پش اپس ،ڈبل شاہ او ر بے چاری جمہوریت

یعنی اب کھلاڑیوں کے پش اپس سے بھی ہماری جمہوریت کو خطرہ ہے ۔جمہوریت نہ ہوئی ،کسی گاوں کی کوئی الہڑ ،نوجوان اورخوبصورت دوشیزہ ہوگئی جس کے بھائیوں اورہر چاچے مامے کو ہر ایک جوان اور بوڑھے کی نظر وں میں اس کے لئے عشق و ہوس نظر آتی ہے اور یوں ہر وقت اُس بے چاری کی عزت خطرے میں رہتی ہے۔

خبر آئی ہے کہ معزز پارلیمان کے ایک معزز رکن رانا افضل نے دوران اجلاس کرکٹ کھلاڑیوں کے جیت کے بعد پش اپس لگانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ کھلاڑی پش اپس لگا کر کس کو کیا اشارہ دے رہے ہیں؟؟؟ اسی اجلاس میں ایک اورمعزز رکن پارلیمان چوہدری نذیر نے کھلاڑیوں کومشورہ دیا ہے کہ وہ پش اپس کی بجائے میچ جیتنے یا سینچری اور اچھی بولنگ کی صورت میں نوافل ادا کیا کریں۔مشورہ تو اچھا ہے بلکہ بطور مسلمان بہترین ہے لیکن وہ کیا ہے کہ آئی سی سی دوران میچ کسی کھلاڑی کو نوافل ادا کرنے کی اجازت دے گی ؟نوافل ادا کرنے کے لئے سب سے پہلے تو کھلاڑی کو ڈریسنگ جا کر وضو بنانا پڑے گا کیونکہ دوران کھیل اب ہر وقت تو وضو سے رہا نہیں جا سکتا اور اس کے لئے میچ روکنا پڑے گا جس کی میرے خیال میں آئی سی سی ہرگز اجازت نہیں دے گی اور یوں کفر واسلام کے درمیان ایک اور معرکہ برپا ہوجائے گا اور ہوسکتا ہے کہ ہمارے مفتیان کرام سرے سے کرکٹ پر ہی پابندی کا فتوی لگادیں ( یا کم از کم ہمارے جہادیوں (فسادیوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا ) کو جہاد اور چندہ اکٹھا کرنے کے لئے ایک اور میدان تو مل ہی جائے گا )۔

اب اگر کھلاڑی پش اپس لگا کر اپنے ٹرینر اور اپنی ہی فوج کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے ؟؟؟ مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ چور کی ڈارھی میں تنکاتو یہی حال ہماری جمہوریت اور جمہوریت پسندوں کی ہے ۔پہلی بات تو یہ کہ اگر فوج نے کچھ کرنا ہوتا تو میاں نواز شریف کی حکومت ہر دوسرے تیسرے ہفتے ان کو یہ موقع فراہم کرتی رہتی ہے ،سرل المیئڈا والی کہانی تو ابھی کل کی بات ہے جس کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔(ایک اطلاع کے مطابق اس معاملے میں جس کو قربانی کا بکرا بنا یا جارہا تھا اُس نے تو سیدھاسیدھا کہہ دیا ہے کہ ہم تو ڈوبیں گے صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کی پریشانی دوگنی ہوگئی ہے )۔دوسری بات یہ کہ جب فوج کچھ کرتی ہے تو اس کو اشاروں کنایوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور کھلاڑیوں کے اشاروں اور پش اپس کی تو بلکل بھی ضرورت نہیں ہوتی ورنہ عمران خان کے اشارے تو اشارے نہیں ہوتے ، پوری دعوت ہوتی ہے جس کے لئے وہ اہتمام بھی پوری تیاری سے کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی دعوت قبول نہیں کی جاتی ۔

عمران خان بھی پاکستانی سیاست کے ایک منفرد کردار ہیں جو کرپشن کے خلاف جنگ کرنے کے لئے کرپشن کنگز کو ساتھ لے کر نکلے ہیں ۔مانا کہ عمران خان کے دامن پرمالی کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہوگا (اخلاقی کرپشن کی باتیں اور الزامات اُن پر لگاتے رہے ہیں )ویسے ان کو مالی کرپشن کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے ۔جہانگیرترین اور علیم خان کی صورت میں اُن کو تیار اے ٹی ایمز مشنیں دستیاب ہیں ۔یہ ٹھیک ہے کہ کپتان اس پارٹی کے سربراہ ہیں جو خیبرپختونخوا میں برسراقتدار ہے لیکن وہاں بھی سب اچھا نہیں۔یہ بھی ٹھیک کہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے تقریبا آزاد کر دیا گیا ہے لیکن وہ احتساب کمیشن کے ڈی جی لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ حامد خان نے اپنے عہدے سے جو استعفا دیا تھا تو سیاسی مداخلت ہی کی وجہ سے دیا تھا ۔پی ٹی آئی کے اپنے منسٹرز وزیراعلی پرویز خٹک پر کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات لگاتے رہے ہیں ۔خان صاحب نے خیبرپختونخوا میں یکساں نظام تعلیم کی بات کی تھی مگر صوبے میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا بیڑا انہوں نے جن صاحب کے ہاتھوں میں دیا ہے ایک اطلاع کے مطابق ان کے قریبی رشتہ دار صوبے بھر میں پرائیوئٹ سکولز اورکالجز کا اپنا ایک معروف چین رکھتے ہیں۔اسی طرح سپیکرصوبائی اسمبلی اسد قیصر بھی صوبے میں پرائیوئٹ سکولز و کالجز کاایک معروف چین چلا رہے ہیں توایسے میں عمران خان کا کساں نظام تعلیم کا خواب کیونکر پورا ہوگا؟؟

میں نے عمران خان کوپاکستانی سیاست ایک منفرد کردار اس لئے کہا کہ وہ فل بدیہہ بولتے ہیں اور ایسا بولتے ہیں کہ مخالف کا خون جلا کر رکھ دیتے ہیں (یہ الگ بات کہ سیاسی طور پر وہ خود کو تنہا کرتے جا رہے ہیں اور جو بھی سیاستدان ان کے آس پاس موجود ہیں سب موقع پرست واقع ہوئے ہیں )اب گزشتہ دنوں ہی خان صاحب نے میڈیاٹاک کے دوران پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوذیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو ڈبل شاہ کے نام سے پکار ا اور کہا کہ کرپشن کرنے والوں نے ان کے خلاف اتحاد بنا رکھا ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ایسا چیئرمین نیب جس کی تقرری میا ں نواز شریف او ر خورشید شاہ نے مل کر کی ہو وہ کیسے ان کے خلاف کارروائی کرے گا۔عمران خان کا مزید کہناتھا کہ وزیراعظم پر کرپشن کے چودامقدمے ہیں اور اسی طرح خورشید شاہ پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں تو یہ دونوں ملکر کیسے چیئرمین نیب کا تقرر کرسکتے ہیں؟؟؟؟

اس کے ردعمل میں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بے لچک رویے کی وجہ سے حکومت کے لئے آسانیاں پیدا ہور ہی ہیں اور ان کا رویہ اپوذیشن کے اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔اپوزیشن لیڈر کا مزید کہناتھا کہ عمران خان کی وجہ سے نظام کو خطرات لاحق ہیں اور یہ کسی بھی ماورائے آئین تبدیلی کے ذمہ دار خان صاحب ہونگے ۔دھرنے کے دوران پی ٹی آئی کارکنوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی انہوں نے کپتان کے سر تھوپ دی اور کہا کہ دوران دھرنہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو تمام ذمہ داری پی ٹی آئی کے قیادت کی ہوگی ۔

اب ذرا بات کرتے ہیں بے چاری جمہوریت کی جس کو ہر طرف سے خطرات لاحق ہیں اور کسی چھوئی موئی حسینہ کی طرح حیران و پریشان کھڑی اپنے سب بھائیوں اور چاچے ماموں کی حرکات دیکھ رہی ہے۔ایک طرف تو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت دیگر رہنماوں کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت بچانے کے لئے سڑکوں پر نکلے ہیں اور ان کے احتجاج اور دھرنے سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں دوسری جانب وفاقی حکومت کے وزارء اور مسلم لیگ ن کے رہنما پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے اور احتجاج کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان کسی تیسری قوت کی ایما پر جمہوریت کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور ان کے دھرنے کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔

اپوذیشن بھی جمہوریت کو بچانے میں اپنے کردار کا رونا روہی ہے اور سید خورشید شاہ کی ہر دوسری بات اور ہر دوسرے بیان میں جمہوریت کے خطرات کا ذکر لازمی ہوتا ہے ۔جب بھی تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف کرپشن اور دیگر الزامات پر تنقید اور احتجاج کرتے ہیں تو پیپلزپارٹی کو جمہوریت کو درپیش خطرات یاد آجاتے ہیں اور یوں وہ صرف زبانی جمع خرچ کرکے کرپشن کے خلاف احتجاج میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔
جمہوریت کے خطرات سب سے نزدیک الگ الگ ہیں ، عمران خان خان نواز شریف کو سیکیورٹی رسک قرار دیتے ہیں جبکہ نواز شریف اینڈکمپنی کے نزدیک جمہوریت کے لئے سب سے زیادہ خطرے کا موجب عمران خان اور ان کا احتجاج ہے ۔تیسرے جانب پیپلزپارٹی تحریک انصاف کے ساتھ بھی جانا چاہتی ہے اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف کھل کر احتجاج سے بھی اجتناب کرتی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے