اسباب کو مٹاؤ ورنہ بغاوت پھیل جائے گی.!

خطیب صاحب نے جوشِ خطابت میں فرمایا ..

عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ کھڑا کریں تمام سامعین نے ہاتھ بلند کئے.

اب مولانا صاحب نے فرمایا گستاخِ رسول ہاتھ کھڑا کریں (اشارہ کہیں اور تھا)لیکن 15سالہ معصوم عبداللہ بات سمجھ نا پایا اور ہاتھ بلند کردیا.

مولوی صاحب کو تو گویا مدعا ہاتھ آگیا.

فرمایا ارے دیکھو یہاں گستاخ موجود ہے.

مجمع میں سے آوازیں آئیں،گستاخ،گستاخ.

معصوم عبداللہ گھر کی طرف بھاگ رہاتھا اور اس کے دل ودماغ پر ہتھوڑے برس رہے تھے.

اَس نے ہاتھ کاٹا اور جاکر بھری محفل میں خطیب صاحب کی خدمت پیش کردیا.

یہ واقعہ زیادہ پرانا نہیں بس ایک سال پرانا ہے.

چلیں ایک پرانا واقعہ بھی سن لیں.

ہمارے شہر کے دو مولوی صاحبان تھے.

روز صبح اپنی اپنی مساجد میں لاؤڈ سپیکر کھول کر بیان کرتے اور دلائل کے ساتھ یہ بھی فرماتے.

اگر یہ دلائل غلط ثابت ہوں تو میری ناک کاٹ دیں.

وقت گزرا اور دونوں صاحبان اپنی اپنی طبعی موت بسلامت ناک وفات پائے.

ہاں شاید دونوں کے بیچ اسلام موم کی ناک بنا رہا اور شاید مختلف علماء کے درمیان اب بھی ہے.

یہاں میری مراد تمام علماء کرام نہیں.

علماء میں تو مولانا طارق جمیل صاحب جیسے ہیرے بھی شامل ہیں.

کوئی دوبرس پہلے کی بات ہے کہیں پڑھا تھا شاید نیویارک ٹائمز کی کوئی سٹوری تھی کہ امریکہ اور یورپ میں اسلام جس تیزی سے پھیل رہا ہے اگر ان میں سے 25% لوگ بھی شدت پسندی کی طرف مائل ہوگئے تو یہ 5 ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہیں.

یہاں خود امریکہ اور یورپ کی اسلام کی متعصبانہ سوچ بھی قابلِ تشویش ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں نفرت پھیل رہی ہے لیکن یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اسلام کے اس پھیلاؤ میں کون کونسے عوامل شامل ہیں؟

تو عرض ہے کہ اس میں سب سے بنیادی کردار حضور نبئی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعلی اور بلند اخلاق اور تعلیمات ہیں جو غیرمسلمین کے اسلام قبول کرنے کا سبب بن رہے ہیں ناکہ ہماری متشدد سوچ یا پھر تلوار.

جیسا کہ ہمیں یہ باور کرایا جاتا رہا کہ یورپ و امریکہ آپ کے حسنِ اخلاق سے نہیں بلکہ تلوار سے اور جذبہ جہاد سے ڈرتے ہیں.
توکیا مغربی ممالک میں اسلام تلوار سے پھیل رہا ہے؟

اگر جواب نفی میں ہے تو پھر یہاں تو یہ تھیوری بالکل غلط ثابت ہورہی ہے؟

یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ جہاد اسلام کا رکن ہے ہاں البتہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس کاتعین کون کرے گا؟
اسلامی ریاست یا پھر ہما شما.

یہاں یہ سوال معنی طلب ہے کہ ہم نے اس بڑھتے ہوئے متشدد رویے کی روک تھام کیلئے کیا کردار ادا کیا؟
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے جس کا لازمی نتیجہ تباہی اور بربادی نکلا.

آج بقول محسن نقوی.

سانس لیتے ہیں تو بارود کی بو آتی ہے.
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم
ایک مسافرہیں ، ایک راہی،
جو کہیں رستوں میں بکھر گیے تھے
کہیں رشتوں میں،
کہیں فرقوں میں،کہیں رنگ ونسل میں.
افکار میں، اظہار میں،انتظار میں.
اب شعورِ ذات کا سفر ہے شاید واپسی کاسفر ہے.
اب خود کو سمیٹنا ہے.
جابجا بکھرے ہوئے جسم کو،روح کو،
شاعر نے ایسے ہی موقعہ کیلئے کہا تھا.
لوٹ کے آکے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سرخ تھا اب زرد ہی زرد ہے
اپنے پہلو کو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل تھا جہاں،وہاں اب درد ہی ے

بحمدللہ آج ادارہ "امن وتعلیم "اس فریضے کو بخوبی نباہ رہا ہے جس کا عملی مشاہدہ مجھے حالیہ تین روزہ بین المذاہب ورکشاپ منعقدہ 18/10/2016 تا 20/10/2016 فیصل آباد میں ہوا.

یہاں میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ .
بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے.

بلاشبہ محترم ڈاکٹر محمد حسین صاحب ایک عظیم خدمت سرانجام دے رہے ہیں جس پر وہ اور اَن کے رفقاء کی کوششیں لائک صد تحسین ہیں.
اللہ پاک اِن کی مساعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور ہر طرح کے شرور سے حفاظت فرمائے..
آمین.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے