حکومت کو جلدی ہے

لوگ شاید بھول چکے ہیں مگر مجھے آج بھی یاد ہے کیونکہ میری یادداشت اتنی خراب نہیں جو اتنی اہم باتیں بھول جاؤں۔۔ خاص طور پر ماضی کا کوئی ایسا قصہ جو آپ کے حال سے مطابقت رکھتا ہو۔۔ مجھے یاد ہے جب ضیاء ڈکٹیٹر کے طویل دور کے خاتمہ کے بعد پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے دوران سلمان رشدی ملعون کے خلاف احتجاج ہو رہا تھاغالباً یہ فروری 1989 کی بات ہے، اس وقت یہ الیکٹرانک میڈیا نہیں ہوتا تھا۔۔

مساجد اور مدارس کے ہزاروں طلباء پر بلیو ایریا میں گولیاں چلائی گئی تھیں اور معلوم نہیں کتنے بچے شہید ہوئے تھے۔۔سرکاری طور پر چھ افراد مارے گئے تھے جبکہ ایک سو کے قریب زخمی ہوئے تھے مگر غیر سرکاری طور پر شہداکی تعداد بہت زیادہ تھی۔

پھر شاید اکتوبر 1996 کی بات ہے جب قاضی حسین احمد نے پارلیمنٹ سے مستعفی ہو کر بے نظیر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ۔۔ قاضی حسین احمد نے میلوڈی میں واقع جماعت اسلامی کے دفتر کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا۔کنٹینر لگانے کی روایت شاید اسی وقت ڈالی گئی۔ راولپنڈی اسلام آباد آنے والی تمام ٹریفک روک دی گئی۔شہر ی کہیں بھی آنے جانے سے معذور دکھائی دیتے تھے۔ جو شہر سے باہر تھے وہ واپس نہیں آ سکتے تھے اور جو شہر سے باہر جانا چاہتے تھے وہ جانے سے قاصر تھے۔

یہ واقعہ مجھے اس لیے بھی یاد ہے کہ میں نے رات کو اپنے بڑے بھائی کرنل ابرار خان (جو اس وقت کیپٹن تھے )کو رات بارہ بجے فیض آباد سے کوچ میں بٹھایا ۔ اس نے لاہور ڈیوٹی جوائن کرنا تھی۔ صبح اس نے مجھے فون کیا اور بولا یار ۔۔ ساری رات روات میں ہی پھنسے رہے ہیں ، کسی طریقہ سے آ کر لے جاؤ، جگہ جگہ رکاوٹیں تھیں اس لیے میں راولپنڈی کی مختلف گلیوں سے ہوتا مشکل سے روات پہنچا اور اسے لے کر واپس گھر گیا۔ وہاں پولیس والوں سے کیسی کیسی لڑائیاں ہوئیں وہ واقعات پھر کبھی سہی۔

بہرحال جڑواں شہروں کو سیل کروا کے اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے سوچا تھا قاضی صاحب کا دھرنا ناکام ہو جائے گا ۔ کارکنوں کے ساتھ پولیس کی آنکھ مچولی کافی دیر آبپارہ میں چلتی رہی اور پولیس نے ٹکا کر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ قاضی حسین احمد مقررہ وقت پر میلوڈی پہنچے اپنے کارکنوں سے خطاب کیا اور واپس بھی چلے گئے، حکومت نے پھبتیاں کسیں کہ چند لوگوں کے ساتھ خطاب کر کے قاضی صاحب حکومت گرانا چاہتے ہیں۔۔ لیکن لوگوں نے دیکھا کہ حکومت چند دنوں میں ختم ہو گئی۔

میرے جیسے لوگ بھی اس وقت کہہ رہے تھے حکومت نے بلا وجہ راستے بند کر کے دھرنا کو کامیاب بنایا۔۔ اگر جماعت اسلامی کو دھرنا کرنے دیتے تو کیا نقصان ہو سکتا تھا؟ لیکن وہ نصیر اللہ بابر ہوں یا فرحت اللہ بابر ۔۔ دونوں کی منطق اپنی ہی ہوتی ہے۔۔ پھر بھی سانوں کی۔۔

انگریز نے جب کنٹینر بنائے ہوں گے تو کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ ان کا ایسا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ یہ تو سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا ایک محفوظ ذریعہ سمجھا جاتا تھا لیکن اس سے لوگوں کا راستہ بند کرنے کا گر ہمارے لوگوں کو جنہوں نے سکھایا ہے وہ بڑے استاد رہے ہوں گے یعنی سڑک پر چلنے والے ٹرالر اور کنٹینرز سڑک پر آڑے ترچھے کر کے کھڑے کر دیں تو راستہ بند۔۔اگر خالی کنٹینرز میں مٹی کی بوریاں بھی بھر دی جائیں تو مزا دوبالا ہو جاتا ہے یعنی کوئی اسے ہلا بھی نہیں سکتا۔

سب پڑھنے والے سمجھ تو چکے ہوں گے کہ میرا مدعا کیا ہے۔۔ جی ہاں، آج بھی میرا سوال یہی ہے اگر ن لیگ حکومت دھرنا کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے دے تووہ چاہے ایک سو چھبیس دن بیٹھے رہیں ناکام واپس جاتے ہیں بلکہ پھر واپس جعلی پارلیمنٹ میں پہنچ کر خواجہ آصف سے یہ بھی سنتے ہیں کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔۔ لیکن جب آپ جمہوری دور میں پرامن احتجاج کرنے والوں کو طاقت سے روکیں توپھر آپ کو بھی کہا جا سکتا ہے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے لیکن کہاں ہوتی ہے؟

راولپنڈی میں عوامی مسلم لیگ کا جلسہ ہونا تھا جس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بھی شرکت کرنا تھی لیکن شاید حکومت کو کچھ اور ہی منظور تھا، یہ جلسہ روکنے کے لیے پوری طاقت لگا دی گئی۔ پانچ مرلہ کی لال حویلی کو جانے والا راستہ روکنے کے لیے کئی کلومیٹر راستہ بند کر دیا گیا۔ جگہ جگہ کنٹینر کھڑے کر دیئے گئے۔ بوہڑ بازار کو بھی کراچی ڈرائی پورٹ بنا دیا گیا جہاں ہر طرف کنٹینر ہی کنٹینر تھے۔

اس کے باوجود شیخ رشید احمد موٹر سائیکل پر بیٹھ کر پہنچ گئے ، ایک ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی وین پر بیٹھ کر سگار سلگایا ، تقریر کی اور پھر کھسک لیے۔۔ لیکن اس تھوڑی سی دیر میں وہ حکومت کی تمام رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ تمام منصوبہ بندی کے ساتھ بھی وہ کر گئے کہ جو عمران خان ایک سو چھبیس روز میں نہیں کر سکا۔۔

کوئی حکومت سے پوچھے، شہر بند کرنے کا منصوبہ تو عمران خان کا تھا، شیخ رشید کا تھا، انہیں عدالت نے روک دیا لیکن آپ نے خود سارا شہر اپنے ہاتھوں بند کر دیا اور شیخ رشید کو ایک بڑا ہیرو بنا دیا۔۔ کل تک جس کے آفیشل فیس بک پیج پر لائیکس کی تعداد چند سو تک تھی آج وہ کئی ہزار تک پہنچ چکی ہے۔۔

رانا ثناء اللہ اور زعیم قادری چاہے ٹی وی چینلز پر جو بھی بڑھکیں ماریں لیکن ایک بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ حکومت چاہے جس کی بھی ہو، اس کے مشیر ہر دور میں وہی رہتے ہیں۔جو وہ چاہتے ہیں وہ کراتے ہیں اور حکومت اپنی غلطیوں کے باعث خود گڑھے میں گر جاتی ہے۔۔ آج تو ہم نے خود دیکھ لیا۔۔ رہائشی علاقوں میں شیلنگ سے کیا شیخ رشید احمد کو وہاں آنے سے کوئی روک سکا؟ نہیں۔۔ لیکن اتنا ضرور ہوا کہ میرے ساتھیوں کو کئی گھنٹے شیلنگ کے گندے دھوئیں میں رہ کر رپورٹنگ کرنا پڑی۔۔ اس سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔

میں سارا دن دفتر میں رہا اور رات کو گھر آ گیا۔۔ لیکن میری بھی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ آنسو ۔۔ شیلنگ کے نہیں تھے بلکہ وہ معصوم مجھے رلا گیا جسے اس دنیا میں آئے صرف تین روز ہوئے تھے اور وہ بھی شیلنگ کے باعث دم توڑ گیا۔۔ شرم ۔۔ حیا ۔۔ یہ سارے الفاظ ان لوگوں کے لیے چھوٹے ہیں۔۔ کس کو الزام دیں، کس کو قصور وار ٹھہرائیں۔۔ عمران خان، شیخ رشید احمد۔۔ یا پھر نواز شریف اور شہباز شریف پر۔۔ اس ننھے منے پھول کا خون پکار رہا ہے۔۔ اور مجھے یوں لگ رہا ہے اس دھرنے کا انجام بھی ویسا ہی ہو گا جیسے قاضی کے دھرنے کا ہوا تھا۔۔

اس وقت بھی حکومت کو جلدی تھی ۔۔۔ آج بھی لگتا ہے حکومت کو جلدی ہے ،جانے کی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے