معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں حضور!

بات نواز شریف کے کرسی چھوڑنے کی نہیں۔ ان سے چھڑانے والوں کی ہے۔ معاملہ کووسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان ، طاہر القادری اور شیخ رشید نما سیاستدانوں کو نواز شریف کو ہٹانے کی اپنی وجوہات بھی ہوں گی لیکن ان کو اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لیے کمک کہیں اور سے ملتی ہے ۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق جب کرپشن کے خلاف باتیں کرنے لگیں تو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ معاملہ کوئی اور ہو تو ہو کرپشن نہیں۔

چھوٹے پیمانے میں کراچی میں مائنس ون فارمولاکے لیے زورلگاتے 25برس ہوگئے لیکن بات بن نہیں رہی ، بڑے پیمانے پرمائنس ون کے لیے اور بھی زور لگانا پڑتا ہے۔ مجیب الرحمٰن کو مائنس کرنے کے لیے آدھا ملک ان کے حوالے کرنا پڑا۔ پھر آئے بھٹو صاحب ، جب دیکھا گیا کہ انھیں سیاسی طور پرمائنس کرنا ممکن نہیں تو پھر عدالتی قتل کے ذریعے انھیں رستے سے ہٹایا گیا۔ دیکھا کہ یہ پیپلز پارٹی تو بڑی ڈھیٹ ہے، تو اس پارٹی کو مائنس کرنے کے لیے جو کچھ ہوا اس سے کون واقف نہیں۔ ضیاء دور میں جن کی جوانی غارت ہوئی ان کے لہجوں میں تلخی اور کڑواہٹ اب تک محسوس ہوتی ہے ۔

ضیا ء الحق واصل بحق ہوئے تو اس کے بعد ہونے والے الیکشن میں بینظیر بھٹوکا رستہ روکنے کے لیے آئی جے آئی بنائی گئی ، جس کا ڈنکے کی چوٹ اعتراف بھی ہوتا رہا۔ اس اتحاد کے بطن سے ہی بعد ازاں نواز شریف قومی سطح کے لیڈر بن کر ابھرے۔ 1988ء کے الیکشن میں دھاندلی کے باوجود پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کرلی اورادھر پنجاب میں نواز شریف وزیراعلیٰ بن گئے ۔دونوں کی درمیان مخاصمت کا آغاز ہوا جس کی شدت میں آئیندہ ایک عشرے تک اضافہ ہوتا گیا۔ اس زمانے میں یار لوگ یہ بات بہت زور دے کر کہتے تھے کہ یہ یہ دونوں ایک دوسرے کو تو برداشت نہیں کرتے ، جمہوریت کیا چلائیں گے۔

جب ایک دوسرے سے یہ سیاسی لیڈرلڑتے تھے تو اس وقت ان پربجا طور پرتنقید ہوتی تھی اور پھرجب ان کو عقل آئی یا حالات نے سبق سکھایا اور انھوں نے لڑانے والے فریق کا کھیل سمجھ لیا تو میثاق جمہوریت ہوگیا جسے مک مکا کا نام دے دیا گیا۔ یعنی جب وہ لڑیں تو کہا جائے یہ کیا جانیں جمہوریت کیا ہے ؟اور جب ایسا نہ کرنے کا عہد کریں تو مک مکا؟ یہ عجب منطق ہے۔

1999ء میں نوازشریف کو اقتدار سے ہٹا کر مائنس کیا گیا . اس وقت بھی بڑے جغادری سیاست دان اور صحافی یہ کہتے پھرتے تھے کہ اس شخص کا سیاست میں کردار ختم ہوگیا لیکن وہ تیسری بار وزیر اعظم بن گئے ۔ اس سے پہلے بینظیرپہلے ہی سیاست سے مائنس کردی گئی تھیں۔ اب سیاست سے نواز شریف کو مائنس کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ سیاست کی گلیاں سنجیاں اوران میں مرزا یار پھرے یا اس کے پروردہ ۔ یقین جانیے، اگر آپ نوے کی دھائی کے اخبارات کی فائلیں نکال کردیکھیں تو آپ کو اس زمانے میں نواز شریف اور بینظیر کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور عمران خان کے حالیہ بیانات میں حیرت انگیز مماثلت محسوس ہوگی کیوں کہ بیچ میں موسم بدلے ،رت گدرائی اور بھی بہت کچھ ہوا لیکن نہیں بدلے تو ہینڈلر نہیں بدلے۔

پیپلزپارٹی کے لوگ مثال پیش کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنا وزیر اعظم قربان کرسکتی ہے تو نواز شریف اپنی سیٹ کی قربانی کیوں نہیں دے سکتے؟ یہاں بات وزیراعظم کے عہدے کی نہیں، شخصیت کی ہے ، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف میں بہت فرق ہے۔ نواز شریف کے نام پرلوگ ووٹ دیتے ہیں ، یوسف رضا گیلانی کے نام پر پیپلز پارٹی ووٹ حاصل نہیں کرتی اورمیرے خیال میں ان کی جگہ اگر بینظیر، افتخار محمد چودھری کی عدالت سے نااہل ہوتیں تو پیپلز پارٹی کسی راجہ پرویز اشرف کو ان کی جگہ پیش نہ کرتی ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1996ء میں بھی بینظیر پراستعفا دینے کا دباؤ تھا جسے وہ قبول کرکے حکومت بچا سکتی تھیں لیکن یہ راستہ اختیار نہ کیا گیا۔

سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں بعض قوتوں کو ان سیاست دانوں سے نفرت ہے، جن کی عوام میں جڑیں ہوں اور لوگ انھیں ووٹ بھی دیتے ہوں ، ان سے تواپنے لائے ہوئے جونیجو اور جمالی جیسے ٹھنڈے ٹھاڑ وزیراعظم برداشت نہیں ہوتے ، یہ بھٹو ، بینظیر اور نواز شریف کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ان کی پسند کا وزیر اعظم تو ایک ہی آیا ہے وہ ہے شوکت عزیز،جو عہدے سے اترنے کے بعد بیرون ملک چلا گیا اورپھر کبھی لوٹا نہیں۔ ان کو ایسا ہی ڈمی وزیر اعظم چاہیے۔

نواز شریف کی کرپشن ایشو نہیں، اگر ایسا ہوتا تو 1999ء میں مشرف انھیں ہٹا کر عمران خان کے لفظوں میں سیاسی ٹھگوں کو اپنے ساتھ شامل نہ کرتے ، جب وہ ایسا کر رہے تھے تو عمران خان نے ڈکٹیٹر سے کہا تھا کہ بینظیر اور نواز شریف کرپٹ ہیں لیکن ان کی عوام میں مقبولیت تو ہے ،جن کو وہ ملارہے ہیں، ان کو تو عوام میں پذیرائی بھی حاصل نہیں۔

استدعا ہے کہ نوازشریف کو منظر سے ہٹانے کے لیے کرپشن کے پیچھے چھپی ہوئی بہت سی دوسری وجوہات پرنظر دوڑانے کی ضرورت ہے کیونکہ معاملہ اتنا سادہ نہیں، جتنا سمجھا جارہا ہے۔ مقبول سیاسی لیڈر کو سیاسی عمل کے ذریعے مائنس ہوتے تو ہم نے اپنی تاریخ میں دیکھا نہیں، اس لیے اسے منظر سے ہٹانے کے لیے دوسرے داؤ پیچ آزمائے جاتے ہیں اور ایسا ہی کچھ لگتا ہے نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے۔

چلیں‌ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں‌کہ نواز شریف تو ٹھہرے ڈفر لیکن حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو کے پاس تو ممتاز تعلیمی اداروں کی ڈگریاں تھیں۔ان کا وژن تھا۔ دنیا میں ان کی شناخت تھی، اور تو اور ان کے بدترین دشمن بھی ان پرمالی کرپشن کا الزام نہیں لگاسکتے مگر انہیں ڈکٹیٹروں نے جس طرح ذلیل کیا ،وہ ہماری تاریخ کا شرمناک باب ہے۔ اور ہاں یاد آیا ،ان دونوں سے بہت پہلے لیاقت علی خان کو مائنس کیا گیا تھا،جن کے جیسے مالی اعتبار سے دیانت دار آدمی برصغیر میں کم ہی پیدا ہوئے ہیں۔

مختصر یہ کہ جس طرح انسان اپنی ذات سے ذرا بلند ہو کر نہ سوچے تو بہت سے معاملات میں‌انصاف نہیں کر سکتا، اسی طرح سیاسی امور میں بھی شخصیات کے دائرے سے نکل کر نہ سوچنے سے بھی اکثر لکھاری اور تجزیہ کار ٹھوکر کھا جاتے ہیں‌.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے