کوئٹہ میں شہید ہوئے ایک کیڈٹ کا حکمرانوں کے نام خط

پیارے حکمرانو!

کل رات جب میں اپنی بیرک میں نیند کے لئے کروٹیں بدل رہا تھا تو میرے ذہن میں کوئی خدشہ نہیں تھا بس اگلے دن کا سورج تھا۔ زندگی کسی مصرف میں آنے کی خوشی تھی اور والدین کا تمتماتا چہرہ تھا۔ ہاں وہی چہرہ جو کسی بھی بیٹے کو روزگار ملنے کی مسرت میں چمک اٹھتا ہے۔

مجھے ریاست اور تم نے یقین دلایا تھا حکمرانو کہ جب تک میں تربیت مکمل کر کے کسی کام کا نہیں ہوجاتا تم مجھے تحفظ دو گے تا کہ بعد میں میں تمہیں تحفظ دینے کا فرض نبھا سکوں۔

جشن مرگ میں نے سنا ضرور تھا پر اگر وہ دہشت گرد خود کو اڑانے سے پہلے میرے سر میں گولی نہ مارتا تو مجھے کبھی معلوم نہ ہوتا کہ جشن مرگ کا مطلب ہوتا کیا ہے؟

آج میں بہت اوپر سے سب کچھ صاف صاف دیکھ سکتا ہوں اور سمجھ بھی سکتا ہوں۔ جشن مرگ کا مطلب ہے میرے اور میرے جیسوں کے مرنے پہ بین کرنے والی پیشہ ور میڈیائی ردالیاں اور ان کے جوشیلے چہرے۔ وہ دکھ بھرے مشینی بیانات جو 9/11 کے بعد سے کوئی کومہ، فل سٹاپ تبدیل کئے بغیر اتنی بار تم سب کے منہ سے، اتنی بار گر چکے ہیں کہ ان کے حرف تک پھٹ چکے ہیں، ریزہ ریزہ ہوچکے ہیں۔

مجھے اس سے کیا کہ مجھے کس نے مارا۔ مجھے تو یہ معلوم ہے کہ مجھے میرے اعتماد نے مارا۔ مجھے کسی دشمن نے نہیں، تمھاری کھوکھلی تسلیوں نے، تمھارے دکھائے گئے سبز باغوں نے اور اپنی ناکامیوں کو کامیابی بتانے والے تمھارے شاندار ہنر نے مارا۔ تم پہ میرا اندھا یقین اور تمہاری یقین دہانیوں پہ اعتماد۔۔۔ کاش میں یہ نہ کرتا اور اپنی بندوق اپنے برابر رکھ کے سوتا تو شاید اس وقت زندہ ہوتا۔ اور مر بھی جاتا تو دکھ نہ ہوتا۔

میں نے یہ تک نہ سوچا کہ میرے اور میرے چار سو کیڈٹ ساتھیوں کے پہرے کے لئے صرف ایک سنتری کو ہی کیوں کافی سمجھا گیا اور تمہارے جیسے ایک کے پہرے کے لئے پانچ سو سنتری اور بیسیوں بلٹ پروف گاڑیاں بھی کیوں کم پڑ جاتے ہیں؟

چلو۔۔۔ تمہیں اگلا سانحہ ہونے تک کوئی مصروفیت تو ملی۔ سوگ منانے، تعزیت کرنے، ایک دوسرے پہ الزام دھرنے، واردات کے بعد اپنی ایفی شنسیاں دکھانے اور صفائیاں پیش کرنے کی مصروفیت۔

تم میرے نام پہ اپنا دھرنا بچاؤ، دولت بچاؤ، عہدہ بچاؤ، رعب و دبدبہ بچاؤ، رینک بچاؤ۔۔۔ میرے جیسوں کا جینا کیا اور مرنا کیا۔ اور لیں آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا!

اگر کوئی آنکھوں والا ہوتا تو اس کے سامنے افغانستان، عراق اور شام کی عبرت بہت ہوتی۔ مگر آنکھوں والوں سے کرنے والی بات میں تم سے کیوں کر رہا ہوں؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب تک تمھاری آنکھیں کھلیں گی تب تک ہم سب کی آنکھیں پھٹ چکی ہوں گی، پھر تم دیکھتے رہنا ہم سب لاشوں کو اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے۔۔۔

مگر شاید یہ بھی میری خوش فہمی ہے۔ تم میں تو شاید اتنی بھی اخلاقی جرات بھی باقی نہیں بچی کہ یہی بتا دو کہ یہ پاکستان تم جیسے پانچ ہزار لوگوں کا ہے یا مجھ جیسے بیس کروڑ گھاس پھونس کے تنکوں کا بھی ہے۔ قربانیاں ہماری، دھونس تمھاری! ہماری زندگی بھی تمھارے لئے فائدے مند اور مرنے کے بعد ہم تمھاری امیج میکنگ کے لئے بھی کارآمد!

ہاں لکھ لو اپنے آفیشل ریکارڈ میں میرا نام بھی شہیدوں میں۔ جیسے اب تک پچاس ہزار اور نام لکھ چکے ہو۔ وہ پچاس ہزار جنہیں مرتے وقت بھی پتہ نہ چل سکا کہ وہ مر رہے ہیں یا شہید ہو رہے ہیں۔ میری شہادت بھی تمہیں مبارک ہو مگر اپنی ماں کے لئے تو میں ایک ارمانوں بھری لاش ہی رہوں گا۔ کیا سمجھے؟

اچھی بات ہے کہ دو روز بعد تم میں سے کسی کو بھی میں یاد نہیں رہوں گا۔ تمھارے بلیک بورڈ پہ ایک اور ہندسہ بن جاؤں گا۔ یہ میری خوش قسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔

تمہارا اپنا۔۔۔ اوہ! تم لوگوں کے لئے ناموں میں کیا رکھا ہے؟ اور کام میں بھی کیا رکھا ہے؟ چلو جاؤ اب اگلے بیان کی تیاری کرو۔

_______________

یہ مضمون اس سے پہلے ڈان کے پروگرام ‘ذرا ہٹ کے’ میں وسعت الله خان نے پڑھا گیا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے