مشکلات میں گھرے وزیرِ اعظم کو مشورہ

نواز شریف کے لیے معاملات اور بھی زیادہ بگڑتے جا رہے ہیں مگر شاید وہ اب بھی اس بات سے انکاری ہیں۔

صورتحال کا تعلق صرف عمران خان کی جانب سے دارالحکومت بند کرنے سے نہیں، بلکہ فوج کے ساتھ بڑھتے ہوئے کشیدہ تعلقات سے ہے جو کہ ان کی سب سے بڑی پریشانی کی وجہ ہونی چاہیے۔ 2014 کے دھرنے کے دوران نواز شریف کو جس صورتحال کا سامنا رہا، اس کے مقابلے میں اس بار صورتحال کہیں زیادہ سنجیدہ ہے۔

افواہیں موجود ہیں کہ 2 نومبر سے پہلے نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان کیا جائے گا، مگر اس سے معاملات میں بہتری آنے کا امکان نہیں ہے۔ سکیورٹی صورتحال پر اعلیٰ سطحی ملاقات کی کارروائی میڈیا میں ’لیک‘ ہونے والا ایک غیر حل شدہ مسئلہ آرمی چیف کی تبدیلی سے ٹل نہیں جائے گا۔

چنانچہ انتہائی مشکلات میں گھرے وزیر اعظم کے لیے عمران خان کے دھرنے کا اس سے زیادہ بدتر وقت نہیں ہو سکتا تھا۔

اس بات کا بھی امکان نہیں کہ حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتیں نواز شریف کو پاناما اسکینڈل، جس میں ان کے گھر والے شامل ہیں، میں عدالتی کارروائی پر رضامند کیے بغیر ان کی مدد کو آگے آئیں گی، جس طرح وہ 2014 میں آئی تھیں۔ بال اب ان کے کورٹ میں ہے۔

اب عمران خان اس سفر میں تنہا بھی نہیں، بلکہ بالآخر طاہر القادری بھی 2 نومبر کے مارچ میں شرکت کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

بلاشبہ ان کی جماعت مرکزی دھارے کی سیاسی جماعت نہیں، مگر اتنی جارحانہ ضرور ہے جتنے وہ خود دکھائی دیتے ہیں۔ مفتی صاحب بڑی تعداد میں اپنے انتہائی پرعزم پیروکاروں کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کسی بھی قسم کے محاصرے کے لیے بھرپور طاقت ثابت ہوں گے۔

مگر جو سب سے زیادہ تشویشناک بات ہے، وہ چند انتہاپسند مذہبی گروہوں کی جانب سے اس چڑھائی میں شمولیت کی اطلاعات ہیں، جو کہ ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی کی حمایت میں ایسا کر رہے ہیں مگر وہ اس آتے ہنگامے کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

خود ساختہ دفاع پاکستان کونسل، جس میں حافظ سعید اور چند کالعدم جماعتوں کے لیڈران شامل ہیں، بھی سڑکوں پر آنے کا اعلان کر چکی ہے۔

یہ بات یقیناً داخلی اور خارجی وجوہات کی بنا پر ایک سنجیدہ تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اس طرح پاکستان کی جانب سے تمام اقسام کے دہشتگرد اور انتہا پسند گروہوں کو ختم کرنے کی کوششوں پر بین الاقوامی برداری کی جانب سے شکوک و شبہات کو مزید تقویت ملے گی۔

بے قابو مشتعل افراد کے دارالحکومت پر دھاوے کے نتائج انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی طاقت کا استعمال صورتحال کو مزید بگاڑ دے گا، جو حکومت کی مشکلات کو مزید بدتر کردے گا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ انتظامیہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت ریڈ زون کی حفاظت کے لیے آرمی کو بلانے پر بھی غور کر رہی ہے۔

مگر کمزور سول ملٹری تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اقدام بھی غیر متوقع مشکلات کے بغیر نہیں ہے۔ اس کشیدہ صورتحال میں جب مشتعل افراد شہر کو مفلوج بنا رہے ہوں گے، تب کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا۔

وہ خبر، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس اخبار کو دانستہ طور پر فراہم کی گئی، کشیدہ سول ملٹری تعلقات کا واضح اظہار ہے۔ یہ بھی الزام تراشی کے اس کھیل کا ہی حصہ لگتا ہے جو کہ ایک طویل عرصے سے میڈیا پر کھیلا جا رہا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ناکامی کا ذمہ دار کون ہے۔ کئی مواقع پر فوج نے عوامی سطح پر "حکومتی نااہلی” کی مذمت کی ہے۔

سویلین حکومت پر تنقید کچھ ٹی وی اینکرز اور تجزیہ نگاروں کے ذریعے مسلسل نشر ہوتی رہی ہے۔ یہ یقیناً نواز شریف حکومت کے لیے ایک پریشان کن بات ہے جو کہ یہ مانتی ہے کہ یہ حکومت کے خلاف انٹیلیجنس ایجنسیوں کے احکامات پر چلائی جانے والی ایک سوچی سمجھی مہم ہے۔

کئی لوگوں کے لیے، ڈان کی خبر نے شاید ہی کہانی کا دوسرا رخ پیش کیا ہو۔ وزیرِ اعظم ہاؤس کی جانب سے تردید بھی صورتحال کو ختم کرنے میں ناکام رہی کیوں کہ فوج چند لوگوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ نواز حکومت کے لیے اپنی کابینہ کے وزراء یا افسران میں سے کسی ایک کے خلاف بھی اقدام کا مطلب اپنا جرم تسلیم کرنا ہوگا۔

حکومت میں ایک مضبوط رائے یہ بھی ہے کہ مسئلے کی شدت وقت کے گزرنے اور اس مہینے کے آخر میں نئے آرمی چیف کے اعلان کے ساتھ کم ہو جائے گی۔ کافی لوگ ایسا مانتے ہیں کہ مسئلہ بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور حکومت میں کوئی بھی ایسا فرد نہیں جو مسئلے کا ذمہ دار قرار پائے۔ مگر فوج اس طرح نہیں سوچتی۔

جنرل راحیل شریف کو نومبر کے تیسرے ہفتے میں ریٹائر ہونا ہے۔ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بارے میں قیاس آرائیاں پہلے سے ہی دفن ہو چکی ہیں مگر اپنے جانشین کو کمان سونپنے تک وہ کمزور نہیں بنے رہیں گے۔

ایک اور چیز جو نواز شریف اپنے ماضی کے تجربات کے باوجود سمجھنے میں ناکام رہے ہیں، وہ یہ کہ یہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک ادارے کا معاملہ بھی ہے۔

شاید یہ بات سچ ہو کہ ایک منتخب سویلین حکومت کے خلاف کچھ کرنے میں فوج کی اپنی حدود ہیں، مگر عدم اعتماد کی بڑھتی ہوئی فضا اور سیاسی کشیدگی کے موقعے پر حکومت کی حمایت سے پیچھے ہٹ جانا یقیناً نواز شریف کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔

علاازیں اس تنازعے سے ملک میں جاری عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کوئٹہ اور ملک کے دیگر حصوں میں عسکریت پسند تشدد کی حالیہ لہر مفلوج پالیسی کی جانب ایک اور اشارہ ہے۔ حکومت ہر حادثے کے بعد جاگتی ہے، اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کا عزم دہراتی ہے، اور پھر سو جاتی ہے۔

کوئٹہ پولیس اکیڈمی میں ہونے والا دہشتگرد حملہ جس میں 60 لوگ مارے گئے، ایک اور افسوسناک یاد دہانی ہے کہ دہشتگردی کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔ بلاشبہ سول عسکری اختلاف اس بڑے خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری باہمی اور مربوط لائحہ عمل کی عدم موجودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ الزام تراشی کے کھیل سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اپنے اختلافات کو دور کرنے کی ذمہ داری سویلین اور فوجی دونوں قیادتوں پر عائد ہوتی ہے۔

ملکی جمہوری نظام کے لیے خطرہ بنی ہوئی سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ کوئی بھی فرد یقینی طور پر عمران خان کی اشتعال انگیزی اور دارالحکومت پر دھاوا بولنے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ مگر حکومت کو بھی وزیر اعظم کے گھر والوں کے بیرون ملک اثاثوں اور پیسوں کی منتقلی کے معاملے پر احتساب کو نظر انداز کرنے کے لیے اس چیز کا فائدہ نہیں اٹھانا نہیں چاہیے۔

نواز شریف کے لیے اس مشکل سے نکلنے کا ایک راستہ، پاناما اسکینڈل کی آزادانہ تحقیقات کی شرائط پر حزبِ اختلاف سے معاہدے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

جب بھی سیاستدان اپنے اختلافات جمہوری طریقے سے حل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تب ایک ماورائے آئین مداخلت کا خطرہ رہتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے