قیام پاکستان ،متحدہ پنجاب کی تقسیم اور جماعت احمدیہ

آئی بی سی اردو پر مجلس احرارالاسلام کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری جناب ڈاکٹر عمر فاروق احرار صاحب نے ’’متحدہ پنجاب کی تقسیم اور قادیانی‘‘ کے عنوان سے مضمون تحریر کیا ہے جس میں موصوف نے کوشش کی ہے کہ جماعت احمدیہ کو قیام پاکستان کا مخالف اور ملک کے خلاف سازشیں کرنے والی جماعت کے طور پیش کیا جائے۔

مجلس احرارالاسلام کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری جناب ڈاکٹر عمر فاروق احرار صاحب کا مضمون پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کیجئے

آنجناب لکھتے ہیں:’’ قادیانی جماعت جسے میرے فاضل دوست محب وطن اور تحریک پاکستان کی حامی جماعت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں۔‘‘

واللہ اعلم ڈاکٹر صاحب کے پاس کون سے تاریخی حقائق ہیں جو اس بات کے برعکس ہیں کہ جماعت احمدیہ قیام پاکستان اور ترقی پاکستان کی مخالف جماعت ہے۔ہماری دسترس میں جو تاریخ ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے ہے کہ جماعت احمدیہ قیام پاکستان کی تحریک میں پیش پیش تھی اور دامے درمے سخنے قائد اعظم کی بھرپور مدد کرتی رہی۔

[pullquote]ڈان کی گواہی[/pullquote]

قائداعظم محمد علی جناح کے جاری کردہ اخبار ’’ڈان‘‘ میں شائع ہونے والی خط وکتابت پیش ہے۔یہ خط قائداعظم نے خود اخبار میں شائع کروایا تھا۔ایک قصبہ کے احمدیوں نے اپنے امام مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی خدمت میں معاملہ بھیجا کہ
’’ ہمیں ایک معاملہ میں حضور کی راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ اس قصبہ میں ہم چند ایک احمدی رہتے ہیں، موجودہ انتخابی مہم میں مسلم لیگ اور کانگرس دونوں نے ہم سے رابطہ کیاہے کہ ہم چندوں کے ذریعے سے ان کی پارٹی اور ان کے امیدواروں کی امداد اور حمایت کریں ۔‘‘

امام جماعت احمدیہ کی طرف سے جواباً تحریر کیا گیا کہ:

’’آپ کو موجودہ انتخاب میں مسلم لیگ کی حمائت کرنی چاہیے۔ جس طرح بھی ممکن ہو مسلم لیگ سے تعاون کریں ۔مسلمانوں کو موجودہ بحران میں ایک متحدہ محاذکی شدید ضرورت ہے اگر ان کے اختلافا ت موجود رہے تو صدیوں تک ان کے برے اثرات کا خمازہ بھگتنا پڑے گا ۔‘‘
(ڈان 8اکتوبر 1945ء)

[pullquote]مشرق اخبار کی گواہی
[/pullquote]

جماعت احمدیہ کے دوسرے امام اورخلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے تحریک آزادی پاکستان کے دوران قدم قدم پر مسلمانوں کی نہ صرف علمی ونظری راہنمائی کی بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہر ممکن عملی کوششیں بھی کیں ۔اور مسلمانوں کے خلاف ہندو کانگرس کے پلیٹ فارم سے اٹھنے والی تحریکات شدھی ،ترک موالات ،خلافت اور ہجرت وغیرہ کے نقصانات سے مسلمانان ہند کو بروقت آگاہ کیا اور ہندو کیمپ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی ہر سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے اس کا موثر جواب دیا۔ انہیں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اخبار’’مشرق ‘‘گورکھ پور نے لکھا :۔
’’ جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمیعت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سرانجام دے رہی ہے‘‘
(اخبار مشرق گورکھ پور 23 ستمبر 1927 ء )

[pullquote]قائداعظم کی گواہی
[/pullquote]

ہندوستانی سیاست سے مایوس ہوکر محمد علی جناح لنڈن منتقل ہوگئے اور وہاں پر اپنی قانونی پریکٹس شروع کردی تو انہوں نے خود فرمایامجھے اب ایسا لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی لاسکتا ہوں اور نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔اس صورت حال سے مایوس ہوکر قائداعظم نے لندن میں ہی رہائش کا فیصلہ کیا۔

اس صورت حال سے ملت کا درد رکھنے والے مسلمانوں کو سخت دھچکا لگا ۔چنانچہ امام جماعت احمدیہ نے جماعت کی ایک قابل شخصیت امام بیت الفضل لندن مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم اے کے ذریعہ قائداعظم پر زور ڈالا کہ وہ دوبارہ ہندوستان سیاست میں آئیں ۔قائداعظم کو قائل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن خدا کا شکر ہے کہ مولانا درد صاحب کے مسلسل اور پرخلوص اصرار کے نتیجہ میں بالاآخر قائداعظم ہندوستان واپس آئے اور مسلمانوں کی خدمت پر کمر بستہ ہوگئے۔لندن مسجد میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ
’’امام صاحب کی فصیح و بلیغ و تلقین نے میر ے لئے کوئی جائے فرار باقی نہیں چھوڑی ‘‘
(انسائیکلو پیڈیاقائداعظم زاہد حسین انجم ناشر مقبول اکیڈمی صفحہ 780)
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز صحافی جناب م ش (محمد شفیع)صاحب لکھتے ہیں:۔
’’یہ مسٹر لیاقت علی خان اور مولانا عبد الرحیم درد ہی تھے جنہوں نے مسٹر محمد علی جناح پرزور دیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آکر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔‘‘
(پاکستان ٹائمز11 ستمبر1981 ؁ء صفحہ2 کالم نمبر1 )

[pullquote]مخالفین کی گواہی[/pullquote]

نامور اہل حدیث عالم میر ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے ’’پیغام ہدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ‘‘ کے صفحہ ۱۱۲، ۱۱۳ پر لکھا:
’’احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے (تحریک پاکستان مراد ہے۔ ناقل) کے نیچے آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔‘‘
یہ حقائق تو یہ ثابت کررہے ہیں کہ جماعت احمدیہ تحریک پاکستان میں دیگر مسلمانوں اور قائداعظم کے شانہ بشانہ کام کررہی تھی اور آج پاکستان کو پلیدستان کہنے والوں کے وارثین جماعت احمدیہ کو پاکستان دشمن جماعت قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ تاریخ بہرحال موجود ہے اور تاریخ یہی ہے کہ جماعت احمدیہ محب وطن اور قیام پاکستان کی حامی تھی۔

[pullquote]ہندو اخبار کی گواہی[/pullquote]

23 مارچ1940 کو لاہور میں قرار دادپاکستان پاس ہوئی۔ اس کے بعد سر سٹیفورڈ کرپس ہندوستان آئے اور ہندوستان کی آزادی کے لئے ایک جدید فارمولا پیش کیا جسے مسلم لیگ اور کانگرس دونوں نے مسترد کر دیا۔جس کے نتیجہ میں ہندوستان کی آزادی ناممکن دکھائی دینے لگی۔ انہی دنوں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان جانا پڑا ۔آپ نے انگریز حکومت کے سامنے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ ایسے مدلل زور دار اور پر شوکت الفاظ میں پیش کیا کہ دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا اور حکومت برطانیہ نے مجبوراً لارڈویول وائسرائے ہند کو انتقال اقتدار کا نیا فارمولا دینے کے لئے لندن طلب کرلیا۔اس موقعہ پر ایک ہندو اخبار ’’پربھات‘‘نے لکھا کہ
’’ایک ایک ہندوستانی کو سر ظفر اللہ خان کا ممنون ہونا چاہئیے کہ انہوں نے انگریزوں کے گھر جا کر حق کی بات کہہ دی۔‘‘
(اخبار پربھات20 فروری1945 )

1945 کے اواخر میں وائسرائے ہندسرویول نے انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ ان انتخابات میں ہندو کانگرس نے مسلمان علماء کے ذریعہ پاکستان اور مسلم لیگ کے خلاف پراپیگنڈہ کا ایک جال پھیلا دیا تا مسلم لیگ ان انتخابات میں ناکام ہو اور پاکستان کا قیام عمل میں نہ آسکے۔ ایسے وقت میں امام جماعت احمدیہ نے یہ اعلان فرمایا’’آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئیے‘‘
(روزنامہ الفضل 22 اکتوبر1945 )

اس بارہ میں آپ کا ایک خط قائد اعظم نے خود پریس کو جاری کیا جو انگریزی اخبار Dawn(ڈان)میں 8 اکتوبر1945 کو شائع ہوا جس کا حوالہ اوپر آچکا ہے۔

[pullquote]
مجلس احرارالاسلام کی گواہی[/pullquote]

مسلم لیگ کی اس حمایت پرڈاکٹر عمر فاروق کی جماعت مجلس احرار اسلام نے یوں تبصرہ کیا۔

’’1945 میں جب انتخابات کا زمانہ شروع ہوا تو مرزائیوں اور لیگیوں میں خفیہ ساز باز شروع ہوئی ۔مرزا محمود احمد خلیفہ قادیان نے اکتوبر کے مہینہ میں ایک اہم اعلان کیا۔۔۔۔اس کے بعد مسٹر جناح نے کوئٹہ میں تقریر کی اور مرزا محمود احمد کی پالیسی کو سراہا اور اس کے بعد سنٹرل اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دئیے یہاں تک کہ۔۔۔۔کسی زمانہ میں مرزائیوں کے شدید ترین دشمن ۔۔۔۔مولانا ظفر علی خان کے حق میں ووٹ ڈالے گئے۔‘‘
(کتابچہ مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ صفحہ 18-19 )

قیام پاکستان میں جماعت احمدیہ کی کوششوں اور کاوشوں کے متعلق یہ وہ گواہی ہے جو دشمن بھی دینے پر مجبور ہے۔اس کے بعد بھی ڈاکٹرعمر فاروق صاحب یہ کہتے رہیں کہ جماعت احمدیہ ملک دشمن ہے تو انہیں خدا ہی سمجھائے۔

[pullquote]متحدہ پنجاب کی تقسیم [/pullquote]

اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ :
“قادیانیوں کا روحانی مرکز قادیان بھی گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کا ایک قصبہ تھا۔قادیانی چاہتے تھے کہ قادیان ہندوستان میں شامل رہے۔‘‘
سفید جھوٹ کا محاورہ شاید ایسے ہی معاملات کے لئے بولا جاتا ہے جب سامنے کے حقائق کو جھٹلا کر ایسا بیانیہ تراشا جائے جس میں اپنی مرضی کا سچ بولا اور پھیلایا جائے۔آئیں ذرا دیکھتے ہیں تاریخی حقائق کیا ہیں۔

نیشنل ڈاکیومینٹیشن سینٹر لاہور(National Documentation Centre Lahore)نے ایک کتاب بعنوان ’’متحدہ پنجاب کی تقسیم ۱۹۴۷ (The partition of Punjab 1947) شائع کی ہے۔اس کتاب کے صفحہ 240 پر باونڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کے نمائندہ وکیل شیخ بشیر احمد کا پہلا جملہ ہی یہ ہے:

’’میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی معروضات اس معین معاملہ تک ہی محدود رکھوں یعنی قادیان کا خصوصی دعوی او ر موقف کہ اس بستی کو مغربی پنجاب { یعنی پاکستان – ناقل} میں شامل کیا جائے۔‘‘

آگے چل کر شیخ بشیر احمد کہتے ہیں :
’’قادیان اسلامی دنیا کا ایک فعال بین الاقوامی یونٹ بن چکا ہے ۔اس لئے اس یونٹ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہندوستان میں شامل ہونا چاہتا ہے کہ پاکستان میں اور ہم نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ‘‘
(صفحہ 251)

ڈاکٹر عمرفاروق صاحب نے اپنے مضمون میں جسٹس منیر کے آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ جسٹس منیر حیران رہ گئے کہ”گورداسپور کے متعلق احمدیوں نے اس وقت ہمارے لئے سخت پریشانی پید ا کر دی”۔ جسٹس منیر صاحب 1953کے فسادات کی تحقیقاتی عدالت کے سربراہ تھے، اس رپورٹ میں وہ خود لکھ چکے تھے۔

“احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزام لگائے گئے ہیں کہ باونڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان نے جنہیں قائد اعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کئے۔ لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خان نے گورداسپور کے معاملہ میں کی تھی۔ یہ حقیقت باونڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس معاملے میں دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے ۔چوہدری ظفر اللہ خان نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔ ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے۔
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 209)

تحریک پاکستان کے معروف کارکن اور سابق وزیر و سفیر احمد سعید کرمانی قومی ڈائجسٹ (اگست 2002)کے ایک سوال کے جواب میں بتاتے ہیں ۔
’’قائداعظم نے رائٹ مین فاررائٹ جاب چنا۔ ظفرا للہ خان کی چائس بھی قائداعظم کی تھی ظفر اللہ خان قیام پاکستان کے موقع پر نواب آف بھوپال کے آئنی مشیر تھے۔ قائداعظم نے بلایا کہ آپ باونڈ ری کمیشن کے آگے مسلم لیگ کا کیس پیش کریں۔ وہاں سے اچھی خاصی تنخواہ اور مراعات چھوڑ کر آگئے۔ مطلب یہ کہ قائداعظم کو خداتعالیٰ نے اچھی خاصی مردم شناسی دی تھی۔‘‘
(از انٹرویوماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ 2002صفحہ 26,27)

تحریک پاکستان کے مورخ ڈاکٹر عاشق حیسن بٹالوی اپنی کتاب ۔’’ہماری قومی جدوجہد (پاکستان ٹا ئمز پریس لاہور پرینٹر و پبلشرالطاف حسین ماڈل ٹاون لاہور )کے صفحہ 76پر 1939ء میں ہندوستان کی مرکزی اسمبلی میں کی گئی قائداعظم کی تقریر کا یہ اقتباس نقل کرتے ہیں :

’’میں اپنی اور اپنی پارٹی کی طرف سے آنر ایبل سر محمد ظفراللہ خان صاحب کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔وہ مسلمانوں میں یوں کہنا چاہئے کہ میں اپنے بیٹے کی تعریف کر رہا ہوں۔ مختلف حلقوں نے جو ان کی تعریف کی اور ان کو مبارک باد دی، میں اس کی تائید کرتا ہوں ‘‘

جہاں تک اس الزام کا سوال ہے کہ جماعت احمدیہ نے علیحدہ میمورنڈم پیش کرکے مسلم لیگ کا کیس کمزور کیا تو اس سے بھیانک مذاق بھی شاید ہی کوئی ہو۔سرظفراللہ خان صاحب اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

” اس وقت غیر مسلموں کی جانب سے پراپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ چونکہ بعض مسلمان احمدیوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے، اس لئے مسلمان اس دعوے میں سچے نہیں ہیں کہ ضلع گورداسپور میں وہ اکثریت میں ہیں کیونکہ احمدیوں کو مسلمانوں میں شمار نہ کرنے کی صورت میں ضلع گورداسپور میں مسلمان اکثریت میں نہ رہتے۔”

یعنی غیرمسلموں کی مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ کا جواب دینے کے لئے جماعت احمدیہ میمورنڈم پیش کررہی تھی اور آج وہی مسلمان اعتراض کررہے کہ جماعت احمدیہ نے ایسا جان بوجھ کر مسلم لیگ کا کیس کمزور کرنے کے لئے کیا۔یاللعجب!
باونڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کے وکیل شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے خط میں لکھا “سکھوں کی طرف سے پیش کردہ میمورنڈم میں یہ استدلال پیش کیا گیا تھا کہ چونکہ گورو گوبند سنگھ کی جائے پیدائش گوبند گورداسپور میں واقع ہے اس لئے اس خاص امر کا لحاظ رکھنے سے مسلمانوں کی ایک اعشاریہ چار کی اکثریت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔۔۔۔ اس دعوی کو بے اثر کرنے کی غرض سے اس کے بالمقابل دعوی پیش کرنے کے لئے مسلم لیگ نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت احمدیہ کو علیحدہ محضرنامہ پیش کرنا چاہئے۔‘‘

اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ باونڈری کمیشن میں تیئیس 23میمورنڈم داخل کرائے گئے تھے جن میں مسیحی برادری بھی شامل تھی۔
(صفحہ 474۔475The Partition of Punjab 1947 , Volume I)
مسلم لیگ بٹالہ نے بھی ایک میمورنڈم کمیشن میں پیش کیا تھا جس میں سکھوں کے مقدس مقامات کی بناپر ضلع کو ہندوستان میں شامل کرنے کی دلیل کو رد کرنے کی غرض سے یہ حقیقت واضح کی گئی کہ اگر مقدس مقامات کی بنیاد پر کسی علاقے کے پاکستان یا انڈیا میں شامل ہونے کا فیصلہ ہونا ہے تو قادیان میں مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے اور اس کے مقدس مقامات وہاں موجود ہیں اور وہاں کے احمدیوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔حوالے کے لئے ملاحظہ فرمائیے:
(صفحہ 472The Partition of Punjab 1947 , Volume I)
یہ حقائق تو وہ ہیں جو جماعت احمدیہ کو تحریک پاکستان کے سفر میں قائداعظم کا ہمنوا وہمسفر ثابت کررہے ہیں۔حیف مخالفت انسان کو ناانصافی تک لے آتی ہے حالانکہ خدا کی کتاب کہتی ہے’’اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف نہ کرو۔انصاف کرو کہ انصاف اللہ کو پسند ہے۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے