ڈیرہ بگٹی کا شہید سپاہی

سپاہی سالار بگٹی کا تعلق سوئی ڈیرہ بگٹی سے تھا ۔ سنا ہے کہ یہ غربت، بھوک اور محرومی سے ’’بھرپور‘‘ بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جہاں سے دو عناصر کا جنم ہوا ۔ ایک عنصر کو قدرتی گیس کہتے ہیں جس سے کراچی تا خیبر اور پنجاب تک لوگوں کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں ۔ اور ان پر کھانا پکتا ہے ۔ جب کہ دوسرا عنصر نواب اکبر خان بگٹی جیسے ’’غدار‘‘ ہیں جنہوں نے 1947میں پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے لئے ڈپلومیسی کرنے کے ساتھ ساتھ ساری زندگی بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کی کا وش بھی کرتے رہے اور زندگی کے آواخر میں اسی مٹی میں دفن ہو گئے ۔

بہر حال بات ہو رہی تھی سپاہی سالار بگٹی کی جو اسی علاقے کی مٹی سے پیدا ہوا تھا ۔ گزشتہ رات (24 اکتوبر) اس نے اپنے گھر ٹیلی فون پر بات کی اور کہا، ’’ہمارے ٹریننگ سکول کوئٹہ پر حملہ ہو گیا ہے ۔ اور شاید یہ میری آخری کال ہو ‘‘
اور یہ اس سپاہی کی آخری کال تھی ۔ جسے ابھی بندوق بھی الاٹ نہیں ہوئی تھی۔ ایک نوعمر بیٹے کے والد کے ان الفاظ میں کتنا درد اورکتنا غم پنہا ہو گا اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اپنی اولاد کا چھوٹا سا غم برداشت نہیں کر سکتا ’’غدار‘‘ مٹی کا وفادار بیٹا خون دے کر اپنی حب الوطنی کی مہر ثبت کر گیا ۔

میں شہید سپاہی سالار بگٹی کو نہیں جانتا ۔ لیکن اتنا معلوم ہے کہ جہاں غربت ہو ۔ بے روزگاری ہو ۔ بھوک ہو اور جہاں ایک وقت کی روٹی کمانا مشکل ہے وہاں کسی کو سرکاری نوکری مل جانا اُس خاندان کے لئے ایک بہت بڑی نعمت سے کم نہیں ہوتا ۔ یہ 62 جوانوں کی لاشیں وہ ساری خوشیاں ، ساری تمنائیں اور ساری ضروری خواہشات بھی اپنے ساتھ لے گئیں۔ جو انہوں نے اور ان کے خاندانوں نے سوچ رکھی تھیں ۔ کسی ماں نے سوچا ہو گا کہ اب نوکری لگ گئی ہے تو اپنے پتر کی شادی کرواوٗں گی۔ کسی باپ نے سوچا ہو گا کہ اب کام کر کر کے ہڈیاں جواب دے گئی ہیں ۔ بیٹے کی نوکری پکی ہو گئی تو زندگی کے آخری دن آرام سے گزاروں گا ۔ کسی شہید سپاہی نے آرزو کی ہو گی ۔ کہ اب تو نوکری لگ گئی اب بہن کی شادی بھی ہو جائے گی اور بھائی آرام سے پڑھائی بھی کر سکے گا۔ لیکن ان سب کو کیا معلوم تھا کہ 24 اکتوبر کی رات ان سب کے لئے کیا قیامت لے کر آئے گی۔

لیکن ہر دفعہ کی طرح یہ سانحہ بھی اپنے ساتھ سوال چھوڑے جا رہا ہے ۔ کیا اس واقعہ کی تحقیقات بھی 16دسمبر 2014 آرمی پبلک سکول اٹیک کے بعد ’’ناقابل عمل نیشنل ایکشن پلان‘‘ کی طرح ادھوری ہی رہیں گی یا 8 اگست2016 کو بلوچستان کے دانشور وکلا ء کے قتل عام کی فائل کی طرح دہشت گردی کی فائلوں اور ہماری بے حسی کی قبر میں دفن ہو جائیں گی ؟

ہمارے وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ دشمن سرحد پار سے اٹیک کر رہا ہے ۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ سرحد کے اس پار آپ اسی تنظیم کے سپہ سالاروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں ۔ جو اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں اور جن کے نام فورتھ شیڈول میں شامل ہیں ۔ تنظیمی سربراہوں سے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ حکومتی اور انتظامی سطح پر نہ صرف دارالخلافہ بلکہ صوبائی سطح پر بھی بھرپور پروٹوکول کے ساتھ جاری رہتا ہے ۔ آخر نیشنل ایکشن پلان کیوں بنایا گیا تھا اور کون اس پر عمل درآمد کروائے گا ۔

یہ سپاہی سالار بگٹی سمیت اُس شہید کا بھی سوال ہے ۔ جس نے شہادت والی رات اپنے دوست سے فیس بک چیٹ کی اور کہا کہ ’’میں کوئٹہ کو چھوڑ رہا ہوں لیکن یہ شہر مجھے نہیں چھوڑ رہا ہے ۔ پتہ نہیں کیوں بار بار مجھے بلا لیتا ہے ۔‘‘

کوئٹہ کی موت اس کے تعاقب میں تھی ۔ شاید

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے