جب دادی کی بتیسی توڑی

استغفراللہ! انتہائی نا مناسب کلمات ہیں لیکن اب میں بتیسی کو بتیسی اور توڑنے کو توڑنا نا کہوں تا کیا کہوں ؟
اصل میں ہوا یہ کہ ایک مرتبہ جب میں شاید صرف سات یا آٹھ سال کی تھی تو دادی کے پلنگ پہ اچھل کود کرتے مجھے ان کی بتیسی نظر آئی۔ اصل بتیسی نہیں یار۔ وہ جو مصنوعی ہوتی ہے۔ میں نے اس دانتوں کے فریم کو اٹھایا۔ غور سے دیکھتی رہی۔ پہلی دفع نہیں دیکھی تھی لیکن بتیسی کی سختی پہلی دفعہ ہی آئی تھی۔ جب خوب غور و خوض کر لیا تو مجھے یہ کیوروسٹی ہوئی کے یہ ٹوٹ بھی سکتی ہے کیا؟ بس پھر! اس خیال کا آنا تھا کہ میں نے ذرا بتیسی پہ اپنی گرفت مضبوط کر دی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ڈینٹسٹ کھوتے اور گھوڑوں کی بتیسیوں سے انسانی بتیسیاں نہیں بنایا کرتے تھے لہذا میرا تججس ذیادہ دیر میرا ساتھ نہ دے سکا اور کڑاک کر کے ایک آواز آئی۔ دیکھا تو میرے جادوئی ہاتھوں کی برکت سے بتیسیاں ایک سے دو ہو چکی تھیں۔ اس کرامت کو میں نے خاموشی سے اسی ڈبی میں واپس رکھ دیا۔ شو شا کی خواہش مند میں کبھی بھی نہیں رہی۔ بس گمنامی میں جو تھوڑا بہت اظہار ہو گیا سو ہو گیا ۔ اس پر مٹی ڈالی، ادھر ادھر دیکھا کہ کسی نے دیکھا تو نہیں یہ نا ہو کے مرید ہی ہو جائے اور بس چل دیے۔
لیکن دادی تو پھر دادی تھیں۔ پتہ نہیں کیسے انہیں پتہ چل گیا کہ وہ کارنامہ میرا تھا۔ پتا بھی چلنے نہ دیا اور ابو کو بتا دیا۔ بس پھر۔۔۔۔
ابو نے مجھے بلایا اور پوچھا۔ یہ آج تم نے کیا کیا؟ میں حیران!
جی؟ میں نے؟ کیا کیا؟

انہوں نے زیادہ طوالت دینا پسند نہ کیا اور سیدھا سیدھا بولے
دادو کے دانت تم نے توڑے ہیں؟
اب اگر میں جو آج ہوں وہ کل ہوتی تو ہنس ہنس کے مر جاتی کہ یار آپ جملہ تو کوئی با ادب کر لیں۔ مگر جو معصومیت آج ہے وہ کل تو نہیں تھی۔ اور اللہ معاف کرے کہ جھوٹ تو میں نہ آج بولتی ہوں نہ کل بولتی تھی، (باتیں گول اور رول کرنا جھوٹ میں داخل نہیں ہوتا اچھا نا!) لہذٓا جب میں نے دیکھا ک اب اللہ تعالی چاہتے ہیں کہ دنیا والے میرے کرشمات دیکھ لیں تو میں نے بھی مکرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ٹھک سے مسکراتے ہوئے کہہ دیا کہ جی ہاں!
میں دیکھ رہی تھی کہ وہ کتنی مضبوط ہے تو وہ تو ٹوٹ ہی گئی۔

یہ ان چند واقعات میں سے ایک ہے جس پر مجھے کُٹ نہیں پڑی تھی۔ البتہ بہت شرمندگی اور پریشانی اٹھانی پڑی کہ واقعہ لیک کیسے ہوا جیسا کہ میں نے اوپر بھی بتایا کہ میں شو شا کی خواہاں نہیں۔ بس چپ چپیتی۔۔۔۔۔۔۔!

انتباہ: کوئی اس واقعے پر کاپی پیسٹ ہونے یا فقط میرے دماغی خیالات کا کاغذ پہ آنا نہ سمجھے۔ اللہ کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں نے دادی کی بتیسی واقعی دو ٹوٹے کر دی تھی لیکن اللہ گواہ ہے کہ میرا ارادہ توڑنے کا نہیں تھا۔ کچھ دیر اور وہ منحوس میرا پریشر سہہ لیتی تو میں نے اسے واپس رکھ دینا تھا یہ سوچ کر کہ یار دادی کے تھپڑوں کے ساتھ ساتھ ان کا دانت بھی جینون ہیں۔ لیکن بس جو اللہ کو منظور

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے