستعمال کی عمدہ مثال شیرہ شاہ پل بوقت تعمیر ہی زمین بوس ہوگیا تھا، بس اب تو اللہ واسطے زندگی گزررہی ہے۔

کئی لوگوں کو ذریعہ معاش کے لیے دو سے تین گھنٹوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے، صبح ناشتہ کرو یا نہیں لیکن بس اسٹاپ پر وقت سے پہنچنا ہے ورنہ دووقت کی روٹی نہ مل سکے گی، کسی کے دفتری اوقات 8 گھنٹے ہیں تو کسی کے 12 سے 14 پھر وہی بس کے دھکوں اور انتظار کے بعد رات ہو ہی جاتی ہے، کوئی دکان چلاتا ہے تو کوئی ٹھیلہ لگاتا ہے، مشکل تو ان کے لیے بھی دکان یا ریڑھی وقت سے لے کر نکلنا رات بازارکی رونق بحال ہونے تک کاروبار ہونے دہاڑی لگنے کا انتظار اور وہی تھکاوٹ۔ اسی طرح واپس گھر پہنچتے ہوئے 12 سے دو تو بج ہی جاتے ہیں، سوشل لائف تو کیا ہوگی، کسی کی خوشی غمی میں شریک ہوجائیں بڑی بات ہے، لین دین کےلیے شاپنگ کرنا ضروری ہے، اب اگر مارکیٹیں شام 7 بجے بند ہوجائیں گی، تو کمانے والا کمائے گا کیسے اور ضرورت والا ڈھونڈے گا کیسے؟

"کہتے ہیں جس نے جوتا پہنا ہو صرف وہی جانتا ہے کہ تکلیف کتنی اور کہاں ہے؟”

روشنیوں کے شہر کراچی میں زندگی رات گئے بھی آباد رہتی تھی،پھر کچھ بے امنی لے ڈوبی کچھ اپنے۔پہلے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے مارکیٹیں 10 بجے بند کرائیں تو تاجر وصنعتکار حتیٰ کہ عوام کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ احتجاج کیا لیکن سب لاحاصل۔

بھئی یہ کراچی ہے، پاکستان کا معاشی حب

ملک بھر کے لوگ یہاں آباد ہے، اپنی زندگی کا پہیہ چلانے کےلیے دن رات کام کرتے ہیں،روشنیاں رہیں تو کاروبار چلے ، کاروبار چلے تو اقتصادی ترقی ہو معیار زندگی بہتر ہولیکن نہیں جناب اس بار تو فیصلہ ہوگیا، کسی کی نہیں سننی، بس! یکم نومبر سے مارکیٹیں 7 بجے بند ہونی ہیں،سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے دور میں ایک ہوا چلی اور تمام شادی ہال گرائے جانے لگے، کئی شادیاں ایک دن میں درجنوں شادی ہال گرنے سے متاثر ہوئیں۔عدالت کی جانب سے حکم امتناعی پر شادی ہال کے مالکان اور بکنگ کرانے والوں کی جان میں جان آئی، نیپا چورنگی پر واقع صادقین شادی ہال کو بھی مسمار کیا جارہا تھالیکن پیپلز پارٹی کے کسی بڑے نے فون کرکے ایسا ہونے سے روک دیا، اور اب وہ دوبارہ شاد آباد ہے لیکن جو اس قانون کی زد میں آئے، وہ اب فسوں حال ہیں۔

وزارت اعلی کی کرسی سنبھالنے والے مراد علی شاہ ایکشن میں دکھائی دے رہے ہیں لیکن تمام کام ایک خاص جماعت کو دیوار سے لگانے کی کوششیں ہیں ورنہ تو اندرون سندھ کے حالات کراچی سے بھی گئے گزرے ہیں اور صدیوں پرانی رسم و رواج پر قائم ہیں۔ نہ سڑکیں ہیں نہ اسپتال ، اسکول ہے نہ بازار، روٹی کپڑا مکان کے نعروں کے علمبرداروں کے علاقوں میں مفلسی اور ناخواندگی کے کیا کہنے۔

مراد علی شاہ صاحب نے ایک اہم اجلاس میں صوبے بھر کے شادی ہال رات 10 بجے اور مارکیٹیں شام 7 بجے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا، اوراس پر عملدرآمد کرانے کے لیے یکم نومبر تک مہلت دے دی۔فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے لیے ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ کاروباری افراد سے بات کرنے کا عندیہ دیا اور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ طلب کرلی.۔اجلا س میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ شادی کی تقریبات میں صرف سالن، روٹی، چاول اورمیٹھے کی اجازت ہوگی۔ اور کسی نے اگر ون ڈش سے زیادہ مہمانوں کی تواضع کی تو سلاخوں کے پیچھے اسکی تواضع پولیس کرےگی،

ایسی صورتحال میں عوام کی رائے منقسم ہے، کچھ لوگوں نے اس اقدام کو سراہا لیکن زیادہ تر اس فیصلے کو واپس لینے کے حامی ہیں، کچھ منچلوں کا کہناہے زندگی میں شادی اک بار ہوتی ہے برائے مہربانی حکومت اسے انجوائے کرنے دیں ، اسٹیٹ اپنے کام سرانجام دے لوگوں کے نجی مسائل میں دخل اندازی نہ کرے، عوام کاکہناہے کہ اس طرح کے اقدام میگا سٹی میں رائج نہیں ہوسکتے، کہ گاوں دیہاتوں اور قصبوں والے چاہییں تو وہ اپنا سکتے ہیں،
اب جب کہ دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ اور ڈکیتیوں کی وارداتیں کم ہوئیں تو لوگوں کو زندگیاں بھرپور سے گزارنے کا مکمل حق ملنا چاہیے، اقتصادیات کو فروغ ملنا چاہیے،

کیونکہ جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے کہ دل کا فسانہ ہےکیا

تاکہ اک بار پھر کراچی روشن و ترقی یافتہ ہو اور اندرون سندھ کے شہر و علاقے بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کرتے نظر آئیں، صرف بلاول کے جلسوں میں نعرے مارتے، اور گڑھی خدا بخش میں کھانا کھاتے نہ ملیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے