نواز شریف کا پرشین فالٹ

ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کے باعث جاتی امراء کا شریف خاندان دیوالیہ ہوا۔ اردو بازار کے تاجر نے شریف خاندان کو قرض دیا اور شریف خاندان نے بھرپور محنت کی۔ قدرت اور ضیاء الحق کی مہربانی سے شریف خاندان کا مالی خسارہ کروڑوں روپے کے منافع میں بدل گیا۔ شریف خاندان نے فیصلہ کیا کہ کارباور کو محفوظ ترقی دینے کیلئے اقتدار کی مسند ناگزیر ہے۔ میاں محمد شریف کی کاوشوں سے ضیاء الحق نوازشریف کو سیاست میں لے آئے اور9اپریل 1985 کو نواز شریف وزیراعلی پنجاب بنے اوریوں شریف خاندان کو اقتدار کی پُرخاروادی میں پہلی کامیابی ملی۔

1987میں نوازشریف نے اپنی سیاسی طاقت اور دانشمندی کے بل بوتے پر فیصلے کرنا شروع کردئیے جس کے باعث ضیاء الحق اور نوازشریف کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگیا۔ ضیاء الحق کو نوازشریف کا رویہ ہضم نہ ہوا اور ضیاء الحق نے نوازشریف کو ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ یوسف رضاگیلانی نے ضیاء الحق کے حکم پر جس شام لاہور میں صوبائی اسمبلی کے مطلوبہ ممبران کی حمایت حاصل کی تونوازشریف کو اپنے پاؤں کے نیچے سے اقتدار کا قالین کھسکتا محسوس ہوا۔ نوازشریف ہنگامی طور پر راولپنڈی پہنچے اور اپنے محسن ضیاء الحق سے اپنی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کیا،آئندہ فرمانبردای کا یقین دلایا اور یوں شریف خاندان کے گھر سے اقتدار رخصت ہونے سے بچ گیا مگر وہ رات یوسف رضا گیلانی کے سیاسی کیرئیر کی کربناک رات تھی ۔

منزل ابھی دور تھی۔ شریف خاندان وزارت عظمی کیلئے کوشاں تھا اور بالاخر 1990ء کے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کی کامیابی کے بعد میاں نواز شریف پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ جنرل آصف نواز کی وفات پر صدر اسحق خان نے نواز شریف کی مرضی کے برعکس جنرل عبدالوحید کاکڑ کو آرمی چیف تعینات کردیا، جس پر صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختیارات کی کشمکش شروع ہوگئی، غلام اسحق خان نے خصوصی آئینی اختیارات کے تحت اپریل 1993ء میں نواز شریف حکومت برطرف کردی۔ عدالت عظمی نے برطرفی کو غیر آئینی قرار دے کر نواز حکومت کو بحال تو کردیا لیکن عدم اعتماد کی فضا میں غلام اسحق خان اور نواز شریف کا اکٹھے چلنا مشکل ہوگیا۔ 1987کے برعکس اس مرتبہ نواز شریف ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے اقتدار بچانے میں ناکام رہے اور کاکڑ فارمولے کے تحت 18جولائی 1993کو آئینی مدت پوری ہونے سے قبل نواز شریف کو رخصت ہونا پڑا۔

1997کے انتخابات میں بھاری مینڈیٹ لے کر وزیراعظم نواز شریف نے صدر سے اسمبلی توڑنے اور فوجی سربراہان کی تقرری کا اختیار حاصل کرلیا۔ نوازشریف مطمئن تھے کہ ماضی کے مقابلے میں اب اسٹیبلشمنٹ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی مگر ترقیوں اور بلندیوں کو چھوتے نواز شریف کی قسمت کا ستارہ راولپنڈی میں اس مرتبہ بھی گردش میں تھا اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سول ملٹری اختلافات اور تعلقات میں تناؤ۔ ملکی تاریخ کے مضبوط ترین اور پراعتماد وزیراعظم نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت سے نینشل سیکورٹی کے معاملے پر استعفی لیا اورسیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے بااعتماد جنرل پرویز مشرف کو چیف آرمی سٹاف تعینات کردیا لیکن فوج کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے چلے گئے اور کارگل کے مسئلے پر معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچے، جنرل مشرف پر کی جانے والی مہربانیاں بھی کام نہ آئیں اور 12اکتوبر 1999 کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں نواز شریف کو دوسری مرتبہ اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

2013 کے عام انتخابات میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے نواز شریف ایک مرتبہ پھر سیاسی بحران سے دوچار ہیں، پہلے خارجہ پالیسی پراسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کشیدہ ہوئے تو سیاسی محاذ پر 2014 کے دھرنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نئی تاریخ رقم کرتےہوئے نواز شریف حکومت کی کشتی کو ڈوبنے سے نہ صرف بچایا بلکہ دھرنا بھی ختم کروادیا۔ مگر حیران کن طورپر نوازلیگ میں سالوں سے موجود ملٹری قیادت کے ٹکراؤ کا پرشین فالٹ دور نہ ہوا اور وزراء نے فوج پر طنز وتنقید کے نشتر برسانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ کرپشن سے پاک اور شفاف گورننس کی دعویدار ن لیگ اس بات سے بے خبر تھی کہ کبھی انہیں پانامہ لیکس سکینڈل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب بہتر ہوتے معاملات قومی سلامتی کی خبر لیک ہونے پر ایک بار پھر کشیدہ نظر آتے ہیں تو وزیراعظم سیاسی محاذ پر بھی پریشانی کا شکار ہیں، 2014 میں دھاندلی پر دھرنوں کا سامنے کرنے والے میاں صاحب کو اب پانامہ لیکس پر اسلام آباد کے لاک ڈاون کا سامنا ہے۔ اس بار مشکل یہ بھی ہےکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکے ہیںَ۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی حکومت کے تعلقات خوشگوار نہیں۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اپنی شخصیت میں موجود ملٹری اسٹیبلمشنٹ کیساتھ کشیدہ تعلقات کا پرشین فالٹ دور کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں یا اپنے سیاسی کیریئر کا خاتمہ انہی کے ہاتھوں سے کرواتے ہیں جن ہاتھوں نے نواز شریف کو انگلی پکڑ کر اقتدار کی مسند پر بٹھایا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے