سیاست کرنی ہے تو کالام سڑک بحال کریں

حکمران جہاں ملک میں میٹروٹرین، اورنج ٹرین اور بلٹ ٹرین کے منصوبوں کا جال بچھانے کے دعوے کر رہے ہیں تو دوسری طرف ایشیا کے خوبصورت ترین علاقے کالام کی کھنڈر نما سڑک ان دعووں کا منہ چڑا رہی ہے۔

یہ ایک ایسی سڑک ہے جس پر سفر کرنے سے قبل ایک عدد ٹرانکولازر لینا لازمی سمجھا جاتا ہے تاکہ راستے میں جو ذہنی کوفت کا سامنا کرنا ہے، اس سے کچھ افاقہ ہو۔ سوات کوہستان کی عوام اور لاکھوں کی تعداد میں ان خوبصورت علاقوں کو آنے والے سیاحوں کا رابطہ اس سڑک سے دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ اس سڑک کی بحالی تو کیا ہونی تھی، الٹا دشوار گزار پہاڑیوں سے گزرتی ہوئی اس سڑک کی حالت روز بگڑتی جارہی ہے۔ تھوڑی سی بارش ہوتی ہے تو لینڈ سلائیڈنگ اور پانی کا بہاؤ زیادہ ہونے کے باعث ہفتوں سڑک بند رہتی ہے۔

چند دن پہلے دفتری کام کی غرض سے مینگورہ شہر جانا لازمی تھا، گاڑی مین شاہراہ پر نکلی تو گاڑی کے ساتھ ساتھ ہمارے بدن کے پرزے بھی چیخ اٹھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم گاڑی پر اور سڑک ہم پر سوار ہو چکی ہے۔

جب کیدام کے مقام پر پہنچے تو دریائے سوات میں بہہ جانے کے باعث اتنی تنگ سڑک سے گزرنا پڑا کہ اگر پہیہ ایک انچ ادھر اْدھر ہوجائے تو گاڑی سیدھی دریائے سوات میں جا گرے، اس دوارن اچانک سامنے سے دوسری گاڑی نمودار ہوئی اور ہماری گاڑی سے ٹکرانے سے بال بال بچ گئی۔ ساتھ بیٹھی خواتین و بچوں کی چیخیں نکل گئیں۔ خدا خدا کر کے ایک خطرناک موڑ سے گزرتے تو’تیرے سامنے ہیں آسماں اور بھی ہیں‘ کے مصداق دوسری خطرناک چڑھائی یا موڑ کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ میرے پاس اپنے حکمرانوں کی بے حسی اور اپنی قسمت کو کوسنے کے علاوہ کرنے کو کچھ نہیں تھا، کہ اس خوبصورت ترین علاقے کی سڑک کو حکومت نے جانے کیوں نہ بنانے کی قسم کھائی ہے، جو چھ سال قبل سیلاب میں مکمل طور پر بہہ گئی ہے، جبکہ حکومت نے بحالی کے لیے بیرونی اداروں سے اربوں روپے امداد بھی وصول کر لی ہے۔

ایک طرف حکمرانوں کی جانب سے سماجی و معاشی ترقی کی شاہراہ پر دوڑنے کے لیے شہروں میں بڑے بڑے ہائی ویز، ایکسپریس ویز اور موٹر ویز بنانے کے بلند آہنگ دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے سیاحتی علاقوں کے مواصلاتی نظام پر کسی کی جانب سے نظرالتفات نہیں ڈالی جا رہی؟

ابھی چند دن پہلے صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید صاحب کالام میں جماعت اسلامی کی گرینڈ شمولیتی تقریب میں شرکت کے لیے اسی سڑک سے گزر کر آئے تھے، ایم این اے سلیم الرحمن پی ٹی آئی کی شمولیتی تقریب میں شرکت کے لیے اسی سڑک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر چلے گئے، ممبر صوبائی اسمبلی سید جعفرشاہ اتروڑ سے لے کر گبرال تک ہر مہینے اسی سڑک سے آتے جاتے ہیں۔ مشیر برائے وزیر اعظم پاکستان انجنیئر امیر مقام کا تو اپنا گھر بھی کالام میں ہے، بلکہ یوں سمجھیے کہ امیر مقام خود کالام کا باشندہ ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف جناب عمران خان، وزیر اعلی پروزیز خٹک اور پوری کابینہ کی معیت میں اسی سڑک سے گزر چکے ہیں، اور اس خوبصورت سیاحتی مقام کی حالت زار اپنی آنکھوں سے دیکھ کر چلے گئے ہیں. نہ جانے ہماری قسمت کہاں سوگئی ہے کہ اس پینتیس کلومیٹر سڑک کی تعمیر کے لیے مظفرسید صاحب کے خزانے سے رقم نہیں نکل سکتی، سلیم الرحمن صاحب مواصلاتی کمیٹی کا رکن ہونے کے باوجود قومی اسمبلی میں قرارداد منظور نہیں کرواسکتے، سید جعفرشاہ جو دوسری بار منتخب ہوئے ہیں اوراس حلقے میں تیس ارب سے زائد ترقیاتی کاموں کے داعی ہیں مگر اس سڑک پر تھوڑا سا بھی خرچنے میں ناکام ہیں؟

یہ سیاحتی علاقے معیشت میں انقلاب لاسکتے ہیں لیکن حکمرانوں کی ترجیح تو بس سیاست ہے، شہروں کو چھوڑ کر ان علاقوں میں کیوں کر پیسہ خرچ کیا جائے جہاں شہروں کی نسبت ووٹ بینک آٹے میں نمک کے برابر ہو، جب حکمران و ممبران اسمبلی ’شمولیتی تقاریب‘ یا پھر اس حسین علاقوں میں صرف عیاشیاں کرنے آتے ہیں اور واپس اقتدار کی نرم کرسیوں پر براجمان ہو جاتے ہیں تو کیا پڑی ہے ان کو اس سڑک پر دماغ کھپانے کی؟

سوات کوہستان کی عوام نے حکومتی نمائندوں سے مایوس کے بعد تمام سیاسی، نظریاتی اور ثقافتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس سڑک کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایکا کرلیا ہے، دیر آید درست آید۔ سوات کوہستان کے نوجوانوں نے جو’ آل پارٹیز یوتھ کانفرنس‘ کے نام سے مختلف علاقوں میں کانفرنسز کا آغاز کیا ہے اوراس اہم قومی مسلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے راہیں تلاش رہے ہیں تو امید ہے کچھ نہ کچھ مثبت نتیجہ نکلے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست اپنی جگہ لیکن سوات کوہستان کی عوام کو صرف سڑک ہی نہیں بلکہ تمام اجتماعی مسائل پر سیاست کو خیرباد کہہ کر ایک مٹھی بن جانا چاہیے۔

اور حکمرانوں سے ایک بار پھر ہمدردانہ اپیل ہے کہ جب عوام نے سیاست چھوڑ دی ہے تو آپ بھی سیاست چھوڑ دیں اوراس قومی مسئلے کو سنجیدگی سے حل کریں، اس سے ہمارا، آپ کا اور پورے ملک کا بھلا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے