پختون غبارے میں ہوا بھرنا بند کریں!!

پاکستان تحریک انصاف اور جناب عالی مرتبت عمران خان کے احتجاجی غبارے سے تو سپریم کورٹ نے ہوا نکال دی لیکن اس تمام صورت حال میں ایک چیز واضخ طور پر نظر آئی کہ جو بھی، جہاں بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کرسکتا ہے تو بیچارے اور سادہ لوح پختونوں کو ہی استعمال کرتا ہے چاہے وہ پختون کہلانے والے پرویز خٹک ہوں یا بزعم خود لیڈر کہلانے والے اور پنڈی بوائے (بلکہ پنڈی بابا کہنا زیادہ مناسب ہوگا )شیخ رشید ۔یہاں ہر ایک پختونوں کی غیرت ،بہادری اور سادہ لوحی کے غبارے میں مزید ہوا بھرتا رہتا ہے اور اپنے مفادات حاصل کرتا ہے ۔اور تو اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بھی یہی کیا یعنی پہلے تو آپ کے حکم پر پولیس اور ایف سی کے جوان نہتے پختونوں پر گولہ باری کریں ،آنسو گیس کی ہیوی شیلنگ کریں اور پھر جناب اپنی پریس کانفرنس میں پختونوں کی فراخدلی اور مہمان نوازی کی تعریفیں کر کے معاملے کو ختم کر دیں ۔

جب عمران خان نے پانامہ لیکس کے معاملے پر اسلام آباد لاک ڈوان کرنے کا اعلان کیاتو اسی وقت سے وزیر اعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے اپنے ہر بیان اور خطاب میں پختون غبارے میں ہوا بھرنا شروع کر دیا تھاتاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں کارکنان کے ساتھ اسلام آباد کا رخ کیا جاسکے۔صوابی انبار سے روانہ ہونے سے پہلے وہاں پی ٹی آئی کارکنان سے خطاب میں بھی پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہم پختون ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پختونوں کے راستے کون بند کرسکتا ہے ۔اسی طرح کے دیگر بیانات وہ پہلے بھی دیتے رہے ۔پرویز خٹک کے ساتھ 15 سے 20ہزار کارکنان کا قافلہ اسلام آباد کی جانب چلا تھا (پی ٹی آئی کے مطابق یہ تعداد35سے 40ہزار تھی )جس کی سیکیورٹی کے لئے انتظامات نہ ہونے کے برابر تھے ۔

بقول انتظامیہ ایک ہزار پولیس اہلکاروں کی نفری تعینات کی گئی تھی تاہم آن گراونڈ 100 سے بھی کم اہلکار نظر آرہے تھے۔(خدانخواستہ اگر اس دوران کوئی حادثہ یا دھماکہ ہوتا تو کسی کو کچھ انداز ہ ہے کہ کتنے پختون جان سے جاتے تاہم اس کی فکر کس کو ہے کیونکہ پختون تو ہر جگہ مرنے کے لئے پیدا ہوا ہے پھر وہ چاہے پشاور ہو،مردان ہو ،قبائلی علاقاجات ہو ںیا کراچی اور کوئٹہ ہو )۔

اگر پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد لاک ڈاون اور اس تمام صورت حال کا بغور جائز ہ لیا جائے تو عمران خان کے سارے شو کو رونق صرف پختونوں نے بخشی ۔بنی گالہ بھی اگر کوئی پہنچا اور عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ڈیرا ڈالا،سردی بھوک اور پولیس کی بے عزتی برداشت کی تو وہ بھی پختون ہی تھا اور اگرموٹر وے پر پرویز خٹک کی قیادت میں کسی نے مار کھائی ،آنسو گیس کی ہیوی شیلنگ برداشت کی تو وہ بھی پختون ہی تھا۔عمران خان کے شو میں کسی اور قومیت کا ورکر نظر نہیں آیا،اکادکااگر کوئی آیا ہو تو کہہ نہیں سکتے۔قیادت کی بات الگ ہے وہ ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر صرف جائزے ،تبصرے اور فیصلے کرتا ہے ۔عمران خان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یہ سب کرنا بہت آسان ہے جس میں شاہ محمود قریشی نے بھی بھرپور حصہ لیا،اسد عمر صاحب نے بھی اور شیریں مزاری صاحبہ سمیت دیگر رہنمابھی شامل رہے تاہم یہ تمام رہنما اپنے ورکرز کو بنی گالہ لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔اسد عمر این اے 48سے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں اور انہوں نے 2013ا کے انتخابات میں اسی نوے ہزار ووٹ لئے تھے تاہم وہ چند سو کارکنان کو بھی بنی گالہ نہ لا سکے ۔

جس دن سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اس رات ہم نے بنی گالہ سے لائیو ٹرانسمیشن کی اور تقریبا رات کے دو سوا دو بجے ہمارے رپورٹر اشفاق بنگش نے ہمیں بنی گالہ کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا ۔سوال و جواب تو بہت ہوئے جن میں میرا ایک سوال یہ بھی تھا کہ بنی گالہ میں موجود کارکنان میں سب سے زیادہ تعدا د کس قومیت سے ہے تو اشفاق بنگش کا کہنا تھا کہ جو پانچ چھ سو کی تعداد میں کارکنان نظر آ رہے ہیں ان میں سب سے زیادہ تعداد پختونوں کی ہے اور دوسری قومتوں کے لوگ اکا دکا ہی نظر آ رہے ہیں ۔اشفاق بنگش کا مزید کہنا تھا کہ جب انہوں نے جناب اسد عمر سے سوال کیا کہ آپ این اے48سے پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں تاہم آپ کے حلقے کے کارکنان نظر نہیں آرہے تو اس سوال پر اسد عمر صاحب ناراض ہوگئے اور اب وہ خیبر نیوز سے بات کرنے سے بھی کترا رہے ہیں۔

بعض ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان نے یوم تشکر کا اعلان کافی بھاری دل کے ساتھ کیا ہے کیونکہ جو توقعات انہوں نے اسلام آباد اور پنجاب کی قیادت سے لگا رکھی تھیں وہ دس فیصد بھی پوری نہیں ہوئی اور اسی بات کا غصہ انہوں نے شاہ محمود قریشی ،جہانگیرترین اور اسد عمر سمیت پنجاب کی دیگر قیادت کو کھری کھری سناکر نکالا ہے ۔عمران خان نے میڈیا سے گفتگو کے دوران یہ بھی کہا کہ کپتان وہ ہیں اسی لئے فیصلہ بھی وہی کریں گے۔ یوم تشکر میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کا سب سے بڑا قافلہ وزیر اعلی پرویز خٹک کی قیادت میں خیبرپختونخوا سے پہنچا جس سے پی ٹی آئی کے شو میں جان پڑی ،پنجاب کے دیگر حصوں سے بھی لوگوں نے شرکت کی تاہم ان کی تعداد ویسی نہیں تھی جیسے پی ٹی آئی کے پچھلے جلسوں میں ہوا کرتی تھی ۔

اگر دیکھا جائے تو28نومبر کا دن بھی شیخ رشید کے نام رہا۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وعدے کے مطابق لال حویلی نہ پہنچ سکے (بلکہ خان صاحب تواس دوران بنی گالہ سے نکلنے کا بھی رسک نہ لیا ،پہلے اعلان کیا کہ سپریم کورٹ خود جائیں گے، بعد میں کہا کہ وہ نہیں بلکہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین سمیت دیگر رہنما عدالت میں حاضر ہونگے ) ۔یہ الگ بات کہ حکومت نے بھی عوامی مسلم لیگ کے جلسے والے دن لال حویلی کو چاروں جانب سے گھیر رکھا تھا اور لال حویلی کے اطراف کنٹینروں کی بہار تھی تاہم پھر بھی پنڈی بوائے یعنی شیخ رشید پنڈی کی تنگ گالیوں میں موٹرسائیکل پر ہوتے ہوئے اپنے کارکنوں کے درمیان پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور پولیس انہوں گرفتار کرنے میں بھی ناکام رہی ۔

اب آتے ہیں ملک کے مقتدر اداروں کے رویئے کی طرف جو گزشتہ کئی دہائیوں سے انہوں نے پختونوں کے ساتھ روا رکھا ہے ۔جب ضرورت پڑی توسادہ لوح پختونوں میں غیر ت ، بہادری اورمذہبی برتری کی ہوا بھری گئی اور جب پڑوسی ملک میں مقتدر اداروں کی ضرورت پوری ہوگئی تو ان سادہ لوح پختونوں کو سرکاری سرپرستی کے بغیر چھوڑ دیاگیا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکالا کہ انہوں نے الٹا اپنی سیکیورٹی فورسز اور عوام کو نشانے پر رکھ لیا۔دہشتگردی کے خلاف جنگ میں صوبہ خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہوا اور اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پختون قوم نے دی ۔خیبرپختونخوا کے تقریبا ہرشہر میں بم دھماکے اور خودکش حملے معمول بنے جس کے نتیجے میں نشانہ بھی پختون ہی بنے اور ہزاروں کی تعداد میں شہید اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی اور معذور ہوئے۔

کاروبار اور صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے
اور سرمایہ کار اپنا سرمایہ ملک کے دوسرے صوبوں اور حصوں میں منتقل کرنے لگے ۔
سیاستدانوں اور ملک کے مقتدر اداروں سے استدعا ہے کہ خدا را اب تو پختونوں کو معاف کر دیجئے اور اپنے مفادات کے لئے ان کا استعمال بندکریں ۔کوئی تو پختونوں کو تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ بنانے کے بارے میں سوچے ۔کوئی تو پختون بچے کے مستقبل کے بارے میں بھی غوروفکر کرے اور ان کے ہاتھوں میں بندوق کی بجائے کتاب تھامنے کے لئے اقدامات کرے ۔

دوسری طرف کپتان صاحب بھی ذرا پختونخوا پر رحم فرما کر صرف زبانی جمع خرچ سے نکلے اور کچھ ترقیاتی کاموں سمیت سی پیک میں صوبے کے جائز حصہ حاصل کرنے پر توجہ دیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے