یوم اقبال اورشاعرمشرق کاپیغام

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے تھے۔علامہ اقبال نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیے۔ زمانہ طالبعلمی میں انھیں میر حسن جیسے استاد ملے جنہوں نے آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ اور ان کے اوصاف خیالات کے مطابق آپ کی صحیح رہنمائی کی۔ شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا۔ اور اس شوق کو فروغ دینے میں مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلی تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے یہاں آپ کو پروفیسرآرنلڈ جیسے فاضل شفیق استاد مل گئے جنہوں نے اپنے شاگرد کی رہنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

1905 میں علامہ اقبال اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر بران جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ابتدامیں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعروشاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔

ان کی شخصیت کے کئی عنوان ہیں۔علامہ اقبال کی شخصیت کاسب سے معتبر حوالہ یہ ہے کہ وہ سچے عاشق رسول ۖ تھے۔ان کااس بنیاد پر کشمیر کمیٹی سے استعفادیناکہ ایک قادیانی کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا،آپ کے عشق رسالت ۖ کا بین ثبوت ہے۔ ان کے رونگٹے رونگٹے میں رسول ۖ کا عشق پیوست تھا اور اس آفتاب عالم تابۖ کے ذکروتذکرے کے ا نوا ر ت سے اقبال کی شاعری منور ہے۔مولانا عبد السلام ندوی لکھتے ہیں:ڈاکٹر صاحب کی شاعری محبت وطن اور محبت قوم سے شروع ہو تی ہے محبت الہٰی اور محبت رسول ۖپر اس کا خاتمہ ہو تا ہے،وہ اول و آخر سچے مسلمان اور عاشق رسول ۖتھے۔

وہ شاعر مشرق اورپاکستان کے قومی شاعر ہیں۔علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے۔ آپ کی شاعری زند ہ شاعری ہے،جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل ِ راہ بنی رہے گی ،یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جا تا ہے اور مسلمانان عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے ہیں۔اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔وہ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے، شاعری میں ان کابنیادی رجحان تصوف اور احیائے امتِ اسلام کی طرف تھا،اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری حب وطن کے جذبہ سے سرشار ہے، اپنے وطن ہندوستان سے ان کی والہانہ محبت اور پھر فرنگیوں کے تحت ان کی غلامی نے انھیں بہت متاثر کیا ،پھر قیام یورپ کے دورنے اقبال کے ذہنی اور فکری ارتقا میں ایک انقلاب پیداکردیا ،یہاں سے ان کی فکر میں وسعت اور دل میں ایک عالمگیر اخوت کا جذبہ پیدا ہوگیا، جس کے نتیجے میں وہ ایک ایسی عالمگیر جمعیت کا تصور ڈھونڈنے لگے، جس میں سب کے لیے اخوت و ہمدردی اور عدل و انصاف ہو اور یہ تصورانھیں اسلامی تعلیمات میں نظر آیا۔

اصنافِ شاعری کے لحاظ سے اقبال کا کلام غزل، مرثیہ،مثنوی ، مناظر فطرت ، رباعیات ، ظریفانہ و طنزیہ، قومی اور وطنی نظموں سبھی اصناف سخن پر محیط ہے۔بجاطور پراقبال ہماری زبان کا پہلا شاعر ہے جس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاعر کا کوئی پیام بھی ہوا کرتا ہے،جس کا تعلق ہماری اجتماعی زندگی سے بھی ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر مسلم عزیز درانی نے درست کہاہے :حکیم الامت علامہ محمد اقبال ایک عظیم شاعر تھے،ان کی ولولہ انگیز شاعری نے ہندوستان کے محو خواب مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر بیدار کر دیا۔ ان کا فکر انگیز کلام پاک و ہند کے مسلمانوں کا ہی نہیں ، پوری ملت اسلامیہ کا درخشاں سرمایہ ہے۔

وہ ایک سیاست دان بھی تھے۔1926میں پنجاب اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے عملی سیاست کاآغاز کیا،پھرآل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔انھیں مصور پاکستان کہاجاتاہے،کیوں کہ سب سے پہلے ایک علیحدہ ملک کاتصور انھوں نے ہی پیش کیا تھا،یہی بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ ہے،یہ تصور انھوں نے1930 ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا،1931ء میںانھوں نے گول میز کانفر نس میں شرکت کر کے مسلمانوں کی نمائندگی کی تھی۔تاریخی خطبہ الہ آباد میں ان کا پیش کیاہوانظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا،گوکہ وہ خود اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے اور قیام پاکستان سے تقریباً9برس قبل وہ انتقال کرگئے۔

علامہ اقبال کے متعلق حضرت مولانا سیدعطااللہ شاہ بخاری نے کہا : ”اقبال کو نہ قوم سمجھی نہ انگریز سمجھا، قوم سممجھتی تو کبھی غلام نہ رہتی اور انگریز سمجھ لیتا تو اقبال بستر مرگ پر نہ مرتا بلکہ پھانسی کے پھندے پر مرتا”۔

شاہ جی کے یہ الفاظ آج کی سیاسی وقومی قیادت پر بھی حرف بہ حرف صادق آتے ہیں۔اقبال کانام توسب لیتے ہیں،عقیدت کا دم تو سب بھرتے ہیں،لیکن ان کے پیغام کاپاس ولحاظ کسی کونہیں۔آج جب قوم فرقہ واریت،قومیت وصوبائیت،تعصب وعصبیت اور افتراق وانتشار کاشکار ہے ،یوم اقبال ہمیں یہ پیغام دیتاہے کہ آپس کی نفرتوں کو محبت میں بدل دو اور متحد ہو جاؤ۔ وقتی فائدے سے بالا تر ہوکر ملک وقوم کے لیے سوچو۔کہیں فرقہ واریت ہے اور کہیں ذاتیں،یہ زمانے میں پنپنے کی باتیں نہیں ہیں۔رنگ وخوں کے بتوں کوپاش پاش کرکے ملت میں گم ہوجاؤ۔اپنی اپنی ڈیڑھ اینچ کی مسجدیں اور دکانیں سجا کرنہ بیٹھو،یاد رکھو!فردربط ملت سے قائم ہے،تنہااس کی کوئی حیثیت نہیں۔کیاہے کوئی،جو شاعر مشرق کے اس پیغام پر کان دھرے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے