خدا بخش کا میڈ ان چائنا حلوہ

گوادر کا میرا پچھلا چکر مارچ میں لگا تھا جب وہاں کے کچھ مقامی سماجی کارکنوں نے کراچی لٹریری فیسٹیول سے متاثر ہو کر گوادر بک فیسٹیول کا اہتمام کیا۔حسبِ توقع نوجوان کثیر تعداد میں تھے۔وہ خرید تو کتابیں رہے تھے مگر گفتگو کا محور چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور تھا۔سوالیہ چہروں کی سوالیہ گفتگو۔

ہم اس منصوبے میں کہاں فٹ ہوں گے ؟ کیا ہمیں اپنے گھر اور کاروبار چھوڑنے پڑیں گے ؟ ہمیں کہاں منتقل کریں گے ؟ اگر ملازمت ملی تو کس طرح کی ملے گی ؟ شاید قلیوں کی، ڈرائیور کی، چوکیدار کی، تعمیراتی مزدور کی۔

اگر حکومت واقعی ہمارے لیے کچھ کرنا چاہتی تو کرنے کا وقت آج سے دس برس پہلے تھا۔ اس وقت اگر یہاں کوئی معیاری پولی ٹکنیک انسٹی ٹیوٹ، انجینیئرنگ کالج، لینگویج انسٹی ٹیوٹ قائم ہو جاتا تو آج ہم اس قابل ہوتے کہ میگا منصوبے کا کارآمد حصہ بن سکیں مگر یہاں تو آج بھی جو ایک ڈگری کالج ہے اس میں دوپہر بارہ بجے کے بعد الو بولنے لگتا ہے۔

ایک جدید ہسپتال کی عمارت پانچ برس سے مریضوں اور ڈاکٹروں کے انتظار میں کھڑی ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ شاید یہ اس لیے بنائی گئی کہ دنیا کو جتایا جا سکے کہ دیکھو ہم نے گوادر میں اتنا جدید ہسپتال بنا دیا مگر گوادری پھر بھی منہ بسورے کھڑے ہیں۔

مقامی مرثیائی نوجوانوں کے بقول جو کچھ بھی تعمیراتی کام ہوا ہے یا ہو رہا ہے اس کا تعلق گوادر بندرگاہ کی ترقی سے ہے گوادریوں کی ترقی سے نہیں۔ کہنے کو گوادر میں ایک بلدیہ بھی ہے۔ جس طرح کے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں اس اعتبار سے تو اس وقت یہاں کی بلدیہ کو بلوچستان کی سب سے امیر بلدیہ ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ مقامی لوگوں کے مشورے سے مقامی ضروریات کی روشنی میں شہری انفراسٹرکچر کی بہتری کا کام تیزی سے کر سکے۔ ایسا کام جسے گوادری اپنا کہہ سکیں۔

مگر گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے ) کے پاس جاؤ تو کہتے ہیں ہم بڑے بڑے کاموں کی پلاننگ کے کام کرتے ہیں۔ شہری مسائل کے لیے بلدیہ کے پاس جاؤ تو بلدیاتی نمائندے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تو اتنا اختیار اور بجٹ بھی نہیں کہ اپنے طور پر ایک گلی پکی کروا سکیں یا کوڑا ہی صاف کروا دیں۔ پھر بھی وفاق سے لے کر جی ڈی اے تک یقین دہانیاں مسلسل ہیں کہ ہمارا مستقبل روشن ہے۔

پہلی بار میں 1998 میں گوادر گیا تھا۔ تب ہر شخص کی حسرت یہ تھی کہ یہاں بندرگاہ بنے تاکہ ہم بھی باقی پاکستان کی ترقی سے جڑ سکیں۔ جب مشرف دور میں کوسٹل ہائی وے بنی تو گوادری بہت خوش تھے کیونکہ کراچی تک کا 20 گھنٹے کا کچے راستے کا سفر آٹھ گھنٹے کی پکی گرفت میں آ گیا تھا۔

مگر ہر ہائی وے کی طرح کوسٹل ہائی وے بھی دو طرفہ تھی۔ بنتے ہی کراچی ، لاہور اور اسلام آباد سے جب اسٹیٹ ایجنٹس گوادر آنے لگے تو مقامی لوگوں نے اپنی زمینیں اپنی محدود سمجھ کے مطابق اچھے داموں فروخت کرنا شروع کردیں اور اسٹیٹ ایجنٹوں نے گوادر کو کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں مستقبل کے دبئی کے طور پر بیچنا شروع کر دیا۔

اس ویرانے میں ایک فور سٹار ہوٹل بھی کھل گیا تو مقامیوں کو پکا پکا یقین ہو گیا کہ اب ان کی قسمت بھی فور سٹار ہونے والی ہے۔ جب چینی گوادر ڈیپ سی پورٹ بنا دیں گے تو سب دلدر دور ہوجائیں گے۔

پھر یوں ہوا کہ جنھوں نے زمینیں بیچ کر پیسہ کمایا ان میں سے زیادہ تر نے گاڑیوں اور شادی بیاہ کے فنکشنز اور کراچی میں گھر خریدنے یا مری اور سوات کی سیر پر اڑا دیا اور کچھ ہی عرصے میں پھر سے گوادری ہوگئے۔

اسٹیٹ ایجنٹس نے بڑے شہروں کے خواب پرست مڈل کلاسیوں کو ‘گوادر سونے جیسی زمین’ سٹہ لگا لگا کر ٹکائی ، جیبیں بھریں اور رفو چکر ہو گئے۔گوادر ڈیپ سی پورٹ بننے کے باوجود کوئی جہاز لنگر انداز نہیں ہوا اور گودی کی کرینوں پر زنگ نے قبضہ کرنا شروع کردیا۔ فور سٹار ہوٹل کاروباری لحاظ سے سرکاری ریسٹ ہاؤس جیسا ہو گیا۔

اور پھر ایک دن اچانک دھم سے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور آ گیا۔گیم راتوں رات کوئٹہ کے سر پر سے گزرتی ہوئی گوادر سے اسلام آباد اور بیجنگ شفٹ ہوگئی۔ کیا کچھڑی پک رہی ہے چند لوگوں کے سوا کسی کے سامنے پوری تصویر نہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سی پیک کمیٹی میں گوادر کا بھی کوئی نمائندہ ہوتا مگر یہ نمائندگی بھی نارووال کے منصوبہ بند منتری احسن اقبال کر رہے ہیں چنانچہ گیم چینجر منصوبے کی گیم تو گوادر میں ہے مگر چینجر اسلام آباد میں اور منی چینجر بیجنگ میں۔

گوادر کے پرانے شہر میں سب سے مشہور دوکان سبز رنگ کا سوغاتی حلوہ بنانے والے خدا بخش کی ہے۔ اس بار خدا بخش کا بیٹا چوبی سٹول پر بیٹھا ہوا گرم گرم حلوہ کاٹ رہا تھا۔میں نے پوچھا دھندہ کیسا چل رہا ہے ؟ کہنے لگا اگر کسی چینی کو میڈ ان چائنا گوادری حلوہ بنانے کا خیال نہ آیا تو خدا بخش کے گوادری حلوے کو کوئی غم نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے