کلائمیٹ چینج اور اس کے اثرات

اللہ تعالی نے اس دنیا کو ایک خاص نظام کے تحت پیدا کیا ہے اور اس کے اندر چلا رہاہے۔ اگر اس میں تھوڑا خلل یعنی بے ترتیبی پیدا ہو جائے تو اس کے اثرات براہ راست ہر چیز پر دیکھا جا سکتا ہے۔ آج کل دنیامیں اگر ایک طرف سائنس نے بہت ترقی کی ہے اور اگر ایک طرف نئی نئی ایجادات ہو رہی ہے جس سے انسانی زندگی کے کاموں میں بہت حد تک آسانی پیدا ہو رہی ہے تو دوسری طرف اس ایجادات اور آسانی سے انسانی زندگی مشکل میں پڑرہی ہے۔

کلائمیٹ چینج یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے کئی تبدیلیاں پوری دنیا میں رونماہو ئی ہیں جس سے انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی بہت سے نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں ۔ اس کے کچھ اثرات کا ہم قارئین کے لئے ذکر کرتے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے ان بیس سرفہرست ممالک میں شامل ہے جسکو ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کا سامنا ہے ۔اور وہ اس کا باآسانی شکار ہو سکتا ہے اور اس میں کئی تبدیلیاں آسکتی ہے ۔ ان میں سب سے پہلا اثر یہ ہوگی کہ ہمارے شمالی علاقہ جات میں جو برف اور گلیشئرزہے تو وہ اس ماحولیاتی تبدیلی سے پگھل جائے گی تو اس سے پانی کے ذخائرمیں کمی ہو جائیگی کیونکہ ہمارے پاس اتنے مقدار میں ڈیم نہیں ہے کہ یہ پانی وہاں پر جمع ہو جائے اور وہاں ہم اس میں کچھ وقت کے لئے یہ پانی جمع کر سکے اور بعد میں اس کو استعمال کیا جا سکیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے وجہ سے برف کے اس پگھلاؤ میں ہر سال اضافہ ہوگی ۔

دوسری طرف پر ہمارے صحرائی علاقوں میں اس سے خشک سالی کا بھی خطرہ ہوتا ہے اور پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور جب ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ظاہر ہو جائیگی تو پھر اس کو کنٹرول کرنا پاکستان جیسے عریب ملک کے لئے بہت مشکل ہوگا اور ہم نے اس کے کچھ اثرات دیکھ لئے ہے کہ پاکستان میں سات آٹھ سال پہلے جو خشک سالی آئی تھی تو وہ بھی اس کا نتیجہ تھا اور اس سے مال مویشیوں کو اور زراعت کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ اس کے بعد پچلے برسوں تباہ کن سیلابوں سے پاکستان کے تاریخ میں پہلی بار کروڑوں لوگ بے گھر ہو گئے تھے اور اس کے ساتھ زراعت کو شدید نقصان پہنچا تھا ۔ یہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کی تاریخ میں بدترین سیلاب تھا اس کو سپر فلاڈ بھی کہتے ہے کیونکہ یہ 1902 کے بعد پہلی بار ایسابڑا سیلاب تھا۔

ماحولیاتی تبدیلی کے بہت سے عوامل ہے لیکن دنیا میں آج کل جس چیز پرزیادہ زور دیا جارہا ہے وہ ہے گرین ہاوسسز گیسوں کا اخراج اور اس میں کمی کرنا ۔ اس میں سب سے اہم گیس جو اس کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے پر زور دیا جارہاے وہ ہے کاربن ڈائی اکسائیڈگیس ۔ کاربن گیس سے دنیا کے درجہ حر ارت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ اپ سوچتے ہونگے کہ یہ کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کیسے اور کہاں پر پیدا ہو تی ہے اور اس کو کس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

جدید دنیا میں زیادہ تر ممالک توانائی کے ضرورت کو پورا کرنے لئے مختلف چیزوں کا استعمال کرتی ہے جس میں تیل،گیس، لکڑی اور کوئلہ بنیادی چیزیں ہیں ۔ ان چارچیزوں سے بجلی پیدا کی جارہی ہے ۔ آمد ورفت کے لئے گاڑیوں میں استعمال ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس سے کارخانے چلائے جارہے ہیں اور گھریلوں ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔اگر ایک طرف تواس سے لوگوں کے ضروریات پوری ہورہی ہے اور اس کو اس سے روزگار بھی میسر ہے۔ تو دوسری طرف اس سے پیدا ہونے والے کاربن گیس سے جانداروں کی زندگی متاثر ہو رہی ہے اور اس میں بہت سے نئی نئی بیماریاں جنم لے رہی ہے۔

ان بیماریوں میں لشمینیا، کینسر،آنکھوں کی بیماریاں ۔ پھپھڑوں اور چمڑے کے بیماریاں شامل ہے۔ یہ سب بیماریاں ہمارے ملک اور علاقے میں زیادہ ہیں لیکن اس میں لشمینیا کی بیماری اب زیادہ تر خیبر ایجنسی میں موجود ہے جس سے اکثر لوگ متاثر ہورہی ہے، لشمینیا ایک قسم کے مچھر سے لگتی ہے جو جانوروں کے ٖفضلہ میں ہو تی جو خیبر ایجنسی اور افغانستان میں زیادہ ہے یہ بھی ماحولیاتی تبدیلی کے وجہ سے ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلی کے وجہ سے اب ملیریا کے بیماری فریقہ اور ایشیاء میں ابھی بھی جان لیوا بیماری ہے ۔اس سے ہر سال کروڑوں افراد متاثر ہو رہے ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سرطان کا مرض بھی اس کے وجہ سے دن بدن پھیل رہاہے ۔

ان سب مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے پچلے کئی دہایوں سے ماحولیاتی تبدیلی کے روک تھا کے لئے کوششیں ہو ئی تھیں ۔لیکن اس سے کوئی خاطر خواہ نتائیج حاصل نہیں ہوئے تھے جس کی بنیادی وجہ صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک کا کاربن گیس کے مقدار میں کمی نہ کرنا تھا۔لیکن موجود وقت میں موحولیاتی تبدیلی صرف عریب ملکوں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس سے اب ترقیافتہ ممالک بھی متاثر ہونا شروع ہو گئے ہے اس لئے اب اس مسئلہ کے حل اور اس کے روک تھام کے لئے عالمی سطح پر سنجیدہ کو ششوں کا آعاز ہو ا۔

دنیا میں زیادہ تر کاربن گیس ترقی یافتہ ممالک فضا میں خارج کرتی ہے لیکن اس سے زیادہ تر ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہی ہے ۔ ایک سروے کے مطابق دنیا میں کاربن کا زیادہ حصہ چین اوربھارت فضا میں خارج کرتی ہے جس سے فضائی لودگی کے ساتھ ساتھ عالمی درجہ حرارت میں ہر سال اضافہ ہورہی ہے ۔پچلے دہائیوں میں اس کے روک تما م کے لئے جو مختلف اجلاسیں ہوئے تھے تو اس میں متفقہ طور پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا لیکن اب دنیا نے محسوس کیا کہ اس مسئلہ کے روک تھام کے لئے کوئی نہ کوئی متفقہ حکمت عملی ہو نی چایئے جس میں ہر ایک ملک اپنی اپنی زمداری پوری کرسکے اور کوئی اس سے بری الذمہ نہیں ہوں۔

اس مقصد کے حصول کے لئے پچلے سال ایکیس نومبر کو فرانس کے دارلحکومت پیرس میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دنیا کے 195ممالک کے سربراہان مملکت نے شرکت کی اور اس بات پر زور دیا کہ اب وقت آگیاہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر گرین ہاوسسز گیسو کی کمی کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور اس سے اپنے اپ کو برالذمہ نہ سمجھے۔ کافی عور خوص کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ہر ملک کاربن کی مقدار کو کم کریگی اور دنیا کہ درجہ حرارت میں اضافہ کو دو ڈگری سے نیچے رکھا جائے گا اور کوشش کریگی کہ اس کو1.5 ڈگری تک محدود کریگا۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر پانچ سال بعد اس کا جائزہ لیا جائے گا اور 2020 میں ترقی پزیر ممالک کے لئے ایک سو ارب ڈالر امداد فراہم کریگی اور اس میں مستقل اضافہ کیا جائے گا۔اس معاہدے میں 2025کا ہدف مقرر کیا ہے کہ اس تک دنیا کا درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری تک کیا جائے گا 4/22/2016کو دنیا کے 170 ممالک نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں اس تاریخی معاہدے پر دستخط کئے۔ اب امید کی جاتی ہے کہ اس سے دنیا میںیک نئی دور کا آعاز ہو گی اور جاندار ایک صاف ماحول میں سانس لیں گی ۔ آخر میں میں یہ ضرور کہونگا کہ حکومتوں کے ساتھ ساتھ ہر ایک فرد یہ اپنی زمداری سمجھیں اور یہ عہد کرے کہ وہ اپنی ماحول کو صاف رکھیں گے اور وہ زیادہ سے زیادہ درختوں کو لگائینگے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بے جا گیس ،کوئلہ ، لکڑی اور تیل کے استعمال سے اجتناب کرینگے ۔ تاکہ اس ماحول کو مشترکہ طور پر صاف رکھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے