کسی کلمہ گوکی تکفیر اور کسی مشرک کا بھی قتل درست نہیں، محسن نجفی

[pullquote] شیخ محسن علی نجفی پاکستان کے شمالی علاقہ جات اسکردو بلتستان کی تحصیل کھرمنگ کے گاؤں منٹھوکھا میں 1938ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں والد صاحب سے حاصل کی اور اعلٰی تعلیم کے لئے نجف اشرف عراق چلے گئے، جہاں اس دور کے ممتاز اساتذہ کرام سے جدید علوم سے بہرہ مند ہوئے۔ [/pullquote]


طالب علمی کے دور میں عربی زبان میں کتاب ’’النھج السویفی معنی المولی اوالولی” لکھی۔ اس کے علاوہ متعدد تصانیف کی ہیں، الکوثر فی القرآن اب تک 2 جلدیں شائع ہوچکی ہیں، بلاغ القرآن ترجمہ و حاشیہ قرآن، النھج النسوی فی معنی المولی اوالولی عربی، دراسات الایدا ولوجیۃ المقارنۃ، محنت کا اسلامی تصور، فلسفہ نماز، راہنماء اصول، تلخیص المنطق للعلامۃ المظفر، تلخیص المعانی للتفتازانی، تدوین و تحفظ قرآن، اسلامی فلسفہ اور مارکسزم، شرح و ترجمہ زھراء سلام اللہ علیہا سمیت بیسیوں علمی مقالات جو ملکی و غیر ملکی جرائد و مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔

[pullquote]اس کے علاوہ انہوں نے کئی فلاحی کاموں کا بیڑا بھی اٹھایا ہوا ہے، اسوہ سکول و کالجز کا سسٹم ان کی مرہون منت ہے، جس میں تقریباً 20 ہزار سے زائد طالب علم فیضیاب ہو رہے ہیں۔ اسکے علاوہ زلزلہ اور سیلاب متاثرین کیلئے 10 ہزار سے زائد مکانات تعمیر کروا چکے ہیں۔ انہی فلاحی کاموں کی بدولت ان کو محسن ملت کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مکاتب فکر میں آپ کو عزت اوراحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، حکومت کیجانب سے حالیہ دنوں میں ان کا نام شیڈول فور میں ڈال دیا گیا اور تمام اکاونٹس منجمد کرکے شہریت معطل اور پاسپورٹ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ [/pullquote]


س: ضرب عضب تو دہشتگردوں کیخلاف شروع ہوا تھا، لیکن حالیہ واقعات اور کارروائیاں ثابت کر رہی ہیں کہ محب وطن لوگوں کو بھی تنگ کرنا شروع کر دیا گیا ہے، آپ جیسی شخصیت کا نام بھی شیڈول فور میں ڈال دیا گیا، اکاونٹس منجمد کر دیئے گئے، حتٰی شہریت معطل اور پاسپورٹ تک منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیا کہتے ہیں۔؟

علامہ شیخ محسن علی نجفی: میں اپنی اور اپنی ذات کی بات کرتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوا ہے، سچ پوچھیں تو اتنا کہوں گا کہ مجھے ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی، زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب غلطی سے ہوا ہوگا یا پھر جان بوجھ کر کام کیا گیا ہے، اگر جان بوجھ کر یہ کام کیا گیا ہے توپھر یہ کام اپنے ملک، اپنے وطن اور اپنے عوام کے حق میں نہیں ہے۔ بلاوجہ یہ ایک الزام اور ایک بہتان عائد کرنا ہے۔سوال یہ ہے کہ کن پر بہتان اور الزام عائد کرنا ہے، ان کیلئے جو ملک کیلئے کام کرتے ہیں، میں یہاں (اسلام آباد) میں گذشتہ 40 برسوں سے کام کر رہا ہوں، میں انتظامیہ کی ناک کے نیچے بیٹھ کر کام کر رہا ہوں، چالیس سال سے ان کو نہیں معلوم کہ میں کیا کام کرتا ہوں اور کیا نہیں کرتا؟، میرے کاموں کا فائدہ کس کو ہے۔ مجھے سمجھنے کیلئے ایک ہفتے دیر نہیں لگنی چاہیئے کہ میں محب وطن ہوں یا نہیں، میری سرگرمیاں کیسی ہیں، کیا کرتا ہوں کیا نہیں کرتا، اس کیلئے ایک ہفتہ بہت ہے۔ آپ کے پاس تمام وسائل موجود ہیں، محب وطن لوگ آپ کے پاس موجود ہیں، جدید ترین ٹیکنالوجی آپ کے پاس ہے، میں سیاست کی بات نہیں کرتا، میں محب وطن اداروں کی بات کرتا ہوں، آپ کو مجھے سمجھنے کیلئے ایک ہفتہ نہیں لگنا چاہیئے۔ بسمہ اللہ کیجئے کس نے روکا ہے۔

س: آپکے اکاونٹس تک سیز کر دیئے گئے ہیں، تو جو آپکے ویلفیئر کے ادارے ہیں، انکی کیا صورتحال ہے، کیسے چیزوں کو مینج کر رہے ہیں۔؟

علامہ شیخ محسن نجفی: اپنی بات کرتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگتا، میں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتا ہوں، میرے ہاں 14 کالجز ہیں، دو ٹیکنکل کالج ہیں، دو پری میڈکل کالجز ہیں، بچیوں کیلئے الگ کالج ہے، 20 ہزار طالب علم ہمارے ہاں ان اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یہ بچے غریب اور نادر ہیں، جو پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں نظام تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، ہمارے نظام اور سسٹم کی وجہ سے یہ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر شہروں میں یہ کام کرتے تو یہاں تعلیم کی تمام تر سہولیات موجود ہیں، ہم ایسے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں، جو بہت ضرورت مند ہیں، اگر نہ دیں تو یہ بچے نہیں پڑھ سکیں گے۔ گلگت بلتستان، کشمیر، پاراچنار، مانسہر اور کاغان کے پسماندہ علاقوں میں تعلیم دے رہے ہیں، اسکے علاوہ رفاہی کام کے حوالے سے بتاوں کہ کارگل جنگ میں سرحد سے لوگ اٹھ کر سکردو شہر میں آگئے، بے سروسامان تھے، ان کیلئے ایک کالونی بنائی، اس کالونی میں 320 خاندان آباد ہیں۔ 2005ء میں زلزلہ آیا، اس حوالے سے ہم نے حسینی فاونڈیشن قائم کی، حکومت اور مقامی لوگوں کے ساتھ ملکر ہم نے 7000 گھر بنائے، 2010ء کے سیلاب میں ہم نے کئی کالونیاں بنائیں، مجموعی طور پر ہم نے 10 ہزار گھر تعمیر کرائے ہیں، ہم نے یہ کام بلاتفریق و مذہب و مسلک کیا ہے۔ میں مولوی ہوں، ہم فقط اپنے مذہب کو ہی نہیں پڑھتے، آپ ہمارے مدرسے میں آکر دیکھیں کہ ہماری لائبریریوں میں تمام مکاتب فکر کی کتابیں موجود ہیں، تمام موضوعات کی مناسبت سے کتابیں موجود ہیں، مسلک کی بنیاد پر کتابیں نہیں رکھی ہوئیں۔ ہمارے ہاں کسی قسم کی تنگ نظری نہیں ہے، ہم اختلاف کا حق دیتے ہیں، جیسے اپنے لئے حق تصور کرتے ہیں کہ مجھے حق حاصل ہے کہ میں نظریہ قائم کروں، اس طرح دوسرے کیلئے بھی قائل ہیں کہ انہیں حق حاصل ہے کہ وہ نظریہ قائم کریں، لیکن اس کے پیچھے دلیل ہونی چاہیئے۔ وہ دلیل جو مسلمانوں کے ہاں دلیل ہے، ہر بات کو دلیل نہیں سمجھتے، بعض باتیں ایسی ہیں جو سب کے ہاں دلیل نہیں ہیں، جیسے قیاس ہے، یہ سب کے ہاں دلیل نہیں ہے، البتہ کچھ کے ہاں دلیل ہے، کچھ کے ہاں نہیں۔

وہ بات جو قرآن، سنت، عقل اور تاریخ کے حقائق کی روشنی میں سامنے آئے اس کو دلیل سمجھتے ہیں، اگر یہ باتیں موجود ہوں تو آپ کو نظریہ قائم کرنے کا حق دیتے ہیں، لیکن ایک چیز کا حق نہیں دے سکتے ہیں اور نہ آپ دے سکتے ہیں، وہ ہے کہ شریعت کے واضح حکم کے خلاف آپ موقف نہیں بنا سکتے۔ اس کو بھی سب مانتے ہیں۔ معاذ اللہ ہم کسی فرد، مسلک کی تکفیر کے بھی قائل نہیں ہیں، یہ بات بہت خطرناک ہے، میں اپنے طالب علموں کو درس دیتا ہوں کہ خبردار کسی کی تکفیر نہ کرنا، کہنے والے کیلئے بہت خطرناک ہے، اگر کوئی کافر ہے تو وہ کافر ہے، آپ کے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اگر وہ کافر نہیں ہے اور آپ اسے کافر کہتے ہیں تو یہ بات آپ کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ اس سے آپ خود کافر ہو جاتے ہیں، یہ روایت موجود ہے کہ مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے۔ یہ سب کے ہاں روایت موجود ہے۔ خواہ کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھتا ہو، کسی کو نظریہ کی بنیاد پر نہ کافر کہتے ہیں نہ نظریہ کی بنیاد پر کسی سے زندگی کا حق چھین سکتے ہیں، اسلام یہود و نصاریٰ اور مجوسی کے مذہب و مسلک کو بھی تسلیم کرتا ہے، اہل کتاب کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ ایک مذہب ہے، فقط شرک کو تسلیم نہیں کرتا، کیونکہ شرک کوئی مذہب و مسلک نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک سے بھی شرک کی بنیاد پر زندگی کا حق چھیننا جائز نہیں ہے، اسے جینے کا حق ہے، قرآن مجید میں آیت ہے کہ جس کا ترجمہ ہے کہ اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگنے آئے تو اسے پناہ دے دو، تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے، پھر اس کو اپنے امن کی جگہ تک پہنچا دیں، کس کو مشرک کو، کلام اللہ سننے کے بعد آزاد چھوڑ دیں؟، کہا گیا ہے کہ نہیں بلکہ اس کو امن کی جگہ تک پہنچا دو، کہیں کوئی غلطی سے اس کو قتل نہ کر دے، یہ مسلمان ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کسی مشرک کو بلاوجہ قتل نہ کیا جائے، بلکہ اس کی جان کا تحفظ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، یہ ہمارا مذہب ہے، اس پر ہمیں فخر ہے۔

س: لیکن اسی ریاست میں آپ نے بینکنگ سسٹم میں رہتے ہوئے اپنے اکاونٹس کھلوائے، اسی وجہ سے اداروں نے آپکے اکاونٹس بھی سیز کر دیئے ہیں، اگر بینکنگ چینل کے باہر سے کام کر رہے ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔؟

علامہ شیخ محسن نجفی: (ہنستے ہوئے) آپ نے اچھا سوال کیا ہے، اگر ہم غیر قانونی کام کر رہے ہوتے تو امن سے رہ سکتے تھے، چوری کرتے، اپنے کام چھپا کر کرتے تو امن میں رہ سکتے تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں چوروں کیلئے امن ہے، جو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے امن سے زندگی بسر کرنا چاہے اور اس مملکت کی خدمت کرنا چاہے، اسے تنگ کیا جائے۔

س: کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ بیرون ممالک سے آپکو سپورٹ ملتی ہے، فنڈنگ ملتی ہے۔؟

علامہ شیخ محسن نجفی: جی آپ کی اطلاع کیلئے عرض کئے دیتا ہوں کہ ہم بہت مطعون ہیں کہ ہمیں ایران اور عراقی حکومت سے فنڈز آتے ہیں، میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ کسی بھی حکومت کی طرف سے آج تک ایک روپیہ بھی فنڈ نہیں آیا۔ جو لوگ وہاں پڑھتے ہیں، ان کو ہم یہاں سے پیسے بھیجتے ہیں، عراق کے لوگ آتے ہیں، نسیم کربلا کے سلسلے میں تو ان کا تعلق حکومت سے نہیں ہے، یہ لوگ بارگاہوں اور مزارات سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا تعلق وہاں کی سیاست سے نہیں ہے، کربلا میں بین الاقوامی کانفرنسز ہوتی ہیں، اس میں حکومت کی طرف سے کوئی نمائندہ نہیں ہوتا، وقف اوقاف ہے اور یہ مستقل ادارہ ہے، ان کا حکومت سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔

س: تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپکو چندہ کون دیتا ہے۔؟

علامہ شیخ محسن نجفی: جی میں اسی طرف آرہا ہوں کہ چندہ ہمیں کون دیتا ہے، ہمارے رفاہی کاموں کیلئے پیسہ کہاں سے آتا ہے، عرض کرتا ہوں کہ جب سیلاب آیا تو بیرون ملک پاکستانیوں نے ہم سے رابطہ قائم کیا کہ آپ کوئی ادارہ بنائیں، جس کے توسط سے ہم پیسے بھیجیں اور ضرورت مندوں کی مدد ہوسکے، ہم چاہتے ہیں کہ پیسے ادھر اُدھر نہ ہوں، ہم نے حسینی فاونڈیشن بنائی تو پوری دنیا سے پاکستانیوں نے پیسے بھیجے، اس میں سب سے زیادہ خوجہ برادری نے ایڈ دی، یہ برادری، کینیڈا، امریکہ اور کویت سمیت دیگر ملکوں میں آباد ہے، انہوں نے ہمیں سپورٹ کیا۔ اسی طرح ہمارا اسوہ سکول و کالج سسٹم ہے، ان لوگوں نے کروڑوں روپے تعلیم کی مدد میں خرچ کئے ہیں۔ آپ سکردو سے رپورٹ طلب کرسکتے ہیں، کویت سے لوگ آتے ہیں اور وہ لوگ وہاں ایک ایونٹ کرتے ہیں، جس میں سب کو بلاتے ہیں، ان کے سامنے اعلان کرتے ہیں، سکرود میں ہم سب کیلے محب وطن لوگ ہیں، ان سب کو پتہ ہے کہ ڈونرز کہاں سے آتے ہیں اور کیا اعلان کرتے ہیں، وہاں ہمارے لئے کوئی غلط فہمی نہیں ہے، یہ غلط فہمی فقط اسلام آباد میں ہے، یہاں غلط رپورٹنگ ہوتی ہے۔ آپ بہتر جانتے ہیں کہ رپورٹنگ کس طرح کی ہوتی ہے، وہ اپنی رپورٹس میں لکھتے ہیں کہ یہاں دہشتگرد پلتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم دہشتگردوں کی زد میں آتے ہیں، خود حکومت نے کہا کہ ہماری سکیورٹی میں آجاو، میں نے کہا کہ میں نہیں آتا، میرا گھر نور پور میں تھا، میں نے دہشتگردی کے خطرے کے پیش نظر وہ گھر ہی چھوڑ دیا ہے، اب مدرسے میں رہتا ہوں، جامعہ کوثر بھی راستے بدل بدل کر آتا ہوں، میں خود دہشتگردوں کے نشانے پر ہوں اور سبحان اللہ اب دہشتگرد بن گیا ہوں، اس پر انا للہ و انا الیہ راجعون کہتا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو امن ایوارڈ ملنا چاہیئے تھا، آپ کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو آپ کو ایوارڈ ملتا، آپ نے دس ہزار مکانات بنائے، بیس ہزار بچوں کو پڑھا رہے ہیں، اتنی خدمات انجام دینے پر یہ صلہ ملا ہے۔

س: ابھی کہا کیا جا رہا ہے کہ نام نکالیں گے کہ نہیں، حکومتی سطح پر کوئی رابطہ بھی ہوا ہے یا نہیں۔ ویسے آپکی حمایت میں ملک بھر میں مظاہرے بھی ہوئے۔؟

علامہ شیخ محسن نجفی: مجھے پسند نہیں، لیکن کارگل میں میرے حق میں بڑی ریلی نکالی گئی ہے، صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی احتجاج ہوا ہے، لوگ مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ میں کیا کرتا ہوں۔ اتنطامیہ والے کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کا نام نہیں ڈالا، کچھ کہتے ہیں کہ غلطی سے نام ڈل گیا ہے، ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے غلطی سے ڈل گیا ہوگا، ہمیں آپ کے ساتھ ضد نہیں ہے، چلو اب اس کو نکالیں، انہوں نے اکاونٹس منجمد کر دیئے ہیں، اس میں کسی طور پر ذاتی پیسے بند نہیں ہوئے ہیں، جو پیسے دراصل بند ہوئے ہیں وہ پیسے دراصل غریب، نادار اور ضرورت مندوں کے پیسے ہیں۔

س: حکام بتاتے ہیں کہ آپ پر کیا الزام ہے۔؟

علامہ شیخ محسن نجفی: جی ہم پر الزام ہے کہ ہم دہشتگرد ہیں، دہشتگرد کون ہوتا ہے، جو پرامن لوگوں کو اذیت دے، کم از کم اذیت دے، خون بہانا اس سے بڑھ کر دہشتگردی ہے، تعجب ہوتا ہے، خدایا کیا معجرہ ہے، یہ غریبوں کو تنگ کر رہے ہیں، ان کا آب و دانہ بند کر رہے ہیں، تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعلیم بند کر رہے ہیں، کیا یہ دہشتگردی نہیں ہے، ہم حکومت کو دہشتگرد نہیں کہتے، حالانکہ لوگ اسے ریاستی دہشتگردی کا بھی نام دیتے ہیں، ایک الزام یہ بھی ہے کہ دھرنا دینے (ایم ڈبلیو ایم) والوں کی مدد کی تھی، حالانکہ ہم نے تجویز دی تھی کہ دھرنا ختم کرو، میں نے کہا تھا کہ میں ایک درجن علماء کو لیکر آتا ہوں اور آپ سے التجا کروں گا، اگر کوئی کچھ کہے تو الزام ہم پر ڈال دیں۔ ہم نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ہم پر فائل میں الزام عائد کیا گیا ہے، جو کچھ ہوتا رہا ہے، وہ یہاں سے ہوتا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے