یہ میرا گریباں ہے یا لشکر کا علم ہے

’’دہشت گردوں‘‘ کی قیادت کا خاتمہ کرو بصورت دیگر عالمی سطح پر اچھوت بننے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ یہ فقرہ روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی اس خبر کی سرخی کااردو ترجمہ ہو سکتا ہے جس نے پاکستان کی قومی سیاست میں طلاطم برپا کر رکھا ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ خبر عالمی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پاک فوج پر دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش ہے تاکہ حکومت سے معاملہ کرنے میں فوج کی پوزیشن کمزور ہو جائے ۔یہ بات بالکل ایسی ہے جیسے آپ حملے کے بدمعاش سے کہیں کہ میں تو آپ کے حکم کا غلام ہوں‘ یہ میرا بھائی راستے میں روڑے اٹکاتا ہے‘ اس کا دماغ ذرا درست کریں۔اس خبر کی پیش کش کا اندازہ خود بتا رہا ہے کہ مل ملاکر اس بات کا پورا اہتمام کیا گیا کہ فوج کے خلاف جو تاثر پیدا کرنا مقصود ہے اس میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس خبر میں دہشت گردی کے حوالے سے روئے سخن ان رہنماؤں کی جانب ہے جن کا تعلق بنیادی طور پر جہاد کشمیر کے ساتھ رہا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں جہاد کشمیر اور جدوجہد آزادی پر تو شاید کوئی بہت بڑا منفی اثر نہیں پڑتا‘ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسا ہونے سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کوتحفظ حاصل ہو گا جبکہ پاکستان کو کشمیر کے سفارتی محاذ سے پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ دوسرے لفظوں میں ایسی کوئی حرکت بین الاقوامی سطح پر کشمیر پر بھارتی پراپیگنڈہ کو نئی توانائی فراہم کرے گا جو مقبوضہ کشمیر میں جاری حالیہ تحریک کے نتیجے میں بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ اس خبر کے پیچھے ہماری حکومت کی خواہش بھی صاف دکھائی دیتی ہے کہ کشمیر کے معاملے پر بھارتی حکومت کی حالیہ مشکلات کو خود پاکستان دور کر دے۔

اس خبر کے شائع ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جو سب سے دلچسپ پہلو ہے وہی سب سے زیادہ نظر انداز ہوا ہے۔ ہمارا میڈیا حتیٰ کہ حکومتی جماعت کے کئی لوگ اس خبر کو ریاست کے لئے بہت مضرقرار دے رہے ہیں لیکن عملی طور پر اس صورتحال کے باعث پاک فوج اور عوام کی اکثریت جو تکلیف محسوس کر رہی ہے، حکومتی لوگ اس تکلیف دہ احساس سے بالکل الگ تھلک نظر آتے ہیں۔ ان کے تفکرات اور اندیشوں کی نوعیت بالکل مختلف ہے جن کا تعلق ریاست سے نہیں بلکہ ان کی اپنی بقاء سے جڑا ہوا ہے۔ اب جب حکومت اور فوج ذہنی اعتبار سے دو مختلف دنیاؤں میں رہ رہے ہیں تو آئین‘ قانون‘ انصاف اور عوامی خواہشات کے مطابق اس معاملے کا حل کسی طور ممکن نظر نہیں آتا۔حکومت اور فوج کے باہمی ٹکراؤ کے باب میں یہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے جو کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو اب تک ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جا چکا ہوتا لیکن کیونکہ یہ سب کرنے والے حکومت کے محسن ہیں تو تناؤ کو طول دیئے جانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔

اپنی فوج کے خلاف دشمن کے ساتھ جا کھڑا ہونا آخری درجے کا اقدام ہوتا ہے اور نظریاتی اعتبار سے اگر کوئی ایسے اقدام کو درست بھی سمجھ لے پھر بھی اس پر آمادہ ہو جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں بھی ایسا کر گزرنے کی جرأت کوئی ایک رات کا قصہ نہیں بلکہ ہماری جمہوری حکومتوں نے ایک طویل مدت میں آہستہ آہستہ پیش قدمی کر کے بات یہاں تک پہنچائی ہے۔ اس اعتبار سے پہلا بڑا واقعہ میمو گیٹ اسکینڈل تھا جس کے روح رواں سابق صدر مملکت آصف علی زرداری تھے۔ اگر پاکستانی قوم اسے نہیں بھولی تو انہیں یاد ہو گا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی صدر پاکستان کی ہدایت پر پاکستانی فوج کے پر کاٹنے کے لئے امریکی انتظامیہ کی مدد اور تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔حسین حقانی امریکہ میں پاکستانی سفیر سے کہیں زیادہ امریکہ انتظامیہ کا حصہ نظر آتے تھے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے لئے امریکی خفیہ ایجنٹوں کو پاکستانی ویزے دینے میں نمایاں کا رکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے امریکی حکام کوایک ایسا خط تحریر کیا جس میں پاک فوج کو سول حکومت کا مطیع اور فرمانبردار بنانے کے عوض امریکہ کو پاکستان اور افغانستان میں کارروائیوں کی لا محدود آزادی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک مکمل رسائی کا وعدہ کیا گیا تھا۔

مزے کی بات یہ کہ اس وقت آج کے وزیراعظم نواز شریف میمو گیٹ کا معاملہ عدالت میں لے کر گئے تھے۔ عدالتی کارروائی میں حسین حقانی اور امریکی حکومت کے درمیان پیغام رسانی کرنے والے منصور اعجاز نے بھی آن لائن شرکت کی اور عدالت نے حسین حقانی پر الزامات کو درست تسلیم کیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس معاملے میں پی پی پی کی حکومت بھی برابر کی قصور وار تھی۔ یہاں ایک اور میمو کا ذکر بے محل نہ ہو گا کہ جو آج سے قریب 500برس پہلے لکھا گیا تھا۔ سن 1485ء میں غرناطہ کے آخری مسلم حاکم ابو عبداللہ محمد نے بھی مسیحی شہنشاہ فرڈینڈ کو ایک میمو لکھا تھا۔ فرڈینڈ کی زیر قیادت ایک ایک کر کے مسلم اسپین کے تمام علاقے عیسائیوں کے قبضے میں آ چکے تھے، صرف غرناطہ کا ایک شہر ایسا تھا جس پر ابھی تک مسلم حکومت قائم تھی۔ ابو عبداللہ کا خط بھی اپنے دور کا میمو گیٹ اسکینڈل ہی تھا۔ اس خط میں شہنشاہ فرڈینڈ سے درخواست کی گئی تھی کہ ابو عبداللہ کو بیرون ملک دولت اور جائیداد رکھنے کی اجازت دے دی جائے اور غرناطہ پر اسے ایک ماتحت کٹھ پتلی کے طور پر قائم رہنے دیا جائے تووہ غرناطہ بغیر کسی مزاحمت کے عیسائی لشکر کے حوالے کرنے کو تیار ہے لیکن اس میمو کی کوئی قدر نہ ہوئی حتیٰ کہ فرڈینڈ نے غرناطہ میں آمد پر ابو عبداللہ کو اپنا ہاتھ چومنے کی بھی اجازت نہ دی۔ اتفاق دیکھیے کہ تب ابو عبداللہ کے وزیراعظم کا نام بھی یوسف تھا۔ اس وقت غرناطہ کی اشرافیہ ‘ قاضی بیورو کریسی اور فوج سب کے سب اس خط و کتابت سے واقف تھے لیکن کسی نے زبان نہ کھولی۔ جب کسی ریاست میں ہر کوئی اپنی قیمت لگوانے پر آمادہ ہو تووہاں ایسی خط و کتابت پر کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔

اس سارے معاملے کا ایک اور اہم پہلو آزادی صحافت سے متعلق ہے۔ اس آزادی کے مثالی ماحول کے لئے ہم ہمیشہ باہر کی دنیا کی طرف دیکھتے ہیں اور انہی کی مثالیں د یتے ہیں۔ دسمبر 2011ء میں سلوونیا کے بڑے قومی روزنامے ڈیلو کی ایک صحافی انوسکا ڈیلک نے بین الاقوامی سطح پر متحرک نیو نازی (NEO-NAZI) گروپ ’’بلڈ اینڈ آنر‘‘ کے مقامی حزب مخالف جماعت سلوونین ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ تعلق اور رابطوں کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹنگ پر مبنی بہت سی خبریں شائع کی تھیں۔ مذکورہ صحافی کی 11دسمبر 2011ء کو شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ بلڈ اینڈ آنر کے ارکان سلونیا کی پولیس اور فوج میں داخل ہو چکے ہیں۔ جب اس خاتون صحافی سے خبر کے ذرائع کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے تعاون سے انکار کر دیا جس پر عدالت نے اسے قید کی سزا سنا دی۔ عالمی تنظیم کمیٹی ٹوپروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق سال 2012ء میں یورپ سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں 232صحافیوں کو قومی سلامتی کے منافی خبریں چھاپنے پر جیل کی ہوا کھانا پڑی۔

حالیہ صورتحال میں ہمیں اعلیٰ ترین سطحوں پر جس اخلاقی ابتری اور پستی سے واسطہ پڑ رہا ہے اس پر فیض صاحب کا یہ ایک شعر پر محل تبصرے کا درجہ رکھتا ہے۔

جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے