کسی مرد کو بلاو

کیا بنی گالی میں بیٹھی پردہ نشین بیبیوں میں اتنی جرات بھی نہیں ہے کہ حکومتی درندگی کے شکار اپنے دو کارکنان کے جنازوں کو کندھا دینے چلے جائیں؟
ان کی آنیاں جانیاں صرف پریس کا نفرنسو ں تک محدود ہیں.

مغلوں کے زوال کے زمانے میں محل میں سانپ آگیا. ساری کنیزیں چلانے لگیں ” کسی مرد کو بلاو”. ایک شہزادہ بھی وہیں تھا وہ بھی چلا رہا تھا :کسی مرد کو بلاو.

بنی گالہ میں بیٹھی قیادت کو آج سڑکوں پر کارکنان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا. شاہ محمود قریشی کو ملتان سے کارکن لانے چاہئیں تھے. علیم خان کو لاہور ہونا چاہیے تھا. جہانگیر ترین کو لودھراں سے جلوس لے کر چلنا چاہیے تھا. اسد عمر کو اپنے حلقے میں کہیں ہونا چاہیے تھا جیسے شیخ رشید اپنے حلقے میں موجود ہیں. لیکن ہم دیکھ رہے ہیں یہ قائدین انقلاب زرق برق ملبوسات پہنے بنی گالہ میں آ کے بیٹھ گئے. تھوڑی دیر بعد کولہے مٹکاتے ایک قائد انقلاب آتا ہے اور پریس کانفرنس جھاڑ کر چلا جاتا ہے. حال یہ ہے کہ پورے ملک سے صرف ایک پرویز خٹک ہے جو قافلہ لے کر چلا ہوا ہے. باقی سب مجنوں بنی گالہ میں موج فرما رہے ہیں.

بنی گالہ کے درودیواد کو زباں ملے تو چیخ چیخ کر کہیں: کسی مرد کو بلاو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے