6نومبر47ء:جب کشمیریوں پر قیامت ٹوٹی

22 اکتوبر کی قبائلی یلغار اور 27 اکتوبر کی غاصبانہ مداخلت کے بعد کشمیریوں کی تاریخ کا الم ناک ترین دن 6 نومبر 47ء تھا ۔ اس دن ہزاروں کشمیریوں کو ڈوگرہ اور بھارتی افواج نے دھوکہ دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔ انہیں یہ جھانسہ دیا کہ آپ اگر سرحد پار ہجرت کرنا چاہتے ہیں تو جموں پولیس لائن آئیں ۔ لوگ ٹرکوں پر اپنا ضروری سامان رکھ کر خاندانوں سمیت جموں پہنچے ۔ انہیں یہ کہا گیا کہ آپ کو سوچیت گڑھ کے راستے سیالکوٹ پہنچایاجائے گا ۔ پھر ان خاندانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ۔ جوان لڑکیوں کو اغواء کر لیا گیا ۔ چند ایک لوگ کسی طرح بچ بچا کر اس پار پہنچے ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے پیاروں کو گاجر اور مولی کی طرح کٹتے دیکھا تھا ۔ آپ سیالکوٹ میں بسنے والے کسی عمررسیدہ کشمیری مہاجر سے اس بدترین غدر کی کہانی سنیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے ۔

یہ ایک عجیب فساد تھا ۔ ایک طرف تو مہاراجہ کی پالیسی یہ تھی کہ جموں میں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کو اقلیت میں بدلا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں جانب ہونے والے قتل عام کی وجہ سے مذہبی منافرت اپنی انتہاوں کو چھو رہی تھی ۔ یہاں سے قبائلوں کی کلہاڑیوں سے بچ نکلنے والا کوئی سکھ یا ہندو اس پار پہنچتا اور لوٹ مار کی داستان سناتا تو وہ آپے سے باہر ہو جاتے اور یہی منظر دوسری جانب تھا ۔ مورخوں کا کہنا ہے کہ جموں اور اس کے نواح میں اکتوبر اور نومبر کے مہینے میں اڑھائی لاکھ سے زائد مسلمانوں کا خون کیا گیا ۔

کشمیریوں کی اس خونچکاں تاریخ کے پچھلے اوراق پلٹنے کے لیے بہت ہمت چاہیے ۔ یہ خطہ اس برصغیر میں امن ، ہم آہنگی ، محبت ، ادب ، آرٹ اور کلچر کے اعتبار سے مثالی تھا مگر تقسیم کے ہنگام اسے ہر دو طرف کے مفاد پرستوں نے مذہبی منافرت کی بھٹی میں جھونک دیا اور اس کے بعد سے آج تک چناروں کی یہ وادی خاک ، خون اور شعلوں کی لیپٹ میں ہے ۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی تک اس سانحے سے متعلق بہت تحقیق کرنا باقی ہے ۔ کئی ان کہی کہانیاں مہاجر کشمیریوں کے سینوں سے اوراق پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوان لکھنے والوں اور ریسرچ کا کام کرنے والوں کی اس غدر کے عیبی شاہدین سے مل کر معلومات جمع کرنی چاہییں تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کرب کے ان لمحات میں کون کہاں کھڑا تھا ۔ کس نے مذہب کی چنگاری کو ہوا دے کر صدیوں کے امن کو دھواں دھواں کر دیا تھا۔

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ ماضی کا تلخ تجربہ یہی کہتا ہے کہ کشمیر کے نام پر باہم متحارب دونوں ممالک اس قضیے کو کسی ایسے حل کے جانب لانے میں مکمل طور پر ناکام ہیں جو کشمیریوں کے لیے قابل قبول ہو ۔ اس لیے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کا ہے اور وہی اس کے حل کے لیے جد وجہد کریں گے تو معتبر ہوگی ۔ مسئلہ کشمیر کو صنعت بنانے والے کرداروں سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ۔ یہ تو خونی لکیر پر کراس فائرنگ بھی کرتے ہیں تو دونوں طرف کشمیری مرتے ہیں ۔ اس جنگ میں نقصان صرف کشمیریوں کا ہو رہا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ منقسم کشمیر کی ساری اکائیوں کے درمیان مکالمے کا سلسلہ شروع ہو اور تحریک کی زمام کشمیری خود اپنے ہاتھوں میں رکھیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے