کلیان داس مندر – ہمارا قومی ورثہ

[pullquote]ورشا اروڑہ[/pullquote]

راولپنڈی: کوہاٹی بازار میں واقع کلیان داس مندر راولپنڈی کی قدیم عمارات میں سے ایک ہے۔ گورنمنٹ قندیل سیکنڈری سکول براۓ نابینا افراد اس میں میں چلایا جا رہا ہے جو کہ ایک عظیم مقصد ہے مگر اس عمارت کی حیثیت قومی ورثہ کے طور پر ضرور سمجھی جانی چاہے-

کلیان داس مندر کا طرز تعمیر انیسویں صدی کے برصغیر میں بسنے والے لوگوں کی فن کے لۓ محبت کا پتہ دیتا ہے- حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مندر کی حالت کافی بگڑ چکی ہے مگر پھر بھی اسے دیکھ کراس بات کا باآسانی انداذہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمارت اس شہر کی بہترین تعمیرات میں سے ایک ہے-

تقسیم ہند سے پہلے یہ مندر سات ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا تھا اور اس میں تقریبا 100 کمرے تھے۔ اس میں ایک تالاب تھا جسے اب بند کر کے اس پر نئی عمارت تعمیر کر دی گئی ہے۔ مندر کو جانے والی سیڑھیاں سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہیں- مرکزی عبادت گاہ کا دروازہ ایسی لکڑی کا بنا ہے جو نہ صرف پائیدار ہے بلکہ اس کی وجہ سے مندر سانپوں سے بھی محفوظ ہے- اس مندر کا نقاسی کا نظام بھی بہترین تھا-

کلیان داس مندر انیسویں صدی میں راولپنڈی کے ایک رہائشی “کلیان داس” نے بنوایا تھا- حق نواز جو گورنمنٹ قندیل سیکنڈری سکول براۓ نابینا کی انتظامیہ میں شامل ہیں اور بچپن سے ہی اس مندر سے وابستہ رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ یہ مندر 1850 سے 1860 کے اردگرد تعمیر کرایا گیا- کلیان ایک سخی انسان تھے جنہوں نے انسانیت کی فلاح کے لۓ بہت سی خدمات سرانجام دیں-

حق نواز کہتے ہیں کہ یہ مندر صرف مذہبی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ سماجی لحاظ سے بھی کافی اہم تھا- اس زمانے میں لوگ شام کے وقت کام کاج سے فارغ ہو کر یہاں آکر بیٹھ جاتے تھے اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے تھے- گویا یہ مندر ایک کمیونٹی سنٹر کی حیثیت بھی رکھتا تھا-

لوگ دوردراز علاقوں سے یہاں عبادت کیلۓ آتے تھے- تقسیم ہند سے پہلے جو لوگ امرناتھ یاترا کیلۓ جاتے تھے وہ یہاں ایک یا دو روز کیلۓ ٹھرتے تھے۔ اس مندر سے نندہ بس سروس کے نام سے ایک بس سروس بھی چلای جاتی تھی جس کے ذریعے باقی کا سفر طے کیا جاتا تھا۔

حق نواز صاحب نے اس مندر میں گزرے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوۓ بتایا کہ 1984ء تک یہ مندر اپنی اصلی حالت میں تھا مگر اس کے بعد دو واقعات ایسے ہوۓ جن سے اس کی اصلی حالت کو کافی نقصان پہنچا – پہلا نقصان تب ہوا جب اس مندر پر چونا کیا گیا اور اس کے اردگرد نئی عمارت تعمیر کی گئی اور دوسرا بڑا نقصان تب پہنچا جب 1992ء میں سانحہ بابری مسجد پیش آیا اور سارے ملک میں مندروں کو نقصان پہنچایا گیا-

مندر کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوۓ وہ کہتے ہیں کہ مزید دس سال کے بعد اس کے نقوش بھی باقی نہیں رہیں گے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اصلیت کھوتی جا رہی ہے-

حفاظتی تدابیر کا ذکر کرتے ہوۓ انہوں نے بتایا کہ سکول انتظامیہ اس کی حفاظت کیلۓ کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھا سکتی کیونکہ یہ مندر محکمہ متروکہ وقف املاک کی زیرنگرانی ہے- وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کی حفاظت کیلۓ حکومت کو درخواست دی ہے تاہم ان کی طرف سے ابھی تک کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی گئی-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے