شاردہ یونیورسٹی کے آثار توجہ چاہتے ہیں

آثار قدیمہ کسی بھی قوم کے ہوں وہ یقینا ً ایک عظیم سرمایہ ہوتا ہے ،جس سے قوموں کا عروج وزوال کے احوال معلوم ہوتے ہیں اور ہر آنے والی نسل اپنی سابقہ تاریخ سے روشناس ہوتی ہے ۔آثار قدیمہ قومی ورثہ ہوتا ہے اس لئے اس کی حفاظت سبھی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں آثار قدیمہ کی حفاظت ہر قوم نے کی ہے اور کر رہے ہیں ،جیساکہ اہرام مصر ، تاج محل اور ان جیسے دیگر آثار بلا تفریق مذہب و نسل کے آج تک محفوظ ہوتے چلے آرہے ہیں ۔وادی نیلم یوں تو اپنے نباتاتی حسن و جمال کی وجہ سے پورے کشمیر میں میں یکتا ہے ، اور اپنی جمالیاتی حسن سے ہر آنے والے زائر کو مسحور کر دیتی ہے shardha2جس کی بنا پر یہاں کے مقامی اور بیرونی زائرین اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں ۔ لیکن اس کا تاریخی پس منظر میں کئی مقامات ایسے ہیں جنہیں تاریخ نے اپنے دامن میں وسیع جگہ دی لیکن حکومتی بے توجہی کے سبب آج ہم اس سے محروم ہیں ۔ وادی نیلم کے تاریخی مقامات میں سے ایک شاردہ ویلی ہے ، جسے موجودہ دور میں تحصیل کا درجہ دیا گیا ہے ۔ شاردہ ویلی جس طرح قدرتی حسن سے مالا مال ہے اسی طرح تاریخ کے اوراق میں بھی روشن ہے ۔ اس تاریخی پس منظر میں کئی باتیں قابل ذکر ہیں ، جس پہ مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ میں آج آپ کے سامنے صرف اس کا تعلیمی پہلو رکھنا چاہتا ہوں ۔

حوالہ تاریخ ہند قبل از تاریخ،مشہور مسلمان البیرونی اپنی کتاب "کتاب الہند ” میں شاردہ کا کچھ یوں ذکر کرتے ہیں ” سرینگر کے جنوب مغرب میں شاردہ واقع ہے ۔اہل ہند اس مقام کو انتہائی متبرک تصور کرتے ہیں ۔ اور بیساکھی کے موقع پر ہندوستان بھر سے لوگ یہاں یاترا کے لئے آتے ہیں ۔لیکن برفانی اور دشوار گزار راستوں کے باعث میں خودوہاں نہیں جاسکا۔

شاردہ یونیورسٹی کا قدیم نام شاردہ پتھ (Sharda Peth)ہے ۔پتھ (Pethh)قدیم سنسکرت زبان سے تعلق رکھتا ہے.اس کے لغوی معنی ایسی جگہ یا نشست کے ہیں جس کو روحانی تکریم سے نوازا گیا ہو۔ کنشک اول (شہزادہ نیپال) کے دور میں شاردہ وسطی ایشیاء کی سب سے بڑی تعلیمی درسگاہ تھی ۔یہاں بدہ مت کی باقاعدہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تاریخ ، جغرافیہ ،منطق اور فلسفے کی مکمل تعلیم دی جاتی تھی۔ اس درسگاہ کا اپنا رسم الخط تھا جو دیوتا گری سے ملتا جلتا تھا ۔ shardha 4اس رسم الخط کی وجہ سے موجودہ گاؤں کا نام شاردہ پڑ گیا ہے۔اس عماررت کو کنشک اول نے 24ء تا27ء میں تعمیر کرایا تھا ۔ شاردہ یونیورسٹی کی عمارت شمالا جنوبا مستطیل چبوترے کی شکل میں بنائی گئی ہے۔عمارت کی تعمیر آج کے انجینئرز کو حیرت میں ڈال دیتی ہے ۔ یہ عمارت برصغیر میں پائی جانے والی تمام عمارتوں سے مختلف ہے۔خاص کر اس کے درمیان میں بنایا گیا چبوترہ ایک خاص فن تعمیر کا شاہکار نمونہ ہے جو بڑا دلچسپ ہے ۔ اس کی اونچائی تقریبا 100 فٹ ہے ۔ اس کے چاروں اطراف دیواروں میں نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔جبکہ جنوب کی جانب ایک دروازہ ہے اور عمارت کے اوپر چھت کا نام و نشان تک نہیں ۔ تاہم مغرب کی جانب اندر داخل ہونے کے لئے تریسٹھ سیڑیاں بنائی گئی ہیں ، جبکہ تریسٹھ کا عدد جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں مذہبی حیثیت رکھتا ہے ۔

تاریخی شواہد کے مطابق شاردہ یونیورسیٹی میں 50000 طلباء پڑھتے تھے ۔ شاردہ سے کشن گھاٹی تک کا سارا علاقہ آباد تھا "کشن گھاٹی” مرکزی عمارت سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع ایک پہاڑی کا نام ہے،جسے مقدس تصور کیا جاتا تھا۔یہاں ایک لمبی غار تھی ،جس میں ایک بت بنوایا گیا تھا ،جس 14915621_788919571249748_9076824137996106389_nکے نیچے مردوں کو جلادیاجاتا تھا اور اس کی راکھ کو کشن گنگا(موجودہ دریائے نیلم ) میں بہا دیاجاتا تھا۔شاردہ یونیورسٹی کے پس منظر سے لوگوں کی اکثریت نابلد ہے ۔ اسی وجہ سے لوگوں کےدرمیان اس تاریخی اور تعلیمی درسگاہ کے متعلق دلچسپ کہانیاں مشہور ہیں ۔جو یہاں آنے والوں کو سنائی جاتی ہیں ،جس میں دیومالاؤں کا ذکر ملتا ہے تاہم آج یہ عظیم عمارت ایک کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے اور عدم توجہی کا شکار بننے کی وجہ سے اس کی تاریخی اور تعلیمی اہمیت ایک خواب لگتی ہے۔

یہ یونیورسٹی کسی زمانے میں ہندو مت اور بدھ مت کی بڑی درسگاہ رہی ہے ۔ مشہور مؤرخ زون راج کے مطابق1088ء میں ریاست گجرات کی حدود میں ایک نہایت ذہین و فطین انسان پیدا ہوا ۔ اس کا نام ہیما چندرا بتایا جاتا ہے جس کی شہرت علم و ادب میں دور دور تک پھیلی ۔گجرات (پاکستانی گجرات)کے راجہ سمہا نے اس عالم و فاٖضل شخص کو اپنے دربار سے منسلق کیا ۔ اس نے راجہ گجرات سے التجا ءکی کہ وہ ایک ایسی انسائیکلوپیڈیا تیار کرنا چاہتا ہے،جس میں مذاہب عالم ،زبان دانی کے آفاقی اصول اور عالمی ادب جیسے مضامین پر مکمل تحقیق مطلوب ہے ۔ اس کام کی تکمیل کے لئے آٹھ قدیم زبانوں میں لکھی گئی گرائمر کی کتب مطلوب تھیں ۔ ان نایاب کتب کی دستیابی کے لئے ہیما چندرا نے بادشاہ سے گزارش کی کہ یہ کتب صرف اور صرف شاردہ یونیورسیٹی کے ذخیرہ کتب سے ہی مل سکتی ہیں ۔ اس پر بادشاہ نے ایک اعلی سرکاری وفد کشمیر کی راجدھانی پری وار پورا (موجودہ سرینگر) روانہ کیا۔ ریاست کشمیر پہنچ کر اس وفد نے شاردہ دیوی کے مندر میں حاضری دی اور شاردہ دیوی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ پھر شاہی دستور کے مطابق مسودات گجرات پہچائے گئے جس کی مدد سے Siddha Hema Chandraکے نام سے کتاب تیار کروائی گئی۔لیکن آج اس عظیم سرمایہ سے ملک قوم بالکل بے خبر ہیں،

 

 

تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وادی نیلم کے موروثی سرمایے کی حفاطت کےلئے اقدامات کرے اور اس کی علمی ورثے کو اجاگر کرنے کےلئے وادی نیلم میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائے اور وادی کے دیگر آثار قدیمہ کو بھی یکجا کرے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے