شمع رسالت کا پروانہ،غازی علم الدین شہید

بلاشبہ خاتم الانبیاء،فخر انس وجن ،امام الانبیاء ،محبوب خالق کائنات حضرت محمد ﷺ کی محبت جزو ایمان ہے،عمل کے اعتبار سے کمزور ترین مسلمان کے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں عشق نبی ﷺ کی اتنی شدید چنگاری دھک رہی ہوتی ہے کہ جب وہ سہلگتی ہے تو ہر شاتم رسول کو جلا کر راکھ کردیتی ہے،تاریخ اسلام ایسے ایمان افروز سینکڑوں واقعات سے عبارت ہے،برصغیر کی تاریخ میں ان عظیم انسانوں میں نمایاں نام غازی علم الدین شہید ؒ کا ہے۔

غازی علم الدین شہید ؒ کی پیدائش لاہور کوچہ سواراں کے ماہر بڑھئی (لکڑی کا کام کرنے والے)طالع مند کے ہاں 3دسمبر1908 ؁ء بمطابق 8ذیقعدہ1366 ؁ھ کو ہوئی،ضروری دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد والد صاحب کے ساتھ اسی پیشہ سے منسلک ہوگئے،ایک عرصہ تک بنوں بازار کوہاٹ میں فرنیچر سازی کا کام کرتے رہے ،آپ ایک عام ماہر فن کی طرح شب وروز محنت مزدوری کرنے والے ایک صالح نوجوان تھے۔

غازی علم الدین شہیدؒ کی زندگی میں انقلاب و تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب1923 ؁ء میں مہاشہ کرشن مدیر”پرتاب "لاہورنے مسلمانوں کی محبتوں کے مرکز رسالت مآب حضرت محمد ﷺ پر حملہ کرتے ہوئے ایک گستاخانہ کتاب "رنگیلا رسول”لکھی ،جس کو اس نے اپنے نام کے بجائے ایک فرضی نام "چموپتی لال ایم اے”سے راج پال ناشر ہسپتال روڈ لاہور سے شائع کروایا،منظم انداز میں اس کتاب کو پورے ہندوستان میں تقسیم کروا کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ،ملک کے طول وعرض میں احتجاج و مظاھرے شروع ہوئے تو ملعون راجپال کوفرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے جرم میں گرفتار کرکے دو سال قید اور ایک ہزار جرمانے کی سزا سنائی گئی مگر متعصب ہندو چیف جسٹس پنجاب ہائی کورٹ سرشادی لال نے اس مقدمہ سے اسے بری کردیا۔

مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی تھی ۔جب انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جاتے تو احساس محرومیاں جنم لیتی ہیں،یہی کیفیت مسلم نوجوانوں کی تھی ،غیرت ایمانی کی وجہ سے ایک بہادر مسلم نوجوان خدا بخش نے 17ستمبر 1927اورغازی عبدالعزیز نے 19اکتوبر راجپال پر حملہ کیا مگر دونوں بار وہ ملعون بچنے میں کامیاب ہوا۔

4 اور5جولائی 1929 ؁ء کی درمیانی رات دہلی دروازہ لاہور میں منعقد عظیم الشان جلسے سے امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے مفتی کفایت اللہ دہلویؒ اور مولانا احمدسعید دہلوی ؒ کی موجودگی میں خطاب کیا ،غازی علم الدین شہیدؒ بھی جلسہ سننے آئے ہوئے تھے ،امیرشریعت ؒ نے فرمایا”آج مفتی کفایت اللہ ؒ اور مولانا احمد سعید ؒ کے دروازے پر ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور ام المؤمنین اماں خدیجہؓ کھڑی آواز دے رہی ہیں ،ہم تمھاری مائیں ہیں،کیا تمھیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دیں ہیں؟ "شاہ جی نے دروازے کی طرف دیکھ کر پرجوش انداز میں کہا کہ” ارے دیکھو۔۔۔۔۔۔۔!کہیں ام المؤمنین اماں عائشہ صدیقہ دروازے پر تو کھڑی نہیں؟”یہ الفاظ کہنے تھے کہ سامعین کی نظریں دروازے کی طرف اٹھیں اور سارا مجمع تڑپ اٹھا،غازی علم الدین شہیدؒ نے یہیں فیصلہ کر لیا کہ وہ اس گستاخ رسول سے اس زمین کو ضرور پاک کرے گا ۔

غازی علم الدین شہیدؒ نے7اپریل 1929 ؁ء دن ایک بجے راجپال پبلی کیشنزانارکلی پہنچ کر دریافت کیا کہ راجپال کہاں ہے؟ راجپال نے اپناتعارف کروایا ہی تھا کہ آپ نے تیز دھار چھری کے پے درپے وار کرکے اسے جہنم واصل کردیا ۔گرفتاری کے بعد10اپریل کو مقدمہ شروع ہوا،29مئی کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی ،30مئی کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کروائی گئی ،آپ کے وکیل قائد اعظم محمد علی جناح تھے،اپیل کو ہائی کورٹ سے خارج کردیا گیااور 31اکتوبر 1929 ؁ ء کو میانوالی جیل میں آپ کو پھانسی دے دی گئی ، انگریز سرکار نے جسد خاکی کو اپنی تحویل میں لے کر نامعلوم مقام پر دفن کردیا جو مسلمانوں کے لیے باعث تشویش تھا۔4نومبرکو علامہ محمد اقبال اور مولانا ظفر علیؒ خان سمیت مسلم راہنماؤں کے وفد نے گورنر پنجاب سے اس حوالے سے ملاقات کی ،یہ وفد امن کی شرط پر آپ کا جسدحاصل کرنے میں کامیاب ہوا،13نومبر کوآپ کی قبرکشائی کرکے میت کولاہور لایا گیا،نماز جنازہ میں شرکت کے لیے مسلمانوں کا جم غفیرلاہور امڈ آیا،آپ کی نماز جنازہ مسجد وزیرخان کے خطیب قاری شمس الدین کی اقتداء میں چھ لاکھ مسلمانوں نے ادا کی اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ اور مولانادیدار شاہ نے آپ کا جسد خاکی اپنے ہاتھوں سے "میانی صاحب”کے قبرستان میں دفن کیا ۔اس موقع پر علامہ محمد اقبال ؒ نے تاریخی الفاظ کہے” اسی گلاں ہی کردے رہ،تے ترکھاناں دا منڈہ بازی لے گیا”۔

عشق رسالت ﷺ میں اپنی جان سے گزر جانا ہی زندگی ہے ،اس لذت کو غازی علم الدین شہیدؒ نے پالیا تھا،انہیں تحفظ ناموس رسالت کے لیے قربانی کا یہ صلہ ملا کہ علماء و مشائخ اس کے دیدار کے لیے بے تاب نظر آئے،شہادت کے بعد نماز جنازہ میں شرکت کرنا مسلمانوں نے اپنی غیرت ایمانی کا تقاضا سمجھا ،آج بھی عشاق رسالت مآب ﷺ آپ کے مرقد پر حاضری اور فاتحہ خانی کو باعث تسکین دل وجاں سمجھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے