جرمن ہسپتال میں خزیمہ کی آخری رات

آکسیجن کی نالیاں ناک میں لگی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ سانس اوپر کی طرف یوں کھینچ رہا ہے جیسے پیٹ کے اندر سے کسی نے سانس کو پکڑ لیا ہو۔ جیسے سانس کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر گرنا چا رہے ہوں اور وہ زور لگا کر انہیں اوپر کھینچ رہا ہو۔ وہ سانس یوں کھینچ رہا ہے، جیسے پانی سے بھرا ڈول کنویں سے کھینچھتے ہیں۔ سانس اوپر آتی ہے تو ایک آری کی سی آواز بھی نکلتی ہے، جیسے کسی لکڑی کو کاٹا جا رہا ہو۔

نرس خشک ہونٹوں پر کچھ دیر پہلے ہی کریم لگا کر گئی ہے۔ کھلے منہ کے ساتھ وہ ہوا کے گھونٹ بھرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے حلق (نر خرے) کی ہڈی ایسے اوپر نیچے ہو رہی ہے جیسے یہ ہوا نہیں بلکہ پانی کے بڑے بڑے گھونٹ ہوں۔
خزیمہ نصیر کی گردن پیچھے کی طرف مڑ چکی ہے، آنکھوں کی پتلیاں اوپر لگ چکی ہیں اور صرف نیچے والی سفیدی نظر آ رہی ہے۔ کچھ دیر پہلے آنکھوں کی سائیڈوں سے نکلنے والے آنسو گردن تک پہنچ کر دم توڑ چکے ہیں لیکن اپنے پیچھے سانپ کی لائن کی طرح نمک کی ایک لائن چھوڑ گئے ہیں۔ میں نے ٹشو پیپر سے آنسوؤں کے یہ نمکیںں نشان صاف کرنے کی کوشش کی ہے لیکن نمک جم چکا ہے۔ میں نے نرس سے گیلے ٹشو لانے کی گزارش کی ہے۔ شاید ڈسکے میں ایک ٹھیلا لگانے والے خزیمہ کی آنکھوں سے نکلنے والے یہ آخری آنسو تھے۔

یہ آنسو صرف پانی اور نمک نہیں تھے، ان میں کرب تھا، دکھ تھا، تکلیف تھی، حسرتیں تھیں، مستقبل کے سنہری خواب تھے اور گھر کی وہ یادیں تھیں، جو چھوٹے بچے کی طرح آنسوؤں کا ہاتھ پکڑ کر آخری مرتبہ انکھوں کے ان کٹوروں سے باہر نکلی ہیں اور جہاں جہاں سے گزری ہیں کھنڈرات کی طرح اپنے نشان چھوڑ گئی ہیں۔

خزیمہ کے دائیں جانب کچھ پھول رکھے ہوئے ہیں۔ ان پھولوں کی تازگی اور خزیمہ کی اکھڑتی ہوئی سانسیں دیکھ کر مجھے شک ہو رہا ہے کہ خزیمہ ان پھولوں کی پتیاں گرنے سے پہلے ہی یہ دنیا چھوڑ چکا ہو گا۔

جرمن شہر کولون کے یونیورسٹی ہسپتال کی پندرہویں منزل کے اس کمرے میں صرف ایک چھوٹی سی بتی روشن ہے۔ خزیمہ کے بیڈ کے ساتھ ہی دو دوسرے پاکستانی مہاجرین بیٹھے ہیں۔ ایک اپنی آنکھوں اور سر پر ہاتھ رکھے شاید اپنے مستقبل اور ماضی کے بارے میں سوچ رہا ہے اور دوسرا بیڈ کے قریب قرآن کی تلاوت کر رہا ہے۔
مجھے یہاں آئے آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے اور خزیمہ کو تھوڑی سی ہوش آئی ہے، وہ کچھ بولنا چاہتا ہے لیکن بول نہیں پا رہا۔

منہ سے غوں غاں کی دو نحیف سی آوازیں نکلی ہیں۔ کیکر کی خشک ٹہنی جیسا بازو بیڈ کی دائیں جانب گر پڑا ہے، جہاں پیشاب کے لیے ایک کیوب رکھی ہوئی ہے۔ ہم اشارہ سمجھ گئے ہیں۔ وہ شرم کی وجہ سے خود شلوار اتارنا چاہتا ہے لیکن اس میں شلوار نیچے کرنے کی سکت ختم ہو چکی ہے۔ میں اور وہاں موجود ایک دوسرا مہاجر اس کی مدد کر رہے ہیں۔ اسی اثناء میں اس کا پیشاب نکل گیا ہے اور ہمارے ہاتھ گیلے ہو گئے ہیں۔

وہاں موجود حماد اور حیدر نے مجھے ٹشو پکڑائے ہیں۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں بھائی جرمنی میں پیدا ہوئے ہیں لیکن جب سے خزیمہ ہسپتال داخل ہوا ہے، شام کا کھانا انہی کے گھر سے آتا ہے۔ میں بھی خزیمہ کی عیادت کے لیے آج انہی کے ساتھ آیا ہوں۔

ایک ڈاکٹر اور ایک نرس نے ہمیں پانچ منٹ کے لیے کمرے سے باہر بھیج دیا ہے۔ خزیمہ کو پیشاب والی نالی لگا دی گئی ہے۔

وہ گزشتہ دو روز سے کھانے کی سکت کھو چکا ہے۔ اب اسے زندہ رکھنے کے لیے نالیوں سے صرف پانی والی غذا دی جا رہی ہے۔

میں نے خزیمہ کے ہاتھ گیلے ٹشو سے صاف کر کے پکڑ لیے ہیں اور اس کے دو تلوں اور ہلکے سنہری بالوں والے دائیں بازو پر اپنا ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا ہے۔

ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جانے والا پچیس سالہ خزیمہ گزشتہ کئی دنوں سے جب بھی آنکھیں کھولتا ہے، ایک ہی رٹ لگاتا ہے، "کچھ کرو، پاکستان جانا ہے۔ ماں سے ملنا ہے۔”

ڈسکے کا خزیمہ گزشتہ برس جرمنی بہتر اور روشن مستقبل کے خواب لے کر آیا تھا لیکن چند ماہ پہلے یہ پتا چلا کہ اسے ہڈیوں کا سرطان ہے اور وہ بھی اپنی آخری اسٹیج پر پہنچ چکا ہے۔
جرمن حکومت اس کا علاج مفت کر رہی ہے۔

کولون میں رہنے والے عمر اور افتخار صاحب نے چند پاکستانیوں سے مل کر خزیمہ کی واپسی کے لیے پیسے، کاغذات اور ضروری انتظامات بھی مکمل کر لیے ہیں لیکن اب اس حالت میں کوئی بھی ایئر لائن خزیمہ کو پاکستان لے جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ کسی وقت بھی وفات پا سکتا ہے۔

خزیمہ کے والدین کو جرمنی لانے کی کوشش کی گئی لیکن انہیں جرمن سفارت خانے سے ویزہ نہیں ملا۔

خزیمہ کو اب بھی یہی امید ہے کہ وہ واپس ڈسکہ اپنے گھر چلا جائے گا، اپنی ان بہنوں، ماں، اور باپ کو زندہ سلامت دیکھ پائے گا، جنہیں غربت کی دلدل سے نکالنے کے لیے وہ ایران، ترکی اور یونان کا کھٹن سفر طے کر کے جرمنی پہنچا تھا۔ وہ بار بار یہی کہتا ہے کہ وہ تابوت میں واپس نہیں جانا چاہتا۔

خزیمہ کو یہی بتایا گیا ہے کہ پانچ نومبر کی ٹکٹ کروائی گئی ہے لیکن سب کو پتا ہے کہ خزیمہ تب تک شاید زندہ نہ رہے۔

ہاتھ پھیرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خزیمہ کی مخروطی انگلیوں کے جوڑ پیچھے سے ریگ مار کی طرح کھردرے ہو چکے ہیں اور ان پر میل جم چکی ہے۔ اس کی گردن کے ارد گرد بھی میل سے سرمئی اور سیاہ رنگ کی لائینیں بن چکی ہیں۔ شاید خزیمہ شرم کے مارے ابھی تک خود ہی نہانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور صحیح طریقے سے اپنے بدن پر جمی میل بھی نہیں اتار سکا۔ اب تو کئی دنوں سے وہ نہایا بھی نہیں ہے۔

میں خزیمہ کا ہاتھ تھامے قسمت اور مقدروں کے کھیل کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ باہر جانے اور بہتر مستقبل کے خواب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہوں گے، پیسہ کمانے، شاندار کھوٹھی بنانے، کسی خوبصورت لڑکی سے شادی کرنے، بہنوں کی شادیاں کرنے، ماں باپ کو عمرہ کرانے جیسے اس کے سبھی خواب ریزہ ریزہ ہو کر دیار غیر کے اس کمرے میں بکھرے پڑے ہیں اور ماتم کناں ہیں۔ خزیمہ کی یہ حالت دیکھ کر شاید اس کے سہانے خواب بھی سینہ کوبی کر رہے ہوں۔ یہ ان خوابوں کی سسکیاں ہیں یا خزیمہ کی اندازہ لگانا مشکل ہے۔

یہ پیدا کہاں ہوا تھا اور فوت کہاں ہو رہا ہے۔ مرتے وقت اس کے پاس نہ تو اپنی ماں ہے، نہ باپ اور نہ ہی کوئی رشتہ دار۔ اب یہاں کے اجنبی رہائشی، جرمن ڈاکٹر اور اس کی عیادت کے لیے آنے والے پاکستانی ہی اس کے رشتہ دار ہیں۔

نرس کمرے میں آئی ہے۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا ہے کہ کیا خزیمہ کل صبح انکھیں کھول پائے گا۔ نرس کا چہرہ بھی افسردہ ہے، "ایسا لگتا نہیں ہے، کچھ یقینی تو نہیں لیکن شاید یہ اس کی آخری رات ہو۔ تم اسی طرح ہاتھ پکڑے رکھو۔ مجھے یقین ہے اسے درد نہیں محسوس ہو رہا، تم ہاتھ پکڑے رکھو، اس کو اس ہمدردی کی ضرورت ہے۔ میں کئی برسوں سے اس شعبے میں ہوں لیکن اس کو دیکھ کر اداس ہوں۔ یہ اپنے گھر نہیں جا سکا اور ابھی یہ پچیس سال کا تو ہے ۔”

میری آنکھوں میں نمی آ چکی ہے۔اس کی ماں اس وقت یہاں ہوتی تو اس کا سر اپنی گود سے الگ نہ ہونے دیتی لیکن اس کی آنکھوں سے لائن میں لگ کر گرنے والے آنسو اس کی تنہائی، بے بسی اور پردیس کے موسم خزاں میں قریب آتی ہوئی موت کا عندیہ ہیں۔

اس کی ماں قریب ہوتی تو اس حال میں کسی معجزے اور اس کی صحت یابی کی دعائیں کر رہی ہوتی لیکن یہاں بیٹھے ہم سبھی اس کی آخری سانسوں کا انتظار کر رہے ہیں۔

خزیمہ کے سانس لمبے ہو رہے ہیں۔ اسے ایک سانس لینے کے لیے پیٹ کے آخری حصے تک زور لگانا پڑ رہا ہے۔

رات کے گیارہ بجنے والے ہیں اور کمرے میں میرے آفس کے سینئر گولیگ مقبول صاحب داخل ہوئے ہیں۔ خزیمہ کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے ہر رات خزیمہ کے پاس آتے ہیں اور آخری ٹرین سے گھر واپس جاتے ہیں۔ ایک اجنبی کا دوسرے اجنبی سے جذبات کا رشتہ قائم ہو چکا ہے یا شاید ایک پردیسی دوسرے پردیسی میں اپنا انجام دیکھ کر افسردہ ہے۔

ہسپتال میں زیادہ لوگ نہیں رہ سکتے، ہمیں اب واپس جانے کا کہہ دیا گیا ہے۔ خزیمہ کے سانسوں کی گنتی جاری ہے، ہر سانس کے ساتھ اس کی ہنسلی کی ہڈی اوپر اور نر خرے کی نیچے ہو جاتی ہے۔

ایک الجھن ہے، پتا نہیں کونسی سانس آخری ہو۔ پتا نہیں کتنی باقی رہ گئی ہیں، ایک، دو، پانچ ، دس یا ایک سو۔ کتنے منٹ باقی رہ گئے ہیں، ایک، پانچ، پچیس یا ایک گھنٹہ۔ کتنی ساعتیں باقی بچی ہیں، کتنے دن یا کتنی راتیں ؟

اس کی زندہ پاکستان واپس جانے کی آخری خواہش بھی دم توڑ چکی ہےیا ابھی بھی اس کے اندر کوئی موہوم سی امید روشن ہے۔ میں اس اجنبی کے پاس سے اٹھنا نہیں چاہتا، میں اس کا تھاما ہوا ہاتھ چھوڑنا نہیں چاہتا۔

لیکن میری یہ خواہش بھی بالکل اسی طرح پوری نہیں ہو سکتی، جیسے خزیمہ تابوت میں اپنی ماں کے پاس نہیں جانا چاہتا۔

رات ایک بجے کے بعد حزیمہ تنہا ہوگا۔ اسے ہر آدھے گھنٹے بعد صرف نرس دیکھنے آئے گی۔ پتا نہیں اس کی آخری ہچکی کے وقت کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا بھی وہاں موجود ہوگا یا نہیں۔
( خزیمہ آج صبح انتقال کر گیا ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے