کیا ہم آزاد ہیں

پاکستان یوں تو 1947ء میں انگریز کے چنگل سے آزاد ہوا تھا مگر کیا پاکستان واقعی ایک آزاد ملک ہے ؟

یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جب بھی اس سوال کو سوچا جاتا ہے تو انکار نفی کی صورت میں ہی ملتا ہے۔

پاکستان کی آزادی کے ابتدائی ایام سے لیکر آج تک کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پاکستان کسی بھی فیلڈ میں ایک آزاد ملک نہیں لگتا۔

اسکی وجہ یہ ہیکہ پاکستان کی بھاگ ڈور روز اول سے ہی غیرآزاد لوگوں کے ہاتھ میں رہی۔

کوئی بھی شعبہ ہو، اس شعبے سے متعلق تمام افراد کبھی بھی آزاد نہیں رہے، وہ لوگ یا تو مذہبی و سماجی طور پر غلام تھے یا پھر کسی بیرونی قوت کے۔

اس ملک کا المیہ یہ رہا کہ ایوان شاہی کیلئے بھی ہمیشہ ایسے لوگوں کا انتخاب کیا گیا جو کسی بیرونی قوت، سماج یا مذہب کے غلام تھے اور ہیں۔

حکومت کےعلاوہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں بھی ہم آزاد نہیں۔

مثلا تعلیم جو کہ کسی بھی قوم کی ترقی اور بقا کیلئے لازمی عنصر ہوا کرتی ہے، اس شعبے میں ہماری آزادی کا یہ حال ہیکہ ہم آج بھی وہ کتابیں پڑھتے اور پڑھاتے نظر آتے ہیں جن سے نہ دنیا کا کوئی فائدہ وابستہ ہے اور نہ دین کا۔

ہمارا نصاب تعلیم آج بھی انہی نقشوں پر چل رہا ہے جن پر قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں تھا۔
اور جب کبھی نصاب کو تبدیل کرنے کی بات آتی بھی ہے تو مذہبی یا سماجی غلام اس تبدیلی کےآڑے آ جاتےہیں۔

لہزا یہی وجہ ہیکہ ہمارا قومی مستقبل یعنی ہماری نوجوان نسل آج بھی اعلی تعلیم کیلئے ملک سے باہر جاتی ہے اور آخرکار وہیں کی ہو کر رہ جاتی ہے۔

اسکے علاوہ پاکستان کو بنانے کے بڑے مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جہاں ہر شخص اپنے دین کے مطابق آزای سے اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکے، مگر انتہائی افسوس کیساتھ کہنا پڑھتا ہیکہ اس تناظر میں بھی ہمارے ملک کی کمان ایک ایسی شدت پسندانہ اور غلامانہ سوچ کے حامل لوگوں میں رہی جنہوں نے کبھی بھی پاکستان کو ایک آزاد مملکت تسلیم نہیں کیا۔

بات جہاں قانون اور انصاف کی آتی ہے تو ہمارے ملک کا قانون امیروں، حکمرانوں، وڈیروں اور با اثر لوگوں کی لونڈی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
ہمارے ملک کا قانون غریبوں اور اوپر تک پہنچ نہ رکھنے والوں پر تو لاگو ہوتا ہے مگر جب بات کسی "بڑے” اور بیرونی قوتوں کے غلام کی آتی ہے تو پھر ریمنڈ ڈیوس جیسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ہم جمہوریت کو آزادی سمجھتے ہیں مگر ہمارے ملک کے ایک اکثریتی طبقے نے جمہوریت کو مجبوری میں قبول کیا ہوا ہے ، باقی جو جمہوری طبقہ ہے وہ بھی اتنا آزاد اور جمہوریت پسند ہے کہ انکے اوپر حکومت کرنے والے اکثر حکمران زوربازو کے دم پر پورے ملک پر مسلط رہے ہیں۔۔۔!!

اسکے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو آزادئ رائے اور جمہوریت کو کفر سمجھتا ہے اور شخصی آزادی و جمہوریت کی بات کرنے والوں کو وہ آج بھی نشان عبرت بنانا ضروری، فرض عین اور باعث ثواب سمجھتا ہے۔

میڈیا جس کو کسی بھی معاشرے میں آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے، اسکی آزادی کا ہمارے ہاں یہ حال ہیکہ الامان والحفیظ۔

میڈیا جب کبھی آزادی کے لیے آواز اٹھاتا ہے تو ہم مذہب، حب الوطنی یا غیرت کے نام پر اسکے خلاف جہاد کرنےکھڑے ہو جاتے ہیں۔

الغرض زندگی کے کسی بھی شعبے میں چاہے وہ خارجی امور سے متعلق ہو یا داخلی امورسے، پاکستان نہ آج سے پہلے آزاد تھا اور نہ آگے آزاد ہوتے دکھتا ہے۔

ہماری مجموعی کیفیت اور ایک بھیانک و کڑوی حقیقت یہ ہے کہ ہم آزاد نہیں ہیں، لہذا یہ بات ہمیں مان لینی چاہئے کہ ہم آج سے ستر سال پہلے بھی غلام تھے اور اگر یہی حالات رہے تو ستر سال بعد بھی غلام ہی رہیں گے البتہ ہمارے آقاؤں کے چہرے بدلتے رہے ہیں اور وہ بدلتے رہیں گے ، جو کبھی تو غیر ملکی قوتوں کے غلاموں کے چہرے ہوں گے اور کبھی مذہب کے نام پر لوگوں کو غلام رکھنے والوں کے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہیکہ اس حقیقت کو قبول کرتے ہوئے آگےبڑھا جائےاور ان غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی سعی کی جائے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں بھی شاید غلام ابن غلام ہی رہیں۔

اگر ایسا ہوا تو ہم انکے مجرم ٹھہریں گے اور وہ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے کیونکہ آزادی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہوا کرتی ۔۔۔۔!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے