22اکتوبر کی سیاہی پر 27اکتوبر کی کالک

کسی نے خوب لکھا کہ” 22اکتوبر 47ءکی ریاست جموں کشمیر کے لیے وہی حیثیت ہے جو 16دسمبر 71ءکی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے ہے“ ، یہ دونوں تاریخیں مذکورہ دونوں ریاستوں کی الم ناک تقسیم کے حوالے سے یاد رکھی جاتی ہیں ۔ 22اکتوبر 47ءکو ایک منصوبے کے تحت قبائلیوں کی بڑی تعداد ایبٹ آباد کے راستے جموں کشمیر میں داخل کی گئی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کشمیر کے مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ معائدہ قائمہ یا اسٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کر لیا تھا ۔ یہ قبائلی یلغار دراصل اس معائدے پر چلائی جانے والی کلہاڑی تھی ۔

قبائلیوں نے مظفرآباد سے مار دھاڑ اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ شروع کیا جو مسلسل چھ دن تک جاری رہا ۔ جب وہ سری نگر کے قریب پہنچے تو جموں کشمیر کے حکمران مہاراجہ کو خطرہ محسوس ہوا اور وہ جموں روانہ ہو گیا ۔ اسی قبائلی یلغار کے ایک اہم کردار میجر GEN Akberجنرل اکبر خان نے اپنی کتاب ( Raiders in Kashmir)میں ایک حوالے سے لکھا ہے کہ ”جب مہاراجہ جموں پہنچا تو رات سوتے وقت اس نے اپنے اے ڈی سی کو ہدایت کی کہ اگر قبائلی حملہ آور یہاں پہنچ جائیں تو تم مجھے نیند ہی کی حالت میں گولی مار دینا“ ۔

 

 

 

 

جب ریاست کے فرمانروا نے اپنی ریاست کی وحدت کی خاطر معاہدہ قائمہ کر لیا تھا تو پھر اس خونی یلغار کا بظاہر کوئی جواز نہیں تھا ۔ بعد میں ثابت ہوا کہ اس سے کشمیریوں کو فوائد کے بجائے نقصانات زیادہ ہوئے ہیں ۔ آج جب کشمیری قبائلیوں کے اس حملے اور لوٹ مار پر تنقید کرتے ہیں تو کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان قبائیلی بلوائیوں کو مقامی مسلمانوں کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ اس بات کو کلی طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ جنگوں میں ایسا ہوتا ہے کہ مقامی آبادی اگر اپنے حکمرانوں سے خوش نہ ہو تو وہ باہر سے آنے والے حملہ آوروں کا خیر مقدم کرتی ہے ۔ چنانچہ کچھ مقامی مسلمانوں نے اس لشکر کی اسی بنیاد پر مدد کی جبکہ کئی مسلمان گھرانے ایسے بھی تھے جنہوں نے اس ”غدر“ میں اپنے تعلق والے پڑوسی سکھوں اور ہندووں کو قبائلیوں سے بچانے کے لیے اپنے گھروں میں پناہ دی اور اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔

 

 

 

 

دوسری طرف یہ کہنا کہ جموں کشمیر کا ڈوگرہ حکمران کوئی نوشیرواں قسم کا حاکم تھا ، یہ بھی غلط ہے ۔ اس نے مقامی باشندوں خاص طور پر مسلمانوں کو کئی طرح سے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے رکھا تھا لیکن وہ کشمیر کی ریاست کی وحدت اور اس کے تشخص کے حوالے سے کافی حساس حکمران تھا۔ یہی وجہ ہے کہ معاہدہ قائمہ کرتے ہوئے بھی جس حد تک وہ اس ریاستی تشخص کو بچا سکتا تھا ، اس کی اس نے کوشش کی ۔ اس کے دور میں کیے گئے کچھ انتظامی فیصلے اور بنائے گئے قوانین سے آج تک ریاست جموں کشمیر کے منقسم حصے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ سو ریاست جموں کشمیر کے مہاراجہ میں ہزار خامیوں کے ساتھ کچھ خوبیاں بھی تھیں جنہیں تجزیہ کرتے ہوئے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

 

 

 

 

 

قبائیلیوں کی یلغار اور لوٹ مار مسلسلچھ دن جاری رہی ۔ انہوں نے اس یلغار (جسے کچھ لوگ ”مقدس جہاد“ بھی کہتے ہیں) میں انسانی اخلاقیات اور جنگی ضابطوں کی جس طرح سے دھجیاں بکھیریں اس سے متعلق کچھ چشم دید گواہوں سنے واقعات کی جانب اشارہ میں اپنے 22 اکتوبر 2016 والے کالم میں کر چکا ہوں ۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ قبائلیوں کی جموں کشمیر پر اچانک لشکر کشی نے وہاں lashkarکے حکمران کو اس حد تک خوف زدہ اور عدم تحفظ کا شکار بنا دیا تھا کہ اسے بھارت سے مدد طلب کرنا پڑی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے بھارت سے مدد ملنے کا قومی یقین نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے سیکنڈ آپشن کے طور پر اپنے اے ڈی سی کو نیند کی حالت میں اسے موت کے گھاٹ اتار دینے کا حکم دیا تھا ۔

 

 

 

 

 

 

پھر 27 اکتوبر کی صبح جموں کشمیر میں ایک نیا سیاہ باب لے کر آئی جب بھارتی فوج سری نگر ائیر پورٹ پر اتری اور انہوں نے جموں کشمیر کے ایک بڑے حصے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔ ادھر حملہ آور قبائلیوں کو بتایا گیا کہ ” واپس آ جائیے اب آپ کا جہاد مکمل ہو چکا ہے“ ۔ سو یہ ”غازی“ اور ”پراسرار بندے “ اس معرکے میں لُوٹے ہوئے مال اسباب سمیت واپس سرحد(موجودہ خیبر پختون خوا) آ گئے اور مقامی لوگوں کو اپنی جرات اور بہادری کی داستانیں سنا کر محفلیں گرم کرنے لگے ۔ یہ انہی کی داستان سرائی کا نتیجہ ہے کہ ان کی اولاد میں سے بہت سے لوگ آج کشمیریوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کو کشمیر کا ایک حصہ (جسے آزادکشمیر لکھا اور بولا جاتا ہے)ہمارے اجداد نے آزاد کروا کہ دیا ہے ۔

 

 

 

 

 

 

جموں کشمیر پر 27 اکتوبر 47ءکو بھارتی فوجوں کا قبضہ اس سیاہی پر مزید کالک ملنے کی مانند ہے جو 22اکتوبر 47ءکو جموں کشمیر کے نقشے پر قبائلی یلغار کے ذریعے پھیری گئی۔ اس عمل اور ردعمل کی قیمت کشمیری باشندے گزشتہ 70برسوں سے ادا کر رہے ہیں ۔ چار حصوں میں بٹی (بھارت کے زیر انتظام کشمیر، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر و گلگت بلتستان، چین کے زیر انتظام اقصائے چن)ریاست جموں کشمیر کے باشندے ان سات دہائیوں میں مسلسل شناخت کے بحران سے گزر رہے ہیں ۔ ان کے علاقوں کو پراکسی جنگوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ارد گرد کی ریاستیں کشمیر کے مختلف حصوں میں اپنی تزویراتی گہرائی کے تحفظ کے نام پر اس دھرتی کے حقیقی باشندوں کی حقوق پامال کر رہی ہیں ۔ کہیں جسمانی تشدد اور قتل و غارت گری ہو رہی ہے تو کہیں انٹلیکچوئیل ٹائرینی (مسخ شدہ تاریخ کی ترویج سے ذہنی طور پر محکوم بنانے کے ہتھکنڈے ) جاری ہے ۔

 

 

 

 

 

کشمیری جس طرح 22اکتوبر 47ءکے قبائلی حملے کو ریاست کی تقسیم کا بنیادی محرک سمجھ کر اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں بالکل اسی طرح 27اکتوبر 47ءکو بھارتی فوجوں کی کشمیر آمد اور پھر وہیں قبضہ جماکر بیٹھ جانے کو بھی بدترین ظلم سمجھتے ہیں ۔ ان کے لیے یہ دونوں ایام تاریخ کے بدترین دن ہیں۔ کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد اب یہ سمجھ چکی ہے کہ گزشتہ ستر برسوں میں دونوں پڑوسی ممالک نے مسئلہ کشمیر کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے اور عسکریت کے نام پر انہیں بدترین دھوکے دیے گئے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

اب گزشتہ ساڑھے تین ماہ سے کشمیر میں تحریک آزادی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے ۔ اس کا بنیادی محرک ایک کشمیری نوجوان برھان وانی ہے جسے بھارتی قابض فوج نے قتل کر دیا تھا۔ اس تحریک سے کشمیریوں کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں لیکن انہیں یہ خوف بھی ہے کہ کوئی غیر ریاستی عنصر ماضی کی طرح اس تحریک کے حقیقی اور داخلی رنگ کو متاثر نہ کردے اور ایک بار پھر کشمیری غیر معینہ مدت تک غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہو جائیں ۔

 

 

 

 

 

 

ماضی کو ایک حد سے زیادہ کریدنا اچھا نہیں ہوتا لیکن منفی پروپیگنڈے کے کسی حد تک ازالے کی غرض سے کچھ حقائق سے گرد جھاڑی جاتی رہے تو مسائل کی تفہیم نئی نسل کے لیے سہل ہو جاتی ہے۔ کشمیریوں کو چاہئے کہ وہ اپنی تاریخ کا مطالعہ باہم متحارب ریاستوں کی عینک لگا کر کرنے کی بجائے خود براہ راست کریں۔ تاریخ کا درست فہم ہی کشمیر کی وحدت اور مکمل آزادی کی راہ متعین کر سکے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے